انوار الحق کا تعلق باجوڑ ایجنسی سے تھا‘ یہ پندرہ سال کی عمر میں روزگار کے سلسلے میں لاہور آ یا‘ لاہور کا لنڈا بازار اس کا ٹھکانہ بنا‘ انوار الحق کے خاندان کے لوگ لنڈے کا کام کرتے تھے‘ یہ لوگ لاہور میں پرانے کپڑے‘ پرانے کمبل‘ پرانی جیکٹیں اور پرانے جوتے بیچتے تھے‘ انوار الحق کے چار بھائی اس کاروبار سے منسلک تھے‘ یہ بھی لنڈے سے وابستہ ہو گیا‘ یہ شروع میں پرانے کپڑے کندھے پر رکھ کر پھیری لگاتا تھا‘ یہ بعد ازاں دکانوں کے سامنے ٹھیلا لگانے لگا اور یہ آخر میں تھوک کا کاروبار کرنے لگا‘
یہ بیس سال لنڈے کا کام کرتا رہا‘ انوار الحق نے اس دوران شادی بھی کر لی اور اس کے بچے بھی ہو گئے‘ یہ سال چھ ماہ میں باجوڑ کا ایک آدھ چکر بھی لگا لیتا تھا اور یہ رشتے داروں سے ملاقات کےلئے افغانستان بھی چلا جاتا تھا‘ یہ 2010ءکے بعد زیادہ تواتر سے افغانستان جانے لگا‘ افغانستان میں اس کی ملاقات تحریک طالبان پاکستان کے لوگوں کے سے ہونے لگی‘ یہ ملاقاتیں رنگ لائیں اور یہ بھی ان لوگوں کے ساتھ شامل ہو گیا‘ یہ افغانستان سے ٹریننگ بھی لینے لگا‘ یہ لوگ اسے مالی معاونت بھی دیتے تھے‘ یہ سلسلہ چلتا رہا‘ تحریک کے لوگ ٹوٹتے بکھرتے رہے‘ یہ مختلف گروپوں اور گروہوں میں تقسیم ہوتے رہے یہاں تک کہ اگست 2014ءمیں تحریک طالبان طالبان کے ایک گروہ نے جماعت الاحرار کے نام سے الگ گروپ بنا لیا‘ انوار الحق اس گروپ میں شامل ہو گیا‘ یہ لوگ پاکستان میں چھوٹی بڑی کارروائیاں کرتے رہے‘ جماعت الاحرار نے 2017ءکے شروع میں پاکستان میں بھرپور کارروائیوں کا فیصلہ کیا‘انوار الحق کو اطلاع کر دی گئی‘ یہ تیار بیٹھا تھا‘ پہلا مرحلہ خودکش جیکٹ افغانستان سے لاہور پہنچانا تھا‘ جماعت الاحرار نے یہ ذمہ داری عارف نام کے ایک شخص کو سونپ دی‘ عارف نے باجوڑ ایجنسی کے ایک ٹرک ڈرائیور کی خدمات حاصل کیں‘ ٹرک ڈرائیور کو بتایا گیا ”ہم ہیروئن کی کھیپ لاہور پہنچانا چاہتے ہیں“ ڈرائیور مان گیا‘
دو لاکھ روپے میں سودا ہوا‘ ڈرائیور نے یہ جیکٹ لاہور میں انوار الحق تک پہنچا دی‘ اگلا مرحلہ خودکش حملہ آور تھا‘ انوار الحق کو پیغام دیا گیا‘ خودکش فدائی تیار ہے‘ یہ فدائی طورخم پہنچا دیا جائے گا‘ یہ اسے طورخم سے وصول کر لے‘ انوارالحق خاندان سے ملاقات کے بہانے پشاور گیا‘ یہ طورخم پہنچا اور جماعت الاحرار کے لوگوں نے فدائی اس کے حوالے کر دیا‘ فدائی کا نام نصر اللہ تھا‘ یہ افغانستان کے صوبے کنڑ سے تعلق رکھتا تھا‘ وہ 16 سال کا نوجوان تھا‘ وہ پشتو کے علاوہ کوئی زبان نہیں جانتا تھا‘ انوار الحق فدائی کو بس کے ذریعے لاہور لے آیا۔
جماعت الاحرار نے انوار الحق کو پولیس پر حملے کا ٹارگٹ دیا تھا‘ اس نے لاہور میں زیادہ سے زیادہ پولیس اہلکاروں کو شہید کرنا تھا‘ انوار الحق کا خیال تھا یہ کام مال روڈ پر ہونا چاہیے‘ کیوں؟ اس کی دوجوہات تھیں‘ پہلی وجہ مال روڈ کی اہمیت تھی‘ لاہور کا ماڈل روڈ پورے پاکستان میں مشہور ہے‘ اس مشہور روڈ پر خودکش حملے کا زیادہ اثر ہوتا‘ دوسرا مال روڈ پر ہر وقت پولیس کی کوئی نہ کوئی وین کھڑی رہتی ہے اور اس وین میں ہمیشہ دس بیس پولیس اہلکار بیٹھے رہتے ہیں‘ یہ لوگ بڑی آسانی سے خودکش حملے کا نشانہ بن سکتے تھے‘
انوارالحق مال روڈ لاہور کی ریکی کرنے لگا‘ یہ روز مال روڈ کا چکر لگاتا تھا اور ان جگہوں کا اندازہ کرتا تھا جہاں عموماً پولیس وینز کھڑی رہتی ہیں‘ مال روڈ پراسے پنجاب اسمبلی کی عمارت زیادہ مناسب جگہ محسوس ہوئی‘ اس اندازے کی بھی دو وجوہات تھیں‘ پہلی وجہ پنجاب اسمبلی کا سیاسی وقار تھا‘ پنجاب اسمبلی کے سامنے خود کش حملے کی خبر پوری دنیا میں پھیل جاتی اور یہ دہشت گردوں کا سب سے بڑا مقصد تھا‘ دوسرا پنجاب اسمبلی کے سامنے ہر وقت پولیس کی بھاری نفری موجود رہتی ہے چنانچہ پولیس کو اس جگہ ٹارگٹ کرنا آسان تھا‘ انوار الحق ریکی کرتا رہا یہاں تک کہ سوموار 13 فروری کا دن آ گیا‘
انوار الحق نے ٹیلی ویژن پرفارما سوٹیکل انڈسٹری اور میڈیکل سٹورز ایسوسی ایشن کے کارکنوں کو مال روڈ پر جمع ہوتے اور درجنوں پولیس اہلکاروں کو ان کے گرد گھیرا ڈالتے دیکھا‘ یہ احتجاج اور پولیس کی یہ نفری انوارالحق کےلئے سنہری موقع تھا‘ یہ مال روڈ پہنچا‘ اس نے کھلی آنکھوں سے موقع دیکھا‘یہ واپس گیا‘ فدائی کو اٹھایا‘ جیکٹ پہنائی اور اسے موٹر سائیکل پر بٹھا کر مال روڈ پہنچ گیا‘ یہ دونوں ٹمپل روڈ کے راستے مال روڈ تک پہنچے تھے‘ انوارالحق نے موٹر سائیکل کھڑی کی‘
فدائی نصراللہ کو ساتھ لیا‘ یہ دونوں باتیں کرتے ہوئے احتجاجیوں کے قریب پہنچے اور لوگوں میں گھل مل گئے‘ ڈی آئی جی احمد مبین مظاہرین سے ملاقات کےلئے 45 منٹ قبل وہاں پہنچے تھے جبکہ ایس ایس پی زاہد گوندل آدھ گھنٹہ پہلے وہاں آئے تھے‘ یہ دونوں باری باری مظاہرین سے گفتگو کر رہے تھے‘ انوارالحق نے فدائی نصراللہ کو پولیس افسروں کی طرف دھکیلا اور خود تیزی سے پیچھے ہٹ گیا‘ وہ ٹمپل روڈ کی طرف دوڑتا چلا گیا‘ وہ موٹر سائیکل کے پاس پہنچا‘ موٹر سائیکل سٹارٹ کی اور وہاں سے غائب ہو گیا‘
انوارالحق کے روانہ ہوتے ہی زوردار دھماکے کی آواز آئی اور فضا دھوئیں سے بھر گئی‘ لاہور خون میں نہا گیا۔یہ دھماکہ خوفناک تھا‘ پورا ملک دہل کر رہ گیا‘ لاہور پولیس کا ایک حصہ لاشیں اٹھانے اور زخمیوں کو ہسپتالوں تک پہنچانے میں مصروف ہو گیا جبکہ دوسرا حصہ خود کش حملہ آور اور اس کے سہولت کاروں کی تلاش میں محو ہو گیا‘ پنجاب حکومت نے اکتوبر 2016ءمیںسیف سٹی پراجیکٹ شروع کیا تھا‘ اس پراجیکٹ کے تحت لاہور شہر میں12ارب روپے سے سی سی ٹی وی کیمرے لگائے تھے‘
یہ جدید ترین نظام تھا‘ پولیس نے کیمروں کی مدد لینا شروع کی تو پتہ چلا جہاں بم دھماکہ ہوا تھا وہاں کے کیمرے کام نہیں کر رہے تھے چنانچہ خودکش حملہ آورکو وہاں سے شناخت نہیں کیا جا سکتا‘ پولیس نے فوری طور پر قریب ترین علاقوں کے کیمروں کے ڈیٹا کا تجزیہ شروع کر دیا‘ پولیس کا دو قسم کے لوگوں پر فوکس تھا‘ وہ لوگ جو دن میں کم از کم دو تین بار دھماکے کی جگہ گئے اور یہ لوگ بعد ازاں شام کے وقت کسی اجنبی کے ساتھ دوبارہ وہاں آئے اور دوسرا یہ دھماکے سے چند لمحے قبل یا دھماکے سے فوری بعد واپس آئے
اور وہ اجنبی ان کے ساتھ نہیں تھا‘ پولیس نے ان دونوں سوالوں کو ذہن میں رکھ کر سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج کا تجزیہ کیا اور یہ آدھ گھنٹے میں انوارالحق تک پہنچ گئے‘ یہ وہ شخص تھا جو دن میں تین بار اس جگہ اکیلا نظر آیا‘ یہ شام کے وقت ایک نوجوان کے ساتھ بھی وہاں آیا‘ یہ دونوں پیدل چلتے ہوئے دھماکے کی جگہ گئے‘ یہ بعد ازاں افراتفری کے عالم میں اکیلا واپس آیا‘ موٹر سائیکل پر سوار ہوا اور اس کے جانے کے چند سیکنڈ بعد دھماکہ ہو گیا‘ پولیس نے موٹر سائیکل کا ریکارڈ چیک کیا‘
پتہ چلا یہ موٹر سائیکل چوری شدہ ہے‘ مالک نے تھانے میں چوری کی باقاعدہ ایف آئی آر درج کرا رکھی ہے‘ چوری کی ایف آئی آر نے شک کی گنجائش ختم کر دی‘ پولیس نے انوارالحق کی تلاش شروع کر دی‘ پولیس کا روایتی طریقہ استعمال ہوا‘ وہ موٹر سائیکل جس طرف سے آئی تھی اور جس طرف گئی تھی وہ علاقہ خصوصی طور پر سرکل کر لیا گیا اور وہاں مخبر پھیلا دیئے گئے‘ پولیس کو انوارالحق تک پہنچنے میں دو دن لگ گئے یہاں تک کہ یہ لنڈا بازار پہنچی‘ انوارالحق کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور یہ پولیس کی حراست میں آ گیا‘ دھماکے والے دن انوارالحق نے جو کپڑے پہن رکھے تھے پولیس نے وہ بھی برآمد کر لئے‘
پولیس نے انوارالحق کو معمول کی کارروائی کے عمل سے گزارا اور انوارالحق نے تمام خفیہ معلومات پولیس کے حوالے کر دیں‘ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے 17 فروری کو انوارالحق کا اعترافی بیان میڈیا کے سامنے رکھ دیا‘ یہ سارا آپریشن لاہور پولیس کے کاﺅنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) نے کیا‘ یہ پولیس کی بہت بڑی کامیابی ہے اور یہ کامیابی ثابت کرتی ہے ہم اگر پولیس کو سہولتیں فراہم کریں‘
ہم اگر انہیں کام کی آزادی دیں اور ہم اگر ان پر اعتماد کریں تو یہ کمال کر سکتے ہیں‘ ہمیں ماننا ہو گا‘ دنیا کا ہر ملک جس طرح بیرونی جارحیت روکنے کےلئے فوج کا محتاج ہے یہ بالکل اسی طرح اچھی اور معیاری پولیس سروس کے بغیر اندرونی جارحیت نہیں روک سکتا‘ ہمیں بہرحال کبھی نہ کبھی پولیس کو بھی اتنی اہمیت اور ریسورسز دینا ہوں گے جتنے ہم افواج پاکستان کو دیتے آ رہے ہیں‘
میں دل سے یہ سمجھتا ہوں ہم جب تک یہ توازن قائم نہیں کریں گے‘ ہم اس وقت تک یہ ملک نہیں چلا سکیں گے لیکن میں اس وقت سے پہلے لاہور پولیس بالخصوص کاﺅنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں‘ یہ لوگ ثابت کر چکے ہیں ہمارے ملک میں سسٹم بھی موجود ہے اور لوگ بھی کام کر رہے ہیں‘ ہمیں بس توجہ میں معمولی سا اضافہ کرنا ہوگا اور ہم دوبارہ ٹریک پر آ جائیں گے‘ لاہور پولیس کو بہت بہت مبارک ہو۔