مشاہد اللہ خان سینیٹر ہیں‘ یہ پی آئی اے میں ملازم تھے‘ یہ ٹریڈ یونین کی سیاست میں آئے‘ سیاست کے مختلف گلی کوچوں میں دھکے کھاتے رہے اور آخر میں پاکستان مسلم لیگ ن کی کھجور میں آ اٹکے‘ سخن فہم ہیں‘ ہزاروں شعر زبانی یاد ہیں‘ پنجابی اور اردو دونوں زبانوں کے ماہر ہیں اور خوفناک حس مزاح کے مالک ہیں ‘ یہ کینسر کے مرض سے بھی بچ نکلے ہیں‘ یہ آپ کو ٹیلی ویژن سکرین پر مخالفوں کے پرخچے اڑاتے نظر آتے ہیں‘ یہ بولتے وقت آگے‘ پیچھے‘ دائیں‘ بائیں نہیں دیکھتے‘ سیدھے دیکھتے ہیں اور اس وقت تک دیکھتے رہتے ہیں جب تک کشتی ڈوب نہیں جاتی اور یہ کشتی اکثر اوقات ان کی اپنی ہوتی ہے۔
مشاہد اللہ خان نے اپنی آخری اور بڑی کشتی 14 اگست 2015ءمیں ڈبوئی‘ یہ اس وقت موسمیاتی تبدیلیوں کے وفاقی وزیر تھے‘ عمران خان کے دھرنے کی سالگرہ تھی‘ بی بی سی اردو نے دھرنے کے حوالے سے مشاہد اللہ خان کا انٹرویو کیا‘ یہ موڈ میں تھے چنانچہ انہوں نے بی بی سی کو ایک سنی سنائی کہانی سنا دی‘ یہ کہانی کسی ایسی ٹیپ سے متعلق تھی جو آئی بی نے دھرنوں کے دوران مختلف لوگوں کی ٹیلی فونک گفتگو کی ریکارڈنگ سے تیار کی تھی‘ مشاہد اللہ نے دعویٰ کیا یہ ٹیپ وزیراعظم نے 28 اگست 2014ءکی شام آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو سنائی اور یوں دھرنے کی پوری سازش بے نقاب ہو گئی‘ مشاہد اللہ کے بقول میاں نواز شریف کی بجائے آرمی چیف اس سازش کا ہدف تھے‘ مشاہد اللہ نے دعویٰ کیا تھا‘ آئی ایس آئی کے اس وقت کے ڈی جی لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام عباسی کو بھی تصدیق کےلئے وزیراعظم ہاﺅس بلایا گیا تھا وغیرہ وغیرہ‘ بی بی سی اردو نے 14 اگست 2015ءکو مشاہد اللہ خان کا یہ انٹرویو اپنی ویب سائیٹ پر ”اپ لوڈ‘ کر دیا‘یہ انٹرویو اس وقت بھی سوشل میڈیا پر موجود ہے‘ مشاہد اللہ خان کے بیان کردہ تمام حقائق بعد ازاں غلط ثابت ہوئے‘ فوج کی طرف سے اس انٹرویو پر شدید ناراضگی کا اظہار ہوا‘ آئی ایس پی آر کے ڈی جی جنرل عاصم باجوہ کی طرف سے بھی تردیدی ٹویٹ آ گئی‘ وزیراعظم ہاﺅس نے بھی اس واقعے اور ٹیپ کی موجودگی دونوں کی تردید کر دی‘ بھارتی میڈیا نے یہ انٹرویو اٹھا لیا‘ یورپ اور امریکا میں بھی یہ انٹرویو شائع ہوا‘ یہ انٹرویو خوفناک طریقے سے ”بیک فائر“ ہوا اور اگلے چند گھنٹوں میں حکومت ”تردید پلس“ پر مجبور ہو گئی‘ مشاہد اللہ خان اس وقت کانفرنس میں شرکت کےلئے مالدیپ گئے ہوئے تھے‘ وزیراعظم ہاﺅس سے انہیں ٹیلی فون آنا شروع ہوئے‘ مشاہد اللہ نے فون نہ اٹھائے تو چارج ڈی آفیئرز کو دس منٹ میں چالیس کالیں آ گئیں‘ وزیراعظم کا عملہ مشاہد اللہ سے فوری رابطہ چاہتا تھا لیکن وہ ”باتھ روم“ میں تھے‘ آخر میں پرویز رشید نے فون کیا‘ چارج ڈی آفیئرز نے بتایا ”سر وہ باتھ روم میں ہیں“ اسے حکم دیا گیا ”باتھ روم کا دروازہ توڑ کر مشاہد اللہ کو فون دے دو“ بہرحال مشاہد اللہ باتھ روم سے نکلے‘ عملے کو باہر نکالا اور فون کے ساتھ کمرے میں بند ہو گئے‘ یہ باہر نکلے تو ان کا رنگ پیلا تھا اور ماتھا پسینے سے شرابور تھا‘ مشاہد اللہ نے فوری واپسی کا اعلان کر دیا‘ فلائیٹ اگلے دن تھی لیکن مشاہد اللہ کا کہنا تھا ”میں نے اسی وقت روانہ ہونا ہے“ سفارتی عملے نے انہیں جیسے تیسے قطر کی فلائیٹ میں بٹھا دیا‘ یہ ابھی جہاز ہی میں تھے کہ حکومت نے ان کے استعفے کا اعلان کر دیا‘ مشاہد اللہ وزارت سے فارغ ہو گئے‘ یہ آج تک فارغ ہیں اور حکومت انہیں 2018ءتک کسی وزارت کا قلم دان نہیں دے گی اور اگر دیا گیا تو حکومت کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
مشاہد اللہ خان ایک انٹرویو اور انٹرویو کے رد عمل میں ایک ٹیلی فون کال کی وجہ سے اس انجام تک پہنچے‘ آپ اس سے سرل المیڈا کی سٹوری کے رد عمل اور انجام کا اندازہ لگا سکتے ہیں‘ یہ سٹوری کور کمانڈرز کی میٹنگ میں باقاعدہ ڈسکس ہوئی اور کور کمانڈرز نے سٹوری کو ”فیڈ“ اور قومی سلامتی کے منافی قرار دیا چنانچہ معاملہ بہت سیریس ہے‘ وزیراعظم ہاﺅس‘ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اور وزارت خارجہ سٹوری کو گمراہ کن قرار دے چکی ہے‘ وزیراعظم کے ترجمان بھی تین بار تردید جاری کر چکے ہیں لیکن معاملہ ٹھنڈا نہیں ہو رہا‘ فوج نے باقاعدہ پوزیشن لے لی ہے اور یہ اس پوزیشن میں حق بجانب بھی ہے‘ فوج کے کمانڈر جس یونٹ میں بھی جاتے ہیں‘ اس میں چالیس چالیس افسر اور جوان شہید نکلتے ہیں اور ان شہیدوں کے ساتھی اپنے افسروں سے ”سرل لیکس“ کے بارے میں پوچھتے ہیں‘ یہ سٹوری خطرناک بھی تھی اور قومی سلامتی کے منافی بھی لیکن صحافی اور اخبار اس معاملے میں مکمل طور پر بے گناہ ہےں‘ قومی سلامتی کی تعریف صحافیوں کا کام نہیں ہوتا‘ یہ صرف خبر دیتے ہیں‘ خبر کے پیچھے اور آگے دیکھنا ان کا کام نہیں ہوتا‘صحافی اگر قومی سلامتی کے امین ہوتے تو کبھی امریکی میڈیا ابوغریب جیل میں عراقی قیدیوں پر انسانیت سوز تشدد کی تصویریں جاری نہ کرتا‘ برطانوی اخبارات کبھی یہ نہ لکھتے” عراق میں کیمیائی ہتھیار نہیں تھے اور امریکا اور برطانیہ کی حکومتوں نے عراقی تیل پر قبضے کےلئے یہ سٹوری گھڑی تھی“ اور امریکی میڈیا کبھی ”وکی لیکس“ سے متعلق خبریں جاری نہ کرتا‘ صحافیوں کاکام خبر دینا ہوتا ہے‘ یہ خبر دیتے ہیں اور اگر خبر جھوٹی ہو تو حکومت اور متاثرہ پارٹی کے پاس عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کا آپشن موجود ہوتا ہے‘ ہماری حکومت بھی اس گمراہ کن خبر پر اخبار کے خلاف عدالت جا سکتی تھی لیکن اس نے قانونی راستے کی بجائے صحافی کا نام ای سی ایل پر ڈال دیا‘ سرل کا نام اب صحافتی تنظیموں کے دباﺅ میں ای سی ایل سے نکال دیا گیا ہے لیکن ایشو اپنی جگہ قائم ہے اور یہ ایشو کم از کم تین لوگوں کا مستقبل لے کر جائے گا۔
حکومت اخبار اور صحافی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی‘ کیوں؟ کیونکہ ان کے پاس خبر کا تحریری ثبوت موجود ہے‘ یہ ثبوت ایڈیٹر نے بھی دیکھا اور اخبار کے مالکان نے بھی چنانچہ پیچھے سٹوری ”فیڈ“ کرنے والے لوگ اور وہ لوگ بچتے ہیں جن کی ہدایت پر یہ سٹوری ”فیڈ“ کی گئی تھی اور حقائق کو توڑ امروڑا گیا تھا‘ حکومت کے چند وزراءاپنی نجی محفلوں میں وزیراعلیٰ سندھ کو اس بحران کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں لیکن جب ان سے کہا جاتا ہے ”آپ ان کا نام کیوں نہیں لیتے؟“ تو یہ جواب دیتے ہیں ”ہم عمران خان کے 30 اکتوبر کے دھرنے کی وجہ سے خاموش ہیں‘ ہم اس وقت پیپلز پارٹی کو ناراض نہیں کر سکتے“ وزیراعظم ہاﺅس کا ایک گروپ پریس سیکرٹری محی الدین وانی کو مشکوک نظروں سے دیکھ رہا ہے جبکہ دوسرا گروپ ذمہ داری پرنسپل انفارمیشن آفیسر راﺅ تحسین علی خان پر ڈال رہا ہے‘ یہ دونوں لوگ اپنی جگہ پریشان ہیں‘ یہ خود کو قربانی کا بکرا سمجھ رہے ہیں‘ حکومت کے ایک ایسے وفاقی وزیر بھی شک کی زد میں ہیں جن کی جرنیلوں سے متعلق وڈیو پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی‘ سرل المیڈا کی خبر کی وجہ سے میاں شہباز شریف اور میاں نواز شریف کے تعلقات بھی خراب ہوئے‘ میاں شہباز شریف نے 6 اکتوبر کی صبح خبر پڑھتے ہی وزیراعظم آفس کو تردید جاری کرنے کی درخواست کی تھی لیکن وزیراعلیٰ کی درخواست شام تک ”پینڈنگ“ رہی‘ تردید اس وقت جاری ہوئی جب سیلاب بے شمار پل توڑ چکا تھا چنانچہ وزیراعلیٰ پنجاب سمجھتے ہیں ان کے نام سے جان بوجھ کر غلط اطلاعات منسوب کی گئیں‘ وزیراعظم ہاﺅس کے وہ سرکاری اہلکار اس کے پیچھے ہیں جو ان کے خلاف ہیں اور وہ انہیں نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے‘ حکومت کو کچھ لوگ یہ مشورہ بھی دے رہے ہیں آپ یہ معاملہ 20 اکتوبر تک گھسیٹتے رہیں‘ 20 اکتوبر کے بعد نئے آرمی چیف کا تقرر ہو جائے گا اور یوں پالیسی بدل جائے گی جبکہ حکومتی تحقیقات کی زد میں آنے والے حضرات عمران خان کے دھرنے کو ”غیبی امداد“ سمجھ رہے ہیں‘ یہ سمجھ رہے ہیں میڈیا ایک آدھ ہفتے میں عمران خان کی طرف متوجہ ہو جائے گا‘ الزامات کا بازار گرم ہو گا اور یہ تحقیقات سیاسی بازار کی گرمی میں پگھل جائیں گی لیکن میرا خیال ہے ایسا نہیں ہوگا‘ سرل لیکس حقیقتاً سنجیدہ ایشو ہے‘ اس سے پاکستان کی سیکورٹی بھی کمپرومائز ہوئی اور فوج کو بھی عین جنگ کے درمیان بدنام کیا گیا چنانچہ حکومت اسے قالین کے نیچے نہیں چھپا سکے گی‘ دو‘ تین چار لوگوں کا سر ضرور جائے گا اور اگر سر بچ گئے تو حکومت جائے گی‘ کچھ نہ کچھ ضرور ہوگا۔
اور اگر سر بچ گئے
16
اکتوبر 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں