ڈان لیکس رپورٹ کے چار حصے ہیں۔پہلا حصہ‘ یہ خبر لیک کس نے کی؟ تین اکتوبر 2016ءکو وزیراعظم سیکرٹریٹ میں آل پارٹیز کانفرنس تھی‘ کانفرنس کے بعد وزیراعظم ہاﺅس میں ایک سائیڈ لائین میٹنگ ہوئی‘ اس میٹنگ میں وزیراعظم‘ وزیراعلیٰ پنجاب‘ ڈی جی آئی ایس آئی‘ آئی جی اور ایڈیشنل آئی جی پنجاب‘ طارق فاطمی‘ سیکرٹری خارجہ اعزاز چودھری‘ جنرل ناصر جنجوعہ‘ پرویز رشید‘ خواجہ آصف‘ فواد حسن فواداوررانا ثناءاللہ شامل تھے‘
میٹنگ میں اعزاز چودھری نے پریذنٹیشن دی‘ نئی پالیسی بنی‘ وزیراعظم نے ڈی جی آئی ایس آئی کو جنرل ناصر جنجوعہ کے ساتھ تمام صوبوں کے دورے اور صوبائی دفاتر کو ”نئی پالیسی“ سے آگاہ کرنے کی ہدایت کی اور یہ میٹنگ ختم ہو گئی‘ تین اکتوبر کی اس سائیڈ میٹنگ کے فیصلے ڈان اخبار کو ”لیک“ ہو گئے‘ یہ لیک کس نے کی‘ یہ اس سکینڈل کا پہلا حصہ تھا اور یہ حصہ ابھی تک خفیہ ہے‘ تحقیقاتی کمیشن چھ ماہ کی کوشش کے باوجود یہ راز نہیں کھول سکا اور دوسرا حصہ ڈان اخبار ہے‘ یہ خبر رپورٹر کی بجائے ڈان کے ایڈیٹر ظفر عباس کے پاس پہنچی تھی‘ وزیراعظم ہاﺅس کے بیٹ رپورٹر باقر سجاد تھے‘ یہ خبر باقر سجاد کے ذریعے اخبار میں شائع ہونی چاہیے تھی لیکن یہ اس وقت ملک سے باہر تھے چنانچہ ایڈیٹر نے یہ خبر سرل المیڈا کو دے دی‘ سرل المیڈا دن کے دو اڑھائی بجے اٹھتے ہیں‘ ایڈیٹر اس دن انہیں دو تین گھنٹے فون کرتے رہے‘ سرل نے جاگنے کے بعد ایڈیٹر سے رابطہ کیا اور ظفر عباس نے انہیں یہ خبر دے دی‘ سرل نے خبر کو کنفرم کرنے کےلئے تمام متعلقہ لوگوں سے رابطہ کیا‘ یہ اعزاز چودھری‘ طارق فاطمی‘ مریم نواز‘ میاں شہبا زشریف‘ پرویز رشید‘ آئی جی پنجاب‘ رانا ثناءاللہ‘ محی الدین وانی‘ فواد حسن فواد‘ راﺅ تحسین اور محمد مالک سمیت تمام متعلقہ لوگوں سے رابطے کرتے رہے‘ تحقیقاتی کمیشن نے یہ تمام رابطے سرل المیڈا اور ظفر عباس کے فون کالز کے ریکارڈ سے نکال لئے‘
سرل المیڈا ملک کے ان صحافیوں میں شامل ہیں جن کے فون 2009ءسے ٹیپ ہو رہے ہیں چنانچہ کمیشن کے پاس فون کی تمام ریکارڈنگز موجود تھیں‘ کمیشن کے پاس باقی حضرات کی ریکارڈنگز بھی تھیں‘ سرل المیڈا نے ٹیلی فون کے ذریعے خبر کی تصدیق کی اور ظفر عباس نے چھ اکتوبرکو یہ خبر ڈان میں باکس بنا کر شائع کر دی‘ ملک اور بیرون ملک تہلکہ مچ گیا‘
وزیراعظم کے پریس سیکرٹری محی الدین وانی نے یہ خبر دیکھی تو یہ سیدھے فواد حسن فواد کے پاس گئے اور انہیں بتایا ”یہ خبر حکومت کو نقصان پہنچائے گی“ فواد صاحب نے وانی کو تردید جاری کرنے کی ہدایت کر دی‘ تردید جاری کر دی گئی لیکن فوج اس تردید سے مطمئن نہ ہوئی‘ فوج کے اعتراض پر شام کو دوسری اور واضح تردید جاری کر دی گئی لیکن آرمی چیف اگلے دن سائیڈ میٹنگ میں شامل تمام لوگوں کے فون کا ڈیٹا لے کر وزیراعظم ہاﺅس پہنچ گئے‘
ڈیٹا میں ریکارڈنگز بھی شامل تھیں‘ آرمی چیف نے تحقیقاتی کمیشن بنانے کا مطالبہ کر دیا‘ یہ کمیشن 7 نومبر کو بنا اور ڈان لیکس کا سارا ریکارڈ کمیشن کے سامنے پیش کر دیا‘ یہ ریکارڈ ٹیلی فونز کا ڈیٹا اور ریکارڈنگز پر مشتمل تھا‘ ان ریکارڈنگز میں سرل المیڈا‘ طارق فاطمی‘ پرویز رشید اور راﺅ تحسین کی ریکارڈنگز زیادہ اہم تھیں‘ ریکارڈنگز سے پتہ چلا سرل لیٹ کیوں سوتا تھا اور لیٹ کیوں جاگتا تھا اور یہ ملک اور بیرون ملک کس کس کے رابطے میں تھا‘
طارق فاطمی نے کسی شخص کو بتایا تھا یہ خبر اچھی ہے اور اس سے اصل چہرے سامنے آ جائیں گے‘ سرل نے خبر کی اشاعت کے بعد پرویز رشید سے رابطہ کیا تھا‘ یہ بہت پریشان تھا‘ یہ حکومت سے مدد چاہ رہا تھا‘ پرویز رشید نے اسے تسلی دی‘ فکر نہ کرو‘ ہم سنبھال لیں گے وغیرہ وغیرہ جبکہ راﺅ تحسین غیر محتاط انداز سے مختلف لوگوں کو یہ بتاتے ہوئے پائے گئے‘ یہ لڑ پڑے ہیں‘ فوج اور حکومت آمنے سامنے آ گئی‘ فوج نے ڈنڈا کرا دیا‘ یہ بھاگ جائیں گے اور یہ اندر سے کسی کا کام ہے وغیرہ وغیرہ گویا کیس کا سارا انحصار فون کالز اور فون ریکارڈنگز پر تھا۔ڈان لیکس رپورٹ کا تیسر احصہ کمیشن کی تحقیقات ہیں‘
کمیشن نے تمام متعلقہ لوگوں کو بلایا اور لمبی چوڑی تحقیقات کیں‘ ظفر عباس اور سرل المیڈا بھی کمیشن کے سامنے پیش ہوئے‘ کمیشن نے ان سے موبائل فونز اور لیپ ٹاپس مانگے لیکن دونوں نے صاف انکار کر دیا‘ ظفر عباس دوبار سات گھنٹے کمیشن کے سامنے پیش ہوئے اور سرل نے چھ گھنٹے تحقیقات کا سامنا کیا‘ ظفر عباس نے کمیشن کو بتایا ”میں بلیک بیری استعمال کرتا ہوں اور میں آپ کو یہ اور لیپ ٹاپ نہیں دوں گا“ دونوں نے خبر کا سورس بھی بتانے سے انکار کر دیا‘
ظفر عباس وزیراعظم ہاﺅس نہیں گئے تھے تاہم سرل نے خبر کی تصدیق کےلئے مختلف لوگوں سے رابطوں کا اعتراف کر لیا‘ تحقیقات کے دوران ظفر عباس اور سرل کی مریم نواز‘ میاں شہباز شریف‘ طارق فاطمی اور اعزاز چودھری کے ساتھ رابطوں کی تصدیق نہ ہو سکی‘ خبر کا مرکزی سورس بھی سامنے نہ آیا اورکمیشن کے سامنے کوئی ثبوت بھی پیش نہیں ہوا‘ طارق فاطمی صاحب کا صرف ایک فقرہ سامنے آیا” یہ خبر اچھی ہے‘ اس سے اصل چہرے سامنے آ رہے ہیں“ اور پرویز رشید کی سرل کےلئے تسلی سامنے آئی” تم فکر نہ کرو‘ ہم سنبھال لیں گے“۔
تحقیقاتی کمیشن میں سات لوگ شامل تھے‘ فوج کی طرف سے آئی ایس آئی اور ایم آئی کے لوگ تھے‘رپورٹ تیار ہوئی‘ کمیشن میں شامل تمام لوگوں نے رپورٹ پر دستخط کئے اور یہ رپورٹ وزارت داخلہ سے ہوتے ہوئے وزیراعظم ہاﺅس پہنچ گئی‘ رپورٹ میں انکشاف ہوا کمیشن کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکا‘ یہ خبر کس نے لیک کی یہ معلوم نہیں ہو سکا‘ خبر رکوانا کس کی ذمہ داری تھی یہ بھی تعین نہیں ہو سکا‘ میڈیا کو قومی مفاد میں کیا کیا کرنا اور کیا کیا نہیں کرنا چاہیے یہ فیصلہ بھی نہیں ہو سکا اور یہ خبر مفاد عامہ کے خلاف تھی‘
جھوٹی تھی‘ یہ غداری تھی یا یہ قوعد سے انحراف تھا یہ فیصلہ بھی نہیں ہو سکا‘ تاہم کمیشن نے حکومت کو پرویز رشید‘ طارق فاطمی اور راﺅ تحسین کے خلاف کارروائی کا مشورہ دے دیا‘ پرویز رشید کو سرل المیڈا کو تسلی دینے کی سزا دی گئی‘ طارق فاطمی کو خبر پر خوش ہونے اور راﺅ تحسین کو خبر کی اشاعت کے بعد افواہیں پھیلانے اور غیر سنجیدہ رویئے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ‘ ڈان اخبار کا معاملہ صحافتی برادری پر چھوڑ دیا گیااورظفر عباس اور سرل المیڈا کے خلاف کارروائی اے پی این ایس کے سپرد کردی گئی لیکن یہاں یہ بھی ذہن میں رہے رپورٹ میں کسی کو مجرم نہیں ٹھہرایا گیا اور ڈان لیکس کا آخری حصہ 29 اپریل کا وزیراعظم آفس کا آرڈر ہے‘
یہ حکم نامہ فواد حسن فواد کے قلم سے جاری ہوا اور اس میں متعلقہ وزارتوں کو ڈائریکشن دی گئی‘ یہ خط جاری ہونے کے تھوڑی دیر بعد آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل نے اس نوٹی فکیشن کو نامکمل قرار دے کر مسترد کر دیا اور یوں ایک نیا پھڈا شروع ہو گیا‘ میجر جنرل آصف غفور کی ٹویٹ کے ردعمل میں چودھری نثار نے بھرپور اور خوفناک پریس کانفرنس ”کھڑکا“ دی اور اس سے حکومت اور فوج کے درمیان موجود افہام وتفہیم کی قلعی کھل کر سامنے آ گئی۔ڈان لیکس کے آخری حصے میں حکومت سے تین بڑی غلطیاں ہوئیں‘ پہلی غلطی رپورٹ تھی‘
حکومت کو نوٹی فکیشن سے قبل یہ رپورٹ جاری کر دینی چاہیے تھی تاکہ عوام سارے حقائق جان لیتے اور کسی قسم کا کنفیوژن نہ رہتا اور دوسری غلطی وزیراعظم ہاﺅس کے خط کی ترتیب تھی‘ فواد حسن فواد نے خط میں ڈان‘ ظفر عباس اور سرل المیڈا کا ذکر پہلے پیراگراف میں کیا‘ اے پی این ایس کو ضابطہ اخلاق بنانے کی ذمہ داری دوسرے پیراگراف میں سونپی‘ راﺅتحسین کے خلاف محکمانہ کارروائی کا آرڈر تیسرے پیراگراف اور طارق فاطمی کے قلم دان کی واپسی کا حکم چوتھے پیراگراف میں جاری کیاجبکہ خط میں پرویز رشید کا نام شامل نہیں کیا ‘ یہ ترتیب غلط تھی‘
یہ غلطیاں بھی غلط تھیں‘ وزیراعظم کا آرڈر پرویز رشید سے شروع ہونا چاہیے تھا‘ طارق فاطمی کا نام دوسرے اور راﺅتحسین کا تیسرے پیراگراف میں آنا چاہیے تھا اور ڈان اور اے پی این ایس کو چوتھے پیرا گراف میں شامل کرنا چاہیے تھا‘خط کی غلط ترتیب اور پرویز رشید کا ذکر نہ کرنے سے یوں محسوس ہوا حکومت نے تمام ذمہ داری ڈان اور راﺅ تحسین پر ڈال دی ہے اور پرویز رشید کو بچا لیا گیا ہے چنانچہ فوج کا ردعمل قدرتی تھا اور تیسری غلطی فوج کو نوٹی فکیشن کے عمل سے باہر رکھنا تھا‘ یہ کمیشن فوج کے دباﺅ پر بنا تھا‘ حکومت کو چاہیے تھا یہ وزیراعظم کے خط کی سمری فوج کو بھجوا دیتی اور دونوں مل کر نوٹی فکیشن کا فیصلہ کر تے یوں یہ ایشو نہ بنتا‘
بہرحال جو ہونا تھا وہ ہوگیا‘ حکومت کو اب چاہیے یہ فوری طور پر رپورٹ جاری کر دے ورنہ دوسری صورت میں گرد اڑتی رہے گی اور حقائق اس گرد میں چھپتے چلے جائیں گے یہاں تک کہ پوری حکومت گرد میں غائب ہو جائے گی‘ یہ ہماری تاریخ ہے میاں نواز شریف کی حکومت جب بھی گئی اس کا آغاز کسی اخبار کی کسی خبر سے ہوا اور وہ خبر اور وہ اخبار آخر میں پوری حکومت کو لے کر بیٹھ گیا‘ حکومت نے اگر آج بھی احتیاط نہ کی تو ڈان اخبار ‘ ڈان اخبار کی خبر اور یہ رپورٹ حکومت کےلئے پانامہ ٹو ثابت ہو گی۔