ربڑ آخری کوشش تھی‘ وہ لیبارٹری میں ربڑ بنانا چاہتا تھا‘ ربڑ بن گیا لیکن کوالٹی اچھی نہیں تھی‘ وہ کوالٹی بہتر بنانے کی کوشش کرتا رہا لیکن موت کا فرشتہ آ گیا‘ وہ مسکرایا اور اپنا آپ اس کے حوالے کر دیا‘ موت کا فرشتہ اسے لے گیا مگر مجھے یقین ہے موت کے فرشتے کو اس کی جان قبض کرتے وقت بہت افسوس ہوا ہو گا‘ وہ اس سے آنکھ نہیں ملا پایا ہو گا‘ وہ ایک ایسے انسان کی آنکھ میں آنکھ کیسے ڈالتا جس نے اللہ کے دیئے
ہوئے ایک ایک لمحے کو استعمال کیا‘ جس نے اپنی زندگی دوسروں کی زندگی بہتر بنانے کےلئے وقف کر دی‘ میں صبح دس بجے اس عظیم انسان کی اس لیبارٹری کے دروازے پر کھڑا تھا جس میں اس نے نسل انسانی کو 1100 ایسی ایجادات دیں جنہوں نے ہم سب کی زندگی بدل دی‘ یہ دنیا رہنے کےلئے زیادہ بہتر ہو گئی‘ گارڈ نے تالہ کھولا‘ لوہے کے گیٹ سے چڑڑ چڑڑ کی آواز آئی اور ہم اندر داخل ہو گئے۔آپ دنیا کے کسی کونے میں بیٹھ جائیں‘ آپ کچھ بھی کر رہے ہوں‘ آپ زندگی کی کسی بھی نعمت سے لطف اندوز ہو رہے ہوں آپ تھامس ایڈیسن کا شکریہ ادا کئے بغیر نہیں رہ سکیں گے‘ پلاسٹک ہو‘ سیمنٹ ہو‘ چھت کا پنکھا ہو‘ ٹیلی پرنٹر ہو‘ ٹائپ رائٹر ہو‘ آڈیو سسٹم ہو‘ فلم ہو‘ ایکسرے ہو‘ بیٹری ہو‘ فوم ہو‘ بجلی کا بلب ہو‘ ٹارچ ہو‘ بال پین ہو اورالیکٹرسٹی ڈسٹری بیوشن سسٹم ہو آپ دنیا کی کسی اہم ایجاد کا نام لیں آپ کو اس کے پیچھے ایڈیسن کا نام ملے گا‘ وہ ان پڑھ تھا‘ وہ چند ماہ سکول گیا‘ اساتذہ نے اسے نالائق قرار دے کر نکال دیا‘ آٹھ سال کی عمر میں تجربے شروع کئے‘ گھر کو آگ لگ گئی‘ مار پڑی لیکن وہ باز نہ آیا‘ ماں نے اسے گھر سے ذرا سے فاصلے پر تجربہ گاہ بنانے کی اجازت دے دی‘ وہ تجربے کرتے کرتے دس سال کا ہوا‘ ریل گاڑی میں اخبار بیچنے لگا‘ وہ اپنا اخبار خود شائع کرتا تھا‘ وہ ریل گاڑی کے باتھ روم میں بھی تجربے کرتا تھا‘ تجربوں کے دوران ایک دن ڈبے میں آگ لگ گئی‘
گارڈز نے اسے پلیٹ فارم پر پٹخ دیا‘ یہ مار اس کے ایک کان کی قوت سماعت لے گئی‘ وہ آدھا بہرہ ہو گیا لیکن وہ اس کے باوجود ڈٹا رہا‘ وہ تجربے کرتا رہا یہاں تک کہ وہ دنیا کا سب سے بڑا سائنس دان بن گیا‘ دنیا دو حصوں میں تقسیم ہو گئی‘ ایڈیسن سے پہلے کی دنیا اور ایڈیسن سے بعد کی دنیا۔وہ نیوجرسی میں رہتا تھا‘ وہ جس شہر میں رہتا تھا وہ پورا شہر آج ایڈیسن کہلاتا ہے‘ ایڈیسن شہر نیویارک سے 30 منٹ کی ڈرائیو پر واقع ہے لیکن یہ شہر آپ کو وقت اور شکر میں تین سو سال آگے لے جاتا ہے‘
یہ آپ کے دماغ کی ساری کھڑکیاں کھول دیتا ہے‘ آپ اگر علم پسند ہیں تو پھر ایڈیسن شہر میں تھامس ایڈیسن سے متعلق تین مقامات دیکھنا آپ پر فرض ہو جاتے ہیں‘ پہلا مقام ایڈیسن کی تجربہ گاہ ہے‘ یہ تجربہ گاہ سائنس کا کعبہ ہے‘ ہم اڑھائی گھنٹے اس کعبے میں رہے اور ہر پانچ منٹ بعد دنیا کے اس عظیم انسان کا شکریہ ادا کرنے پر مجبور ہو جاتے‘ لیبارٹری کے بے شمار حصے ہیں‘ پہلا حصہ ایڈیسن کی لائبریری ہے‘ یہ لکڑی کی تین منزلہ عمارت ہے‘ عمارت کے چاروں طرف کیبن بنے ہیں‘
ہر کیبن کی دیواروں پر کتابیں لگی ہیں اور کتابوں کے درمیان ایک کرسی پڑی ہے‘ ہر کیبن سائنس کا ایک سیکشن ہے‘ ایڈیسن ان پڑھ تھا لیکن اس نے فرنچ‘ جرمن اور اطالوی زبانیں سیکھ لیں‘ وہ دن کا ایک بڑا حصہ لائبریری میں کتابیں پڑھ کر گزارتا تھا‘ لائبریری میں اس کا بیڈ بھی رکھا ہوا تھا‘ وہ اکثر اوقات پڑھتے پڑھتے وہیں سو جاتا تھا‘ میں نے زندگی میں بے شمار لائبریریاں دیکھی ہیں لیکن یہ لائبریری انوکھی بھی تھی اور پرکشش بھی‘ یہ میرے دل میں اتر گئی‘
لیبارٹری کے دوسرے فلور پر ”فونو گرام“ کا کمرہ تھا‘ ایڈیسن نے فونو گرام ایجاد کر کے ہم انسانوں کو آڈیو سسٹم دیا تھا‘ فونو گرام پر ایڈیسن کے 35 سال خرچ ہوئے لیکن اس نے کمال کر دیا‘ اس سیکشن میں اس کے ایجاد کردہ فونو گرام اور ریکارڈ (ڈسکیں) رکھے ہیں‘ ا سے اگلا سیکشن اس کی چھوٹی تجربہ گاہ ہے‘ اس تجربہ گاہ میں ہزاروں چھوٹے بڑے آلات اور اوزار رکھے ہیں‘ یہ تجربہ گاہ ایک بڑی خراد گاہ سے منسلک ہے‘ خراد گاہ میں بڑی مشینیں لگی ہیں‘ اس نے خراد گاہ کےلئے بجلی کا اپنا نظام بنا رکھا تھا‘
وہ سسٹم تاحال موجود ہے‘ خراد سے اگلے سیکشن میں اس کی ایجاد کردہ اشیاءرکھی ہیں‘ اس سیکشن سے گزرتے ہوئے معلوم ہوتا ہے دنیا کی ہر اہم چیز ایڈیسن نے ایجاد کی تھی‘ ایکسرے مشین کے سامنے کھڑے ہو کر پتہ چلا‘ یہ مشین اس نے بڑی مشکل سے ایجاد کی تھی‘ ایکسرے کی ایجاد کے دوران اس کے بے شمار ورکرز تابکاری کا نشانہ بنے اور انتقال کر گئے‘ وہ خو بھی تابکاری کا شکار رہا لیکن جب ایکسرے ایجاد ہو گیا تو اس نے یہ ایجاد عام کر دی‘
دنیا کا کوئی بھی شخص اور کوئی بھی کمپنی ایکسرے مشین بنا سکتی تھی‘ یہ اس کی ذات کا کھلا پن اور فراخ دلی تھی‘ ایڈیسن کی تجربہ گاہ کا دوسرا اہم مقام کیمسٹری لیب تھا‘ یہ لیب لیبارٹری کے احاطے میں ایک الگ کمپاﺅنڈ میں قائم تھی‘ ہم کیمسٹری لیب میں داخل ہونے لگے تو گائیڈ نے اعلان کیا ”آپ دنیا کے ایک ایسے مقام میں داخل ہو رہے ہیں جس نے پوری دنیا کا لیونگ سٹینڈرڈ بدل دیا‘ یہ لیب انسانوں کی بہت بڑی محسن ہے“ ہم اندر داخل ہوئے‘
یہ کسی سائنس کالج کی لیبارٹری جتنی لیب تھی لیکن اس میں دنیا کی بڑی بڑی ایجادات وقوع پذیر ہوئی تھیں‘ بیٹری‘ ٹارچ‘ ایکسرے‘ فونو گرام کی ڈسک اور ربڑ سمیت بے شمار ایجادات نے اس لیب میں آنکھ کھولی تھی‘ لیب میں تمام اشیاءجوں کی توں رکھی تھیں‘ شیشے کے جاروں میں کیمیائی مادے بھی اسی طرح رکھے تھے اور میزوں پر ٹیوبیں اور اوزار بھی ایڈیسن کا انتظار کر رہے تھے‘ لیبارٹری کے شیشے دودھیا تھے‘ گائیڈ نے بتایا ایڈیسن کے حریف پہاڑی پر دوربینیں لگا کر اس کے کام کی جاسوسی کرتے رہتے تھے‘
ایڈیسن نے ان جاسوسوں سے بچنے کےلئے شیشے دودھیاں کر دیئے تھے‘ یہ لیبارٹری سردیوں اور موسم بہار میں قابل برداشت ہوتی تھی لیکن یہ گرمیوں میں ناقابل برداشت حد تک گرم ہو جاتی تھی مگر اس کے باوجود ایڈیسن اور اس کے ساتھی کام کرتے رہتے تھے‘ لیبارٹری کے صحن میں سیاہ رنگ کا وہ سٹوڈیو بھی موجود تھا جس میں ایڈیسن نے پہلی موشن فلم بنائی تھی‘ یہ سٹوڈیو دنیا میں سینما کی بنیاد تھا اور وہاں ایڈیسن کا بنایا ہوا دنیا کا پہلا بلب اور پہلا ٹائپ رائیٹر بھی موجود تھا‘
لیبارٹری کا ایک ایک انچ اس کے جینئس ہونے کی دلیل تھا اور آپ ہر جگہ رک کر دنیا کے اس عظیم انسان کا شکریہ ادا کرنے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ایڈیسن کا گھر تیسرا قابل زیارت مقام تھا‘ یہ گھر لیبارٹری سے پانچ منٹ کی ڈرائیو پر واقع تھا‘ یہ 29 کمروں کا محل نما گھر تھا‘ یہ گھر اس نے اپنی دوسری بیگم میناملرکےلئے خریدا تھا‘ گھر کے دائیں بائیں وسیع جنگل تھا‘ پچاس فٹ اونچے چیڑھ کے درخت تھے‘ درختوں کے درمیان چہل قدمی کےلئے راستے بنے تھے‘
گھر کے چاروں اطراف وسیع لان تھے‘ لان میں پھولوں کے قطعے اور بیلوں کی لمبی باڑ تھی‘ گھر اندر سے بادشاہوں کی رہائش گاہ لگتا تھا‘ دیواروں پر قیمتی پینٹنگز لگی تھیں‘ فرنیچر اور کراکری انتہائی قیمتی تھی‘ قالین اور صوفے سو سال پورے کر چکے تھے لیکن اس کے باوجود یوں محسوس ہوتے تھے جیسے ایڈیسن ابھی یہاں سے اٹھ کر گیا ہے اور وہ کسی بھی وقت واپس آ جائے گا‘ ایڈیسن کے ہیٹ‘ چھڑیاں‘ بوٹ اور کپڑے بھی سلیقے سے رکھے تھے‘
کچن اور ڈائننگ روم بھی قابل استعمال محسوس ہوتا تھا‘ سٹڈی میں رائٹنگ ٹیبل رکھی تھی اور دیواروں میں کتابوں کی شیلفیں تھیں‘ وہ مطالعے کا رسیا تھا شاید اسی لئے اس کے گھر اور لیبارٹری دونوں جگہوں پر ہزاروں کتابیں موجود تھیں‘ وہ ایک باذوق انسان تھا‘ اس کا ذوق اور نفاست گھر کی ایک ایک چیز سے جھلک رہی تھی‘ گھر کے پچھواڑے میں دو قبریں تھیں‘ ایک قبر میں ایڈیسن محو آرام ہے اور دوسری میں اس کی اہلیہ مینا ملر‘ دونوں قبریں زمین کی سطح پر چھ انچ اونچی ہیں‘
پتھر کی سلیٹی رنگ کی سل پر دونوں کے نام‘ تاریخ پیدائش اور انتقال کا سن تحریر تھا‘ سرہانے پھولوں کے درخت لگے ہیں‘ ہم قبر پر پہنچے تو شکور عالم صاحب نے فاتحہ کےلئے ہاتھ کھڑے کر دیئے‘ وہ دعا پڑھ کر فارغ ہوئے تو میں نے پوچھا ”سر کیا غیر مسلم کی فاتحہ پڑھی جا سکتی ہے“ شکور صاحب نے فرمایا ”میں نے کسی غیر مسلم کی فاتح نہیںپڑھی‘ میں نے انسانوں کے محسن کا شکریہ ادا کیا ہے‘ یہ شخص نہ ہوتا تو ہم آج بھی اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہوتے‘
یہ ہمارا محسن ہے‘ ہم اگر اس کا شکریہ ادا نہیں کرتے تو ہم احسان فراموش کہلائیں گے“ میں نے شکور عالم صاحب سے اتفاق کیا‘ زور سے تھینک یو ایڈیسن کا نعرہ لگایا اور ایڈیسن کی قبر کو سیلوٹ کر دیا‘ وہ شخص حقیقتاً پوری دنیا کے سیلوٹ کا حق دار تھا‘ وہ نہ ہوتا تو شاید ہم اتنی شاندار دنیا میں نہ ہوتے‘ ہماری راتیں شاید اندھی اور دن شاید بے رنگ ہوتے۔