محمد آصف میرے ایک دوست تھے‘ یہ اسلام آباد میں الآصف کے نام سے ہارڈویئر کا کاروبار کرتے تھے‘ آپ نے اکثر اخبارات‘ دیواروں‘ پوسٹروں اور بینرز پر ”گھر روز روز نہیں بنتے“ کا فقرہ دیکھا ہو گا‘ یہ فقرہ آصف صاحب کی تخلیق تھا‘ یہ ان کا کاروباری موٹو بھی تھا‘ میری ان سے 2008ءمیں ملاقات ہوئی‘ دوستی ہوئی اور پھر 2015ءمیں اختلاف ہو گئے‘ میں ان سے ان کے انتقال تک ناراض رہا‘ وہ ایک ہنس مکھ اور
عملی انسان تھے‘ مجھے ان کا حد سے زیادہ عملی ہونا پسند نہیں تھا چنانچہ میں ان سے فاصلے پر چلا گیا لیکن اس فاصلے کے باوجود میں ان کا احترام کرتا تھا‘ وہ اچھے اور ہمیشہ خوش رہنے والے شخص تھے‘ وزن زیادہ تھا‘ وزن کی وجہ سے وہ شوگر‘ بلڈ پریشر اور ڈپریشن کے مریض تھے‘ انہوں نے اخبار میں اشتہار پڑھا اور لاہور کے کسی کلینک سے ”لائیو سیکشن“ کرا لیا‘ لائیو سیکشن میں سرجن مریض کے پیٹ کی چربی کاٹ کر الگ کر دیتے ہیں‘ یہ ایک حساس آپریشن ہوتا ہے‘ پاکستان میں یہ آپریشن اناڑی کرتے ہیں‘ آصف صاحب بھی کسی اناڑی کے قابو آ گئے‘ وہ آپریشن بگڑ گیا‘ وہ طویل عرصے تک ”لائیو سیکشن“ کے اثرات سے نکلنے کی کوشش کرتے رہے لیکن ان کے امراض بڑھتے چلے گئے‘ وہ ہسپتال تک پہنچ گئے‘ قوما میں گئے اور مئی کے شروع میں انتقال کر گئے‘ ہسپتال داخل ہونے سے قبل میری ان سے سرِ راہ ملاقات ہوئی‘ وہ علیل نظر آ رہے تھے‘ میں نے انہیں تسلی دی لیکن مجھے محسوس ہوا وہ ہمت ہار چکے ہیں‘ وہ اس ملاقات سے دو ہفتے بعد انتقال کر گئے‘ میرے دل پر ان کی موت نے بہت اثر کیا۔یہ موت مجھے ایک بار پھر بتا گئی ہم‘ ہماری جدوجہد‘ ہماری کامیابیاں‘ ہماری محبتیں اور ہماری نفرتیں چھ بائی دو فٹ کی اندھی قبر اور دومن مٹی کے سوا کچھ نہیں‘ یہ ہماری اصل اوقات ہیں‘ میں نے 1993ءمیں ایک عالمی سروے پڑھا تھا ہم
لوگ زندگی میں جو کچھ کماتے ہیں ہم اس کا صرف 30 فیصد استعمال کر پاتے ہیں‘ باقی ستر فیصد دنیا میں رہ جاتا ہے‘ ہم زندگی میں جو کماتے ہیں وہ سب ضائع ہو جاتا ہے‘ وہ سب پیچھے رہ جاتا ہے‘ ہمارے ساتھ صرف ہمارے اعمال جاتے ہیں‘ ہمارے گزر جانے کے بعد ہمارا ساتھ ہمارے مال کا صرف وہ حصہ دیتا ہے جو ہم اللہ کے نام پر انسانوں کی فلاح اور بہبود کےلئے خرچ کرتے رہے‘ ہم نے جو ادارے بنائے‘ ہم نے جن انسانوں کی سرپرستی کی اور ہم نے اللہ کے جس جس بندے کےلئے زندگی کی سختیاں کم کیں صرف وہ ہمارے کام آتا ہے‘
میں بڑے عرصے سے اس حقیقت کو دل سے مان رہا تھا‘ میں کوشش کرتا تھا میں اپنے وقت اور اللہ کے کرم کا ایک حصہ لوگوں پر خرچ کروں لیکن آصف صاحب کی موت نے میرے اس ارادے کو مزید مضبوط کر دیا‘ میں اب اپنے لئے کوئی ایسا کام تلاش کر رہا ہوں میں جس کےلئے باقی زندگی وقف کر دوں‘ میں جب تک وہ کام دریافت نہیں کر پاتا میں نے اس وقت تک اپنا آپ تین اداروں کےلئے وقف کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے‘ پہلا ادارہ کاروان علم فاﺅنڈیشن ہے‘
یہ ادارہ اردو ڈائجسٹ کے مالکان نے 2003ءمیں بنایا تھا‘ یہ ادارہ غریب لیکن باصلاحیت طالب علموں کو وظیفے دیتا ہے‘ میں دس سال سے اس ادارے سے واقف بھی ہوں اور ان کے کام سے مطمئن بھی ۔ دوسرا ادارہ ”اخوت“ ہے‘ یہ ادارہ امجد ثاقب صاحب نے 2001ءمیں بنایا تھا‘ یہ ادارہ غریب لوگوں کو بلاسود قرضے دیتا ہے‘ یہ ادارہ اب تک ہزاروں خاندانوں کی زندگیاں بدل چکا ہے‘ امجد ثاقب اب ایک یونیورسٹی بنا رہے ہیں‘ میں نے اپنا آپ اس ادارے کےلئے بھی وقف کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور تیسرا اور آخری ادارہ الفلاح سکالر شپ سکیم ہے‘
یہ ادارہ کھاریاں کے گاﺅں چنن کے ایک صاحب دل عبدالشکور صاحب نے بنایا تھا‘ یہ لوگ ضلع گجرات کے انتہائی غریب طالب علموں کو وظائف دیتے ہیں‘ یہ ادارہ بھی اب تک ہزاروں گھروں میں علم کے چراغ جلا چکا ہے‘ میں اس ادارے کی فنڈ ریزنگ اور طالب علموں کی سپورٹ کی کوشش بھی کروں گا‘ آپ دعا کیجئے اللہ تعالیٰ مجھے اس نیک کام میں استحکام عنایت کرے۔میں کل کاروان علم فاﺅنڈیشن کی فنڈ ریزنگ کےلئے امریکا پہنچا‘ فاﺅنڈیشن نے نیویارک اور ہیوسٹن میں دو چیریٹی ڈنرز کا اہتمام کر رکھا ہے‘
نیویارک کا فنکشن ہو گیا‘ ہیوسٹن کا فنکشن 26مئی کو ہو گا‘ نیویارک کے فنکشن کے دوران اجمل چودھری‘ شکور عالم اور ڈاکٹر انعام الرحمن جیسے لوگوں سے ملاقات ہوئی‘ اجمل چودھری پاکستان لیگ آف یو ایس اے کے صدر ہیں‘ پاکستانی کمیونٹی میں بہت متحرک ہیں‘ لوگ دل سے ان کا احترام کرتے ہیں‘ یہ کاروان علم فاﺅنڈیشن کے سب سے بڑے ڈونر بھی ہیں‘ حالیہ ڈنر میں ان کے خاندان نے 28 ہزار ڈالر کا ڈونیشن دیا‘ چیریٹی ڈنر کا اہتمام بھی چودھری صاحب نے کیا تھا‘
شکور عالم 78 سال کے نوجوان ہیں‘ قہقہہ لگانا اور لطیفے بنانا جانتے ہیں‘ مشکل زندگی گزاری لیکن زندگی کی ان مشکلات کی تلخی کو مزاج میں نہیں آنے دیا‘ یہ زندگی کی تمام تلخیوں اور مشکلات کا ذکر اس دلچسپ انداز سے کرتے ہیں کہ یہ مشکلات کی بجائے لطائف محسوس ہوتی ہیں‘ یہ سمجھتے ہیں ہم انسانوں کی زندگی کا سٹیئرنگ کسی نادیدہ طاقت کے ہاتھ میں ہے‘ وہ طاقت سٹیئرنگ کا رخ بدلتی رہتی ہے اور ہم اس رخ کے ساتھ ساتھ مڑتے چلے جاتے ہیں‘ شکور صاحب کے والد برٹش آرمی میں صوبیدار تھے‘
وہ سخت مزاج کے ڈسپلنڈ انسان تھے‘ وہ انہیں ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے لیکن یہ شاعرانہ مزاج کے عاشق ذات تھے‘ دونوں کے درمیان پھڈا ہو گیا‘ یہ کلرک بھرتی ہوئے‘ مختلف ملازمتیں کیں‘ پی آئی اے میں آئے‘ ملازمت کے آخری حصے میں نیویارک میں تعینات ہوئے‘ ریٹائر ہوئے اور امریکا میں رہائش پذیر ہو گئے‘ یہ اب ایک چھوٹی سی ٹریول ایجنسی چلا رہے ہیں اور اپنی زندگی کے باقی ماہ و سال کاروان علم فاﺅنڈیشن کےلئے وقف کر رکھے ہیں‘
یہ امریکا میں مقیم پاکستانیوں کو امداد کےلئے خط لکھتے ہیں‘ چیکس وصول کرتے ہیں اور رقم فاﺅنڈیشن کو بھجوا دیتے ہیں‘ یہ اب تک 5سے 6 لاکھ ڈالر غریب اور باصلاحیت نوجوانوں کو بھجوا چکے ہیں‘ میں نے انہیں فنکشن کے دوران لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے دیکھا‘ مجھے یہ اس وقت آج کے زمانے کے سرسید احمد خان محسوس ہوئے‘ ان کے ان پھیلے ہوئے ہاتھوں کے صدقے اب تک سینکڑوں نادار طالب علم بحر علم سے مستفید ہو چکے ہیں‘
شکور عالم نہ ہوتے یا یہ جذبے کے ساتھ کام نہ کرتے تو یقینا بے شمار طالب علم اعلیٰ تعلیم کی حسرت لے کر غربت کی بھٹی میں گل سڑ جاتے‘ میرا خیال ہے حکومت کو شکور عالم کی خدمات کے صلے میں انہیں ایوارڈ سے نوازنا چاہیے‘ یہ عام انسان نہیں ہیں‘ یہ ہیرے جیسے انسان ہیں اور ہمیں ایسے ہیروں کی قدر کرنی چاہیے‘ شکور عالم کے بھتیجے زبیر عالم میرے میزبان تھے‘ یہ میرے ساتھ نیوجرسی میں تھامس ایڈیسن کے گھر بھی گئے‘ ہالی ووڈ کے وزٹ کےلئے لاس اینجلس بھی گئے اور آخر میں ہیوسٹن میں آئے‘
یہ کمیونٹی پولیس میں بھی شامل ہیں اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ایک بڑی کمپنی میں ملازمت بھی کرتے ہیں‘ یہ بھی بہت دلچسپ انسان ہیں‘ کاروان علم فاﺅنڈیشن کی تقریب کے دوران ڈاکٹر انعام الرحمن سے بھی ملاقات ہوئی‘ یہ بھی فاﺅنڈیشن کے بڑے ڈونر ہیں‘ یہ ہر چیریٹی فنکشن میں فاﺅنڈیشن کو دس پندرہ ہزار ڈالر کا ڈونیشن دیتے ہیں‘ یہ آرٹری سرجن ہیں‘ یہ جسم کی باریک نسوں کا آپریشن کرتے ہیں‘ دنیا میں اس نوعیت کے چند سرجن ہیں‘ یہ اپنی فیلڈ میں پورے امریکا میں مشہور ہیں‘
پوری دنیا سے مریض ان کے پاس آتے ہیں‘ یہ ان سے بھاری فیس وصول کرتے ہیں لیکن فیس کا بڑا حصہ چیریٹی کر دیتے ہیں‘ مجھے ڈاکٹر صاحب کے ساتھ گپ لگانے کا موقع ملا‘ یہ بہت نفیس‘ سادہ اور جذبے سے بھرپور انسان ہیں‘ کاروان علم فاﺅنڈیشن کو ان حضرات کی کوششوں سے نیویارک کے فنکشن سے لاکھ ڈالر ڈونیشن ملا‘ یہ ایک بڑی رقم ہے لیکن یہ اس کے باوجود زیادہ نہیں‘ امریکا میں موجود پاکستانی اس سے زیادہ رقم کنسرٹس پر دے دیتے ہیں‘ مجھے کوئی صاحب بتا رہے تھے‘
فلم سٹار ریما کے خاوند ڈاکٹر طارق شہاب نے پچھلے دنوں عمران خان کو دو ملین ڈالر کا ڈونیشن دیا‘ یہ ڈونیشن بھی اپنی جگہ ٹھیک ہے‘ شوکت خانم میموریل کینسر ہاسپٹل ملک کا واحد کینسر ہسپتال ہے‘ ہسپتال کو ہر سال اربوں روپے کی ضرورت پڑتی ہے‘ یہ ضرورت ڈونیشن سے پوری ہوتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ کاروان علم فاﺅنڈیشن جیسی تنظیمیں بھی اہل خیر کی توجہ کی طالب ہیں‘ فاﺅنڈیشن کی ویب سائیٹ www.kif.com.pk پراس وقت 90 طالب علموں کی فہرست موجود ہے جو باصلاحیت ہیں‘جو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں‘
یہ فہرست جون کے اختتام تک 600 تک پہنچ جائے گی ‘ ان طالب علموں کے والدین ان کے تعلیمی اخراجات پورے نہیں کر سکتے‘ یہ چھ سو طالب علم مستقبل میں اجمل چودھری‘ شکور عالم‘ ڈاکٹر انعام الرحمن اور ڈاکٹر طارق شہاب بن سکتے ہیں‘ بس ان کو تھوڑی سی پش درکار ہے‘ کیا امریکا‘ یورپ اور پاکستان میں ایسے چھ سو افراد بھی موجود نہیں ہیں جو کاروان علم فاﺅنڈیشن کے ان چھ سو طالب علموں کا ہاتھ پکڑ لیں‘ جو فاﺅنڈیشن کے ایک ایک طالب علم کو ”اون“ کرلیں‘
جو اپنے صدقے‘ خیرات اور زکوٰة میں ان نوجوانوں کو بھی شامل کر لیں؟ آپ یقین کیجئے امریکا میں مقیم پاکستانی اگر روزانہ ایک کافی کے پیسے ان نوجوانوں کو دے دیں تو ہزاروں خاندانوں کا مقدر بدل جائے‘ ان کی زندگی سزا سے جزا میں بدل جائے‘ کیا آپ لوگ روزانہ اللہ کے نام پر ایک کافی بھی قربان نہیں کر سکتے؟ فاﺅنڈیشن کے بچے آپ سے اس معمولی سوال کا جواب چاہتے ہیں۔