جمعہ‬‮ ، 22 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

بدلتا ہوا بلوچستان

datetime 6  ‬‮نومبر‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

بلوچستان یونیورسٹی اور یونیورسٹی کے وائس چانسلرپروفیسر ڈاکٹر جاویداقبال بہت بڑی کیس سٹڈی ہیں‘ وفاقی حکومت کو یہ کیس سٹڈی پی آئی اے‘ پاکستان سٹیل مل اور پاکستان ریلوے جیسے تمام مریض اداروں کو پڑھانی چاہیے‘ یہ سٹڈی ثابت کر دے گی اگروِل ہو‘ آپ اگر میرٹ پر تقرری کریں‘ آپ اختیارات دیں اور آپ کام میں مداخلت نہ کریں تو ادارے بھی اپنے قدموں پر کھڑے ہو جاتے ہیں۔

بلوچستان یونیورسٹی 2013ءتک پاکستان کا خوفناک ترین ادارہ تھا‘ کیمپس میں مسلح جتھے کھلے عام پھرتے تھے‘ یہ اساتذہ کو سرعام گولی مار دیتے تھے اور کسی میں لاش اٹھانے کی جرا¿ت نہیں ہوتی تھی‘ ہڑتال عام تھی‘ طالب علم امتحان کے بغیر پاس ہو جاتے تھے‘ ہاسٹلوں پر قبضے تھے‘ بجلی اور گیس کے میٹر کٹے ہوئے تھے‘ یونیورسٹی میں پاکستان کا نام لینا جرم تھا‘ جھنڈا لہرانے یا پاکستان زندہ باد کہنے والوں کو گولی مار دی جاتی تھی اور یونیورسٹی کے ملازمین کی تنخواہیں رک چکی تھیں‘ آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو گی بلوچستان یونیورسٹی دنیا کی واحد یونیورسٹی تھی جس کے اساتذہ نے 2013ءمیں یونیورسٹی گاﺅن پہنے‘ ہاتھوں میں کشکول اٹھائے اور بھیک مانگنے کےلئے سڑک پر کھڑے ہو گئے اور لوگوں نے انہیں باقاعدہ بھیک دی‘ یونیورسٹی کے زیادہ تر پروفیسر اس دور میں کراچی‘ لاہور اور اسلام آباد نقل مکانی کر گئے لیکن پھر یہ یونیورسٹی بدل گئی‘ یہ تعلیم کا گہوارہ بن گئی‘ طالب علم تین ہزار سے11 ہزار6 سو ہو چکے ہیں‘ پی ایچ ڈی اساتذہ کی تعداد 180 ہے اور ان میں 135 فارن کوالی فائیڈ ہیں‘ یہ لوگ امریکا اور یورپ کی نامور یونیورسٹیوں سے پی ایچ ڈی کر کے کوئٹہ آئے ہیں‘ آپ یونیورسٹی میں جس سے ہاتھ ملاتے ہیں وہ ڈاکٹر نکلتا ہے اور اس کے پاس ہارورڈ‘ آکسفورڈ اور ہائیڈل برگ کی ڈگری ہوتی ہے‘ یونیورسٹی میں چار سو طالب علم ایم فل کر رہے ہیں‘ پی ایچ ڈی پروگرام بھی فل سوئنگ میں چل رہا ہے‘ آپ کو یونیورسٹی کے لباس‘ چال ڈھال اور اطوار کسی بھی طرح پنجاب اور سندھ کی بڑی یونیورسٹیوں سے کم دکھائی نہیں دیتے‘ لائبریری بڑی اور خوبصورت ہے‘ یہ رات تک آباد رہتی ہے‘ نوجوانوں کو نشست نہ ملے تو یہ فرش پر بیٹھ کر پڑھنا شروع کر دیتے ہیں‘ کیمپس میں پاکستان زندہ باد کے نعرے بھی لگتے ہیں اور پاکستان کا پرچم بھی لہراتا ہے‘ یونیورسٹی اپنے اخراجات کا 39 فیصد خود پیدا کر رہی ہے‘ وہ ادارہ جس کاسٹاف کشکول لے کر سڑک پر کھڑاتھا اس کے اکاﺅنٹ میں اب نصف ارب روپے جمع ہیں اور یہ اچھے طالب علموں کو فیسیں واپس کر رہا ہے ‘ آپ کو شاید یہ جان کر بھی حیرت ہو گی یہ ملک کی واحد یونیورسٹی ہے جو اپلائی کرنے والے تمام طالب علموں کو داخلہ دے دیتی ہے‘ یہ معجزہ کیسے ہوا اور یہ کتنی مدت میں ہوا؟ یہ سوال اصل کیس سٹڈی ہے۔
یہ معجزہ وائس چانسلر ڈاکٹر پروفیسر جاوید اقبال نے صرف دو سال میں کیا‘ ڈاکٹر جاوید اقبال فارما سسٹ ہیں‘ یہ بلوچستان یونیورسٹی کے طالب علم بھی تھے اور یہ یہاں پڑھاتے بھی رہے‘ یہ خاندان سمیت کراچی شفٹ ہو گئے تھے‘ حکومت نے 2013ءمیں دہشت گردی سے نبٹنے کا فیصلہ کیا‘ لیفٹیننٹ جنرل ناصر جنجوعہ کو کوئٹہ کا کور کمانڈر بنایا گیا‘ انہیں مکمل اختیارات دیئے گئے‘ یہ وژنری اور ان تھک انسان ہیں‘ یہ آگے بڑھے‘ کام شروع کیا‘ بلوچوں کے مسائل سنے اور ان مسائل کا حل تلاش کرنے لگے‘ میں دو دن کوئٹہ رہا‘ میں نے ان دو دنوں میں جنرل ناصر جنجوعہ کا نام ہر زبان سے سنا‘ یہ محبت ثابت کرتی ہے جب فیصلے میرٹ پر ہوتے ہیں تو لوگ قومیت اور لسانیت دونوں سے بالاتر ہو کر خدمات کا اعتراف کرتے ہیں‘ میری جنرل جنجوعہ سے صرف ایک ملاقات ہے‘ یہ ملاقات سری لنکا میں ہوئی‘ میں نے جنرل صاحب سے عرض کیا‘ آپ کی آنکھیں آپ کے چہرے کے تاثرات سے میچ نہیں کرتیں‘ وہ بولے ”کیسے؟“ میں نے عرض کیا ”آپ کے چہرے پر سنجیدگی لیکن آنکھوں میں شرارت ہوتی ہے“ انہوں نے قہقہہ لگایا‘ مجھے کوئٹہ میں آ کر معلوم ہوا یہ بلوچستان میں بہت مقبول ہیں‘ لوگ دل سے ان کا احترام کرتے ہیں‘ مجھے یہاں آ کر محسوس ہوا حکومت بلوچستان کے معاملے میں بہت سنجیدہ ہے‘ یہ جان چکی ہے ہم نے اگر دوریاں ختم نہ کیں تو بلوچستان ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا‘ ہماری حکومت جان چکی ہے بھارت اور امریکا بلوچستان میں دہشت گردی کےلئے بھاری سرمایہ کاری کر رہے ہیں‘ یہ بلوچستان کو پاکستان سے توڑنا چاہتے ہیں اور ہم اگر ملک کو سلامت دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں بلوچوں سے اپنا دل جوڑنا ہو گا اور جنرل ناصر جنجوعہ نے یہ کام کیا چنانچہ لوگ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی انہیں یاد کر رہے ہیں‘ یہ کوئٹہ میں ہیرو کی طرح پہچانے جاتے ہیں‘ ڈاکٹر جاویداقبال بھی جنرل ناصر جنجوعہ کی دریافت تھے‘ یہ انہیں واپس کوئٹہ لائے اور بلوچستان یونیورسٹی ان کے حوالے کر دی۔
ہمارے ملک کی تاریخ ہے ہم نے جس ادارے کو تباہ کر دیا وہ ادارہ دوبارہ قدموں پر کھڑا نہیں ہو سکا لیکن بلوچستان یونیورسٹی استثنیٰ ہے‘ یہ مکمل طور پر تباہ ہوئی اور پھر دوبارہ کھڑی ہو گئی‘ یہ بالکل ایسے ہے جیسے کوئی شخص فوت ہو جائے‘ اسے کفن پہنا کر قبر میں دفن کر دیا جائے اور یہ دوبارہ زندہ ہو جائے‘ بلوچستان یونیورسٹی ایک ایسا معجزہ ہے۔
میں 28 اکتوبر کی صبح بلوچستان یونیورسٹی گیا‘ گیٹ پر پہرے تھے‘ دیواریں قلعہ نما تھیں اور ان پر درجنوں کیمرے لگے تھے‘ وائس چانسلر کی حفاظت کےلئے خصوصی انتظامات ہیں‘ یہ گھر سے نکلتے ہیں یا یونیورسٹی سے گھر جاتے ہیں تو ان کے آگے پیچھے ‘دائیں بائیں ایف سی کی گاڑیاں چلتی ہیں‘ یہ یونیورسٹی کے اندر بھی گارڈز کے نرغے میں رہتے ہیں‘ ڈاکٹر صاحب اپنی پشت پر لوڈڈ پستول بھی لگائے رکھتے ہیں اور دفتر میں ان کی میز کے نیچے کلاشنکوف ہوتی ہے‘ میں نے ان انتظامات کے بارے میں پوچھا تو ڈاکٹر صاحب نے بتایا ” مجھے چار گروپوں کی طرف سے دھمکیاں مل رہی ہیں‘ ملک کے دشمن یہ سمجھتے ہیں میں نے بند یونیورسٹی کھول کر ان کے ایجنڈے کو نقصان پہنچایا اور ہم لوگ بلوچستان کو زندہ کر رہے ہیں‘ یہ لوگ ہمارے صوبے کو برین لیس کرنا چاہتے ہیں‘ یہ ڈاکٹروں اور وکلاءکو ختم کرتے چلے جا رہے ہیں‘ یہ اس کے بعد پروفیسروں کو نشانہ بنائیں گے‘ ہمارے پاس ملک کی سب سے بڑی اور مضبوط فیکلٹی ہے‘ یہ لوگ اس فیکلٹی کو اڑانا چاہتے ہیں چنانچہ میں اپنے اساتذہ کی حفاظت بھی کر رہا ہوں اور اپنی بھی‘ میں انہیں بتا دینا چاہتا ہوں‘ میں بطخ کی طرح نہیں مروں گا‘ میں بلوچ کی طرح لڑ کر مروں گا‘ ‘ ڈاکٹر صاحب نے بتایا ”ہم کسی شخص کو یونیورسٹی کا ماحول خراب نہیں کرنے دیتے‘ ہماری یونیورسٹی کا اپنا حفاظتی نظام ہے اور ہمارے پاس ٹرینڈ گارڈز ہیں‘ یہ انتظامات دہشت گردوں کو یونیورسٹی کی طرف نہیں دیکھنے دیتے لہٰذا ہمارے اساتذہ اور طالب علم اطمینان سے پڑھ اور پڑھا رہے ہیں“ مجھے ڈاکٹر جاوید اقبال کی سپرٹ اچھی لگی‘ یہ میدان میں ڈٹ گئے ہیں‘ بلوچستان کے زیادہ تر لوگ ڈاکٹر جاوید اقبال کی طرح میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں‘ یہ بھی بطخ کی طرح نہیں بلکہ لڑ کر مرنا چاہتے ہیں‘ وفاق بھی ان لوگوں کی مدد کر رہا ہے‘ بلوچی نوجوان دھڑا دھڑ فوج‘ نیوی اور فضائیہ میں بھرتی کئے جا رہے ہیں‘ پی ایم اے کے ہر بیچ سے 70 بلوچی نوجوان سکینڈ لیفٹیننٹ بن رہے ہیں‘ افواج پاکستان نے بلوچی نوجوانوں کےلئے سلیکشن کا معیار بھی نرم کر دیا ہے‘ صوبائی حکومت بھی بھرتیاں کر رہی ہے اور نوجوانوں کو ہنر بھی سکھائے جارہے ہیں‘ یہ سارے عناصر مل کر بلوچستان کو تبدیل کر رہے ہیں‘ یہ تبدیلی اگر اسی ترتیب اور رفتار سے چلتی رہی تو کل کا بلوچستان آج اور گزرے کل کے بلوچستان سے ہزار گنا بہتر ہو گا‘ یہ بلوچستان صرف بلوچستان نہیں ہو گایہ پاکستان ہو گا‘ مکمل پاکستان۔



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…