جمعہ‬‮ ، 22 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

چارلی چپلن کے گھر میں

datetime 16  مئی‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

وے وے  سوئٹزرلینڈ میں جنیوا لیک کا انتہائی خوبصورت گاﺅں ہے‘ آپ اگر نقشے میں جنیوا کی جھیل دیکھیں تو یہ آپ کو چاند کی طرح دکھائی دے گی‘ یہ جھیل 73 کلو میٹر لمبی ہے‘ اس کی اوسط گہرائی 507فٹ ہے اور یہ سوئٹزرلینڈ کی سب سے بڑی جھیل ہے‘ یہ جھیل یورپ کے پہاڑی سلسلے الپس کے دامن میں واقع ہے‘ پہاڑ سے ساڑھے تین سو چشمے‘ نہریں‘ ندیاں اور نالے ہر سال ہمارے دریائے سندھ سے دو گنا پانی جھیل میں

لاتے ہیں‘ آپ کو وے وے اس جھیل کے آخری سرے پر ملے گا‘ یہ طلسماتی گاﺅں ہے‘ آپ کے سامنے برف پوش پہاڑ ہیں‘ پہاڑوں کے پاﺅں میں جنیوا لیک ہے‘ لیک کے ساتھ گاﺅں ہے اور گاﺅں کی پشت پر دوبارہ پہاڑ ہیں اور ان پہاڑوں کی اترائیوں پر میلوں تک انگوروں کے باغ پھیلے ہیں‘ یہ گاﺅں دنیا جہان کی سہولتوں سے مزین ہے‘ ہمارے بڑے سے بڑے شہر میں بھی وہ سہولتیں موجود نہیں ہیں جو وے وے میں دستیاب ہیں‘ یہ گاﺅں تین وجوہات کی بنا پر پوری دنیا میں مشہور ہے‘ پہلی وجہ نیسلے کمپنی ہے‘ ہنری نیسلے نے 1866ءمیں وے وے میں اس کمپنی کی بنیاد رکھی تھی‘ یہ ڈیڑھ سو سال میں دنیا میں خوراک کی سب سے بڑی کمپنی بن گئی‘ نیسلے کا ہیڈ کوارٹر اور ریسرچ سنٹر آج بھی ”وے وے“ میں ہے‘ دوسری وجہ دنیا کا نامور مزاحیہ اداکار چارلی چپلن ہے‘ چاری چپلن نے اپنی زندگی کے آخری 25 سال وے وے میں گزارے‘ یہ 25 سال اس کی خوفناک‘ مصروف اور مشقت سے بھرپور زندگی کے بہترین سال تھے‘ سوئس حکومت نے نیسلے کی مدد سے اس کے گھر کو عجائب گھر میں تبدیل کر دیا‘ یہ میوزیم 17 اپریل 2016ءکو عوام کےلئے کھولا گیا ‘ میں پچھلے سال سے وہاں جانا اور چارلی چپلن کی آخری آرام گاہ دیکھنا چاہتا تھا‘ چارلی پوری دنیا کا شہری تھا‘ وہ دنیا کا کوئی بھی کونا اپنی رہائش کےلئے پسند کر سکتا تھا لیکن اس نے ”وے وے“ کو

منتخب کیا‘ آخر اس کی کوئی نہ کوئی وجہ ہو گی اور میں وہ وجہ تلاش کرنا چاہتا تھا اوروے وے کی مقبولیت کی تیسری وجہ مِلک چاکلیٹ ہے‘ مِلک چاکلیٹ وے وے میں ایجاد ہوا تھا۔میں جمعہ 12 مئی کو وے وے پہنچا‘ ٹکٹ خریدا اور چارلی چپلن کی دنیا میں داخل ہو گیا‘ یہ 14 ہیکٹر پر مشتمل ایک طویل فارم ہاﺅس ہے‘ یہ فارم ہاﺅس کسی مقامی زمیندار نے 1705ءمیں بنایا تھا‘ یہ مختلف لوگوں اور خاندانوں سے ہوتا ہوا آخر میں ایک امریکی سفارت کار کرافٹن من نوٹ کی ملکیت بنا‘

چارلی چپلن نے یہ 1952ءمیں 6 لاکھ سوئس فرینک میں خرید لیا‘ چارلی نے خوفناک اور مشکل زندگی گزاری تھی‘ وہ لندن میں پیدا ہوا‘ والد اور والدہ تھیٹر میں گانا گاتے تھے‘ والد ایک دن غائب ہو گیا‘ ماں بیمار تھی‘ چارلی اور اس کا سوتیلا بھائی سڈنی بچپن ہی میں محنت اور مزدوری پر مجبور ہوگئے‘ ماں غربت کا مقابلہ نہ کر سکی اور پاگل ہو گئی‘ پولیس نے ماں کو پاگل خانے میں داخل کرا دیا جس کے بعد زندگی کا سارا بوجھ دونوں بھائیوں پر آ گیا‘ یہ گلیوں اور کوچوں میں پلنے لگے‘

چارلی چپلن نے اس دوران تھیٹر میں ملازمت کر لی‘ وہ تھیٹر میں مزدور تھا‘ وہ مزدوری کرتے کرتے ایک دن سیٹ پر آیا اور پھر اس پر مقبولیت کے دروازے کھل گئے‘ وہ دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرنے لگا‘ وہ اپنی ہٹلر سٹائل کی موچھوں‘ ڈربی ہیٹ‘ بیگی پتلون‘ لمبے بوٹس اور پتلی چھڑی کے ساتھ پوری دنیا میں مشہور ہوتا چلا گیا‘ وہ دسمبر 1913ءمیں امریکا آیا‘ اس نے اداکاری‘ مکالمہ نویسی‘ ڈائریکشن‘ ایڈیٹنگ اور پروڈکشن سیکھی اور فلمیں بنانا شروع کر دیں‘

وہ شروع میں خاموش فلمیں بناتا تھا‘ دنیا میں جب بولتی فلموں کا زمانہ آیا تو وہ ساﺅنڈ فلمیں بھی بنانے لگا‘ اللہ تعالیٰ نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا‘ وہ دیکھتے ہی دیکھتے کروڑ پتی ہو گیا‘ وہ دنیا کے تمام کونوں میں مشہور بھی ہو گیا‘ یہ شہرت اس کےلئے بدنامی لے کر آئی‘ وہ آئے روز کسی نہ کسی سکینڈل میں پھنس جاتا تھا‘ چار شادیاں کیں ‘ پہلی تین شادیاں بری طرح ناکام ہوئیں‘ ایک بیوی جاتے جاتے اس کی ساری دولت بھی لے گئی‘ چوتھی اور آخری شادی اونا اونیل کے ساتھی کی‘

یہ شادی کامیاب رہی‘ اونا ایک مکمل امریکی ہاﺅس وائف تھی‘ چارلی نے اس دوران اپنا سٹوڈیو اور کمپنی بنائی‘ اس نے 1951ءمیں ”لائم لائیٹ“ بنائی‘ یہ فلم 1952ءکے ابتدائی مہینوں میں سینماﺅں میں دکھائی جانے لگی‘ یہ ستمبر 1952ءمیں ملکہ الزبتھ کی دعوت پر خاندان سمیت لندن آیا‘ اس دوران ایف بی آئی نے اس کے امریکا میں داخلے پر پابندی لگا دی‘ یہ بات بھی یہاں کم دلچسپ نہیں ہو گی چارلی چپلن نے امریکا کی شہریت نہیں لی تھی‘ وہ امریکا میں 28 سال رہنے کے باوجود برطانوی شہری تھا چنانچہ ایف بی آئی نے اس کے امریکا میں داخلے پر پابندی لگا دی‘

وہ پریشان ہو گیا‘ پریشانی کے اس عالم میں چارلی چپلن نے پوری دنیا میں ”وے وے“ کو اپنا نیا گھر بنانے کا فیصلہ کیا‘ چارلی کی بیگم امریکا گئی‘ اس کا سٹوڈیو‘ بیورلے ہل کا مکان‘ دفتر اور گاڑیاں فروخت کیں‘ بینکوں سے سرمایہ نکالا اور یہ لوگ ”وے وے“ شفٹ ہو گئے‘ چارلی چپلن نے باقی زندگی اپنی بیوی اور آٹھ بچوں کے ساتھ ”وے وے“ میں گزاری‘ وہ آخری سانس تک لیک جنیوا‘ اپنے فارم کی چیری‘ انگور‘ خوبانیوں‘ آلو بخارے‘ سٹرابری اور سیبوں کو انجوائے کرتا رہا‘

وہ 25سال اس کی زندگی کے شاندار ترین دن تھے‘ وہ ان دنوں میں سکینڈلز‘ کام کے دباﺅ اور ہر قسم کی ”لیگ پلنگ“ سے آزاد رہا‘ وہ صبح بیوی کے ساتھ واک کرتا تھا‘ بچوں کے ساتھ ناشتہ کرتا تھا‘ سٹڈی میں پڑھتا اور لکھتا تھا‘ فیملی کے ساتھ لنچ کرتا تھا‘ سکرپٹ پر کام کرتا تھا‘ لان میں شام کی چائے پیتا تھا اور ساڑھے چھ بجے پورے خاندان کے ساتھ ڈنر کرتا تھا‘ ڈنر کے دوران ہر شخص کےلئے بولنا‘ لطیفے سنانا اور قہقہے لگانا ضروری تھا‘ وہ رات کے وقت چہل قدمی کرتا تھا اور پھر جلدی سو جاتا تھا‘

دنیا بھر کے مشاہیر چارلی سے ملاقات کےلئے وے وے آتے تھے‘ اس کے مہمان بنتے تھے اور اس کے ساتھ شاندار وقت گزارتے تھے‘ وہ روز اپنی بیگم کے ساتھ ٹینس بھی کھیلتا تھا اور سوانا باتھ بھی لیتا تھا‘ اپنی سبزیاں‘ پھل اور گندم اگاتا تھا اور اپنی گائے کا دودھ پیتا تھا‘ وہ پیانو بھی بجاتا تھا اور وائلن بھی‘ اس نے اپنی بائیو گرافی بھی اسی گھر میں مکمل کی ۔وے وے کی میونسپل کمیٹی نے 2000ءمیں چارلی چپلن کا گھر خرید لیا‘ 2013ءمیں اس کی تزئین و آرائش شروع ہوئی اور یہ عجائب گھر 2016ءمیں عوام کےلئے کھول دیا گیا‘

یہ میوزیم چار حصوں پر مشتمل ہے‘ میوزیم کا پہلا حصہ سٹوڈیو ہے‘ سٹوڈیو میں چارلی چپلن کی پوری زندگی تصویروں‘ فلموں اور مجسموں کی شکل میں پیش کی گئی ہے‘ یہ کہاں پیدا ہوا‘ بچپن کہاں اور کیسے گزرا‘ سٹوڈیو میں وہ ساری گلیاں‘ وہ گھر اور اس کے پچپن کے لوگ دکھائے گئے ہیں‘ پھر اس کی فلموں کے سیٹ ہیں‘ پھر اس کے کرداروںکے کاسٹیوم ہیں‘ سٹوڈیو میں دیوہیکل سکرینیں بھی ہیں اور مومی مجسمے بھی‘ یہ سٹوڈیو آپ کو چارلی چپلن کی زندگی میں لے جاتا ہے‘

دوسرے حصے میں اس کی شاہانہ رہائش گاہ ہے‘ چارلی چپلن کا گھر محل جیسا تھا‘ اس کے ڈرائنگ روم‘ ڈائننگ ہال‘ کوریڈورز‘ سٹڈی‘ بیڈرومز‘ برآمدے اور ٹیرس اصل حالت میں موجود ہیں‘ فرنیچر بھی ہے اور برتن اور کپڑے بھی‘ یوں محسوس ہوتا ہے وہ کسی بھی لمحے اندر داخل ہو گا اور اونچی آواز میں کہے گا ”ہائے ایوری باڈی“ گھر کے مختلف حصوں میں اس کے مومی مجسمے بھی لگے ہیں اور اس کی آخری زندگی کی فلمیں اور تصویریں بھی‘

گھر کی ایک ایک چیز اس کے اعلیٰ ذوق کی گواہی دیتی ہے‘ تیسرے حصے میں گھر کے لان ہیں‘ گھر کے چاروں طرف اونچے اونچے درخت‘ باغ اور گھاس کے قطعات ہیںاور لان سے پرے پہاڑ اور انگور کے باغ ہیں جبکہ گھر کے چوتھے حصے میں انتظامیہ کے دفاتر اور ٹکٹ گھر ہے‘ یہ حصہ کبھی مہمان خانہ اور ملازمین کی رہائش گاہ ہوتا تھا۔وہ گھر ایک چھوٹی سی ارضی جنت تھا اور چارلی چپلن اس جنت میں خوش تھا‘ وہ اس جنت میں اپنے بچوں کے ساتھ دوڑ بھی لگاتا تھا‘

پھل بھی توڑتا تھا‘ باغبانی بھی کرتا تھا‘ کھانا بھی کھاتا تھا اور فیملی کے ساتھ ناچتا گاتا بھی تھا‘ وہ ایک طویل‘ مشکل اور تھکا دینے والی زندگی کے بعد اس جنت کا حق دار تھا اور اس نے اس حق کا ٹھیک ٹھاک لطف اٹھایا‘ وہ اندر سے اداس شخص تھا‘ وہ بے شمار محرومیاں لے کر پیدا ہوا تھا‘ ماں بھوک کی وجہ سے پاگل خانے پہنچ گئی‘ وہ ماں سے ملاقات کےلئے پاگل خانے گیا تو ماں نے اس سے کہا ”چارلی میں اس دن صرف بھوکی تھی‘ تم اگر مجھے چائے کا ایک کپ لا دیتے تو میں کبھی پاگل نہ ہوتی‘

میں بچ جاتی“ یہ بات اس کے دل میں ترازو ہو گئی‘ وہ جب بھی چائے کا کپ اٹھاتا تھا‘ اسے ماں کی بات یاد آ جاتی تھی اور وہ آنکھوں پر رومال رکھ لیتا تھا‘ شاید یہی وجہ تھی وہ ہمیشہ اکیلے چائے پیتا تھا‘ اس کی کوشش ہوتی تھی دنیا کا کوئی شخص دنیا کو ہنسانے والے اس شخص کے آنسو نہ دیکھ سکے‘ وہ آنسو چھپانے کےلئے ہمیشہ بارش میں واک کرتا تھا‘ وہ چلتا جاتا تھا اور روتا جاتا تھا‘وے وے میں اس دن بھی چارلی چپلن کے آنسوﺅں کی نمی موجود تھی‘ میری آنکھوں نے یہ نمی محسوس کرلی‘ میں نے ٹشو پیپر سے اپنی آنکھیں پونچھیں اور باہر آ گیا‘میرے سامنے جنیوا لیک اپنے پورے حسن کے ساتھ جلوہ گر تھی اور ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی۔



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…