جمعہ‬‮ ، 22 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

کنفیوژن

datetime 25  مارچ‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

جج صاحب نے شفقت سے فرمایا ”بیٹا ہم مخلوق ہیں اور اللہ تعالیٰ کی کوئی مخلوق منحوس نہیں ہو سکتی‘ تمہاری بیوی معصوم اور بے قصور ہے‘ تم اسے منحوس سمجھ کر کفران نعمت کررہے ہو‘ تمہارے ساتھ پیش آنے والے تمام واقعات اور حادثات محض اتفاق ہیں‘ یہ خاتون اگر تمہارے عقد میں نہ ہوتی تو بھی یہ تمام واقعات تمہارے ساتھ پیش آتے‘ تم اس کا ہاتھ پکڑو اور گھر واپس لوٹ جاؤ“ جج کے ریمارکس سن کر خاوند کا دل ٹوٹ گیا‘

اس نے نہ چاہتے ہوئے بھی بیوی کا ہاتھ تھاما اور کمرہ عدالت سے باہر نکل گیا‘ وہ ابھی بمشکل پارکنگ لاٹ تک پہنچا تھا کہ عدالت کا ہرکارہ بھاگتا ہوا اس کے پاس آیا اور الجھی ہوئی سانسیں تھام کر بولا‘ آپ کو جج صاحب بلا رہے ہیں‘ خاوند نے بیوی کو گاڑی میں بٹھایا اور تھکے ہوئے قدموں کے ساتھ کمرہ عدالت میں واپس آ گیا‘ جج صاحب کا ماتھا پسینے سے بھیگا ہوا تھا‘ ان کے ہاتھ میں سرکاری خط تھا‘ وہ بار بار خط کی طرف دیکھتے تھے اور ماتھے کا پسینہ پونچھتے تھے‘ وہ جج کے سامنے کھڑا ہو گیا‘ جج نے اس کی طرف دیکھا اور گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا ”تم ٹھیک کہتے ہو‘ یہ عورت واقعی منحوس ہے‘ تم اسے فوری طور پر طلاق دے دو“ خاوند نے حیرت سے پوچھا ”جناب کیا ہوا؟“ جج نے کاغذ اس کے سامنے لہرایا اور دکھی آواز میں بولا ”تم جوں ہی عدالت سے باہر نکلے‘ میری ٹرانسفر کا حکم آ گیا‘ یہ عورت واقعی منحوس ہے‘ یہ ایک بار میرے سامنے کھڑی ہوئی اور میرا بیڑہ غرق کر دیا‘ تم روز اس کے ساتھ رہتے ہو‘ میں تمہاری مشکلات کا اندازہ کر سکتا ہوں‘ تم اس سے جلد سے جلد جان چھڑا لو“ جج نے اس کے ساتھ ہی اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور اپنی کرسی سے اٹھ گیا۔

یہ واقعہ سعودی عرب میں پیش آیا تھا‘ سعودی عرب کا ایک شہری بیوی کو طلاق دینا چاہتا تھا‘ وہ بیوی کو لے کر عدالت میں پیش ہو گیا‘ قاضی جج نے طلاق کی وجہ پوچھی‘ خاوند نے بتایا ”یہ خاتون میرے لئے منحوس ثابت ہو رہی ہے‘ میں نے جب سے اس کے ساتھ شادی کی میں اس وقت سے مسلسل مسائل کا شکار ہوں“ جج نے پوچھا ”کیسے؟“ خاوند بولا ”میں ایک دن اپنے گھر کے سامنے کھڑا تھا‘ میں گاڑی سے تازہ تازہ باہر نکلا تھا‘

یہ مہمان بن کر ہمارے ہمسایوں کے گھر آ رہی تھی‘ میں اس کا قد‘ بت اور چال ڈھال دیکھ کر مبہوت ہو گیا‘ میں سحر کے عالم میں اسے دیکھتا چلا گیا‘ اچانک دھماکہ ہوا‘ میں نے مڑ کر دیکھا اور میری روح فرسا ہو گئی‘ میری نئی نویلی کار پر کوڑے کا ٹرک چڑھ گیا تھا‘ یہ میرا اس کی نحوست کے ساتھ پہلا رابطہ تھا‘ میرا خاندان رشتہ لے کر اس کے گھر گیا‘ راستے میں ایکسیڈنٹ ہوا اور میری والدہ فوت ہو گئی‘میں اسے بیاہ کر لایا تو ہمارے ہمسائے کے گھر میں آگ لگ گئی‘

وہ آگ پھیلتے پھیلتے ہمارے گھر تک پہنچ گئی‘ ہمارا نیا باورچی خانہ جل کر راکھ ہو گیا‘ میرے والد اسے ملنے کیلئے آئے‘ سیڑھیوں سے پھسلے اور ان کی ٹانگ ٹوٹ گئی اور میرا بھائی اور میری بھابھی ملاقات کیلئے آئے تو ان کی آپس میں لڑائی ہوگئی اور نوبت طلاق تک پہنچ گئی“۔ خاوند خاموش ہو گیا‘ جج نے کہا
”یہ سارے حادثے محض اتفاق بھی تو ہو سکتے ہیں“ خاوند نے جواب دیا ”میں بھی شروع میں یہی سمجھتا تھا لیکن میں نے جب غور کیا تویہ سارے حادثات محض اتفاق محسوس نہ ہوئے‘

مجھے یہ حقیقت لگے“ جج نے پوچھا ”مثلاً‘‘وہ بولا”مثلاً میں جب بھی اسے شاپنگ کیلئے لے کر جاتا ہوں‘ میرا چالان ضرور ہوتا ہے‘ میرا بٹوہ یا بیگ ضرور گم ہوتا ہے اور میری گاڑی کو ڈنٹ ضرور پڑتا ہے‘میرے پاؤں میں دوبار موچ بھی آ چکی ہے‘ میرے کپڑے کئی بار پھٹ چکے ہیں اور میں کئی بار ڈگمگا کر گر چکا ہوں‘ ہمارے گھر میں جو بھی آتا ہے وہ لڑتا ہوا یا روتا ہوا واپس جاتا ہے‘ ہمارے گھر کی طرف آنے والے لوگوں کو بھی کوئی نہ کوئی حادثہ پیش آ جاتا ہے‘ ہمارے گھر کی بجلی‘ گیس اور پانی کی لائین بھی اکثر پھٹ جاتی ہے اور آپ آخری ستم بھی ملاحظہ کیجئے‘

میں پچھلے ہفتے بے روزگار بھی ہو گیا‘ مجھے نوکری سے جواب مل گیا“ جج نے اثبات میں سر ہلایا اور پوچھا”یہ کیا گارنٹی ہے یہ سارے واقعات تمہاری اہلیہ کی وجہ سے ہو رہے ہیں‘ کیا یہ ممکن نہیں تم منحوس ہو اور یہ بے چاری تمہاری وجہ سے یہ ساری تکلیفیں برداشت کر رہی ہو“ خاوند نے ہاں میں سر ہلایا اور بولا ”جناب میں نے یہ بھی سوچا تھا لیکن یہ جب بھی میکے جاتی ہے‘ میری زندگی معمول پر آ جاتی ہے اورمیرے سسرال کے لوگ حادثوں کا شکار ہونے لگتے ہیں‘

میں جب بھی اکیلا گھر سے نکلتا ہوں میرے ساتھ خیریت رہتی ہے لیکن جب بھی یہ میرے ساتھ باہر جاتی ہے یا میں ٹیلی فون پر اس سے رابطہ کرتا ہوں‘ میرا برا وقت شروع ہو جاتا ہے چنانچہ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں میرے اندر نہیں خرابی اس کے اندر ہے‘ مجھے اس سے الگ ہو جانا چاہیے“ جج نے تحمل کے ساتھ یہ ساری گفتگو سنی لیکن وہ خاتون کو منحوس ماننے کیلئے تیار نہ ہوا اور اس نے خاوند کو تسلی دے کر واپس بھجوا دیا لیکن وہ لوگ جوں ہی کمرہ عدالت سے نکلے جج کی ٹرانسفر کا پروانہ آ گیا‘

جج نے اپنا ہرکارہ دوڑایا‘ خاوند کو واپس بلایا‘ اپنی ٹرانسفر کا پروانہ دکھایا اور اسے مشورہ دیا ”تم اپنی بیوی کو فوراً طلاق دے دو“ اور عدالت سے نکل گیا‘یہ سعودی عرب کا واقعہ ہے اور یہ واقعہ مشال السدیدی نے ”سعودی گزٹ“ میں تحریر کیا۔ہم میں سے بے شمار لوگ نحوست کے فلسفے سے اتفاق نہیں کرتے‘ میں بھی ان لوگوں میں شامل ہوں مگر میں زندگی میں اس کے باوجود بے شمار مرتبہ نحوست کا شکار ہوا اور میں نے اس کا نقصان بھی اٹھایا‘میرے قریبی حلقے میں ملک ریاض ایسے انسان ہیں جو برکت اور نحوست کے سٹرانگ ”بلیور“ ہیں‘ یہ اکثر کہتے ہیں‘ انسان کو بعض عورتیں‘ بعض مکان‘ بعض گاڑیاں‘ بعض نمبر‘ بعض ملازم اور بعض بچے سوٹ کر جاتے ہیں‘

یہ ان کیلئے برکت‘ خوشحالی اور سکون لاتے ہیں‘ ہمیں کبھی ان لوگوں‘ جگہوں‘ نمبروں اور جائیدادوں کو خود سے دور نہیں کرنا چاہیے‘ ملک ریاض یہ بھی کہتے ہیں ہمیں بعض لوگ‘ جائیدادیں اور نمبر سوٹ نہیں کرتے‘ ہم ایسے لوگوں سے جتنی جلدی جان چھڑا لیں ہمارے لئے اتنا اچھا ہوتا ہے‘ میں ان سے مکمل اتفاق نہیں کرتا لیکن بعض چیزیں میرے اپنے تجربے میں بھی آئی ہیں اورمیں نہ چاہتے ہوئے بھی اس فلسفے پریقین کیلئے مجبور ہو گیا‘

مجھے یہاں اپنے ایک دوست کا تجربہ یاد آ رہا ہے‘ میرے دوست نے دعویٰ کیا تھا”میں زندگی میں سات مکانوں میں رہا ہوں‘ مجھے ہر مکان میں مختلف تجربہ ہوا‘ میرا پہلا گھر جھگڑالو تھا‘ میں نے ہمیشہ اس گھر میں سب کو لڑتے دیکھا‘ ہماے بعد بھی جو اس گھر میں گیا وہ لڑائی مار کٹائی کا شکار ہوا‘ ہمارا دوسرا گھر ہجرت کا گھر تھا‘ وہ گھر کبھی کسی کا مستقل ٹھکانہ نہیں بن سکا‘ لوگ اس گھر میں آتے تھے اور چلے جاتے تھے‘

ہم بھی آئے اور چلے گئے‘ ہمارا تیسرا گھر ترقی کا گھر تھا‘ میرے سمیت جو بھی شخص اس گھر میں رہا‘ اس نے ترقی بھی کی اور اس نے جلد ہی اپنا ذاتی گھر بھی بنا لیا‘ ہمارا چوتھا گھر بے آرام گھر تھا‘ ہم میں سے کوئی شخص اس گھر میں سکھی نہیں رہ سکا‘ وہ بے آرامی اور چڑچڑے پن کا شکار ہوا اور وہ جلد اس گھر سے نکلنے پر مجبور ہو گیا‘

ہمارے پانچویں گھر میں برکت‘ خوش حالی اور اطمینان تھا‘ ہم جب تک وہاں رہے‘ ہم پر برکت اور اطمینان کا سایہ رہا‘ ہمارے چھٹے گھر میں خوشیاں‘ فراخی اور فراوانی تھی‘ ہم جب اس گھر میں آئے ہماری خوشیوں‘ فراخی اور فراوانی میں اضافہ ہوگیا اور میں نے آخر میں پہاڑوں کے درمیان ایک چھوٹا سا گھر بنایا‘ مجھے جتنا سکون اس گھر میں ملا‘

وہ مجھے دنیا کے کسی مقام‘ کسی جگہ نصیب نہیں ہوا‘ میں نے بار بار یہ تجربہ دہرایا اور میں ہر بار اسی نتیجے پر پہنچا‘ زمین کے ہر ٹکڑے کی ایک تاثیر ہوتی ہے اور یہ تاثیر اس زمین پر رہنے والوں کو متاثر کرتی ہے“ میرے دوست نے دعویٰ کیا”میں نے یہ تجربہ لوگوں پر بھی کیا‘ مجھے زندگی میں بے شمار ایسے لوگ ملے جن سے ملاقات کا مجھ پر مثبت اثر ہوا اور میں بے شمار ایسے لوگوں سے بھی ملا جو بہت اچھے‘ بہت نیک اور بہت پڑھے لکھے تھے لیکن میں جب بھی انہیں ملا وہ میری زندگی کا سکون‘ اطمینان اور خوشی کھا گئے‘ میں بے آرامی اور مسائل کا شکار ہو گیا‘ یہ کیا ہے اور کیوں ہے میں آج تک اس کی وجہ نہیں جان سکا“

میں نے اس دوست کی رائے سے بھی اتفاق نہیں کیا لیکن اس کے باوجود کہ یہ حقیقت ہے‘ ہم میں سے اکثر لوگ زندگی میں بے شمار مرتبہ اس کیفیت اور اس تجربے سے گزرتے ہیں‘ ہم میں سے چند بہادر لوگ اسے نحوست کہہ کر جان چھڑا لیتے ہیں اور میرے جیسے چند کنفیوژڈ لوگ گومگو کے عالم میں وجہ تلاش کرتے رہ جاتے ہیں‘یہ جب تک سعودی جج کی طرح تبادلے کا خط نہ پڑھ لیں یہ اس وقت تک نحوست کے شکار لوگوں کو تسلی دیتے رہتے ہیں‘ یہ حادثوں کو محض اتفاق کہتے رہتے ہیں‘ میں اکثر سوچتا ہوں اللہ تعالیٰ نے مصیبت کے زمانے میں اپنے انبیاء کو ہجرت اور نبی اکرم ؐ افلاس کے شکار صحابہؓ کو نئی شادی کا حکم کیوں دیتے تھے‘

شاید ہمارے رزق‘ ہماری ترقی کی چابی کسی عورت کی جیب میں ہوتی ہے اور ہمارے امن اور سکون کی زمینیں ہمارا انتظار کرتی رہتی ہیں اور ہم جب تک اپنے مقدر میں لکھی زمین تک نہیں پہنچتے ہم سکون اور امن کے مزے کو ترستے رہتے ہیں اور جب تک کوئی عورت آ کر ہمارے مقدر کا دروازہ نہیں کھولتی ہم اس وقت تک بند دروازے کو ٹکریں مارتے رہتے ہیںاور یہ بھی عین ممکن ہے کوئی منحوس گھر‘ کوئی منحوس شخص‘ کوئی منحوس نوکری اور کوئی منحوس ہندسہ ہماری خوشیوں کے دروازے پر ڈانگ لے کر کھڑا ہو اور یہ جب تک وہاں موجود رہے ہم اس وقت تک جال میں پھنسی مکھی کی طرح ٹامک ٹوئیاں مارتے رہیں۔
یہ کیا ہے‘ میں بری طرح کنفیوژڈ ہوں۔



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…