”میرے کچھ پلے نہیں پڑتا‘ میں دنیا جہاں کی کتابیں خریدتا ہوں‘ دنیا کے تمام بڑے رسائل‘ میگزینز اور اخبارات منگواتا ہوں‘ میںنے گھر اور دفتر میںلائبریریاں بنا رکھی ہیں‘ میں سفر پرنکلتا ہوں تو میری گاڑی اور میرے جہاز میں بھی کتابیں ہوتی ہیں‘ میرے ہاتھ میں ہر وقت کوئی نہ کوئی کتاب‘ کوئی نہ کوئی رسالہ ہوتا ہے لیکن کسی کتاب‘ کسی میگزین اور کسی اخبار کا کوئی لفظ میرے پلے نہیں پڑتا‘ میں لوگوں کی گفتگو سے بھی اچھے فقرے‘ اچھی سوچ اور اچھے خیالات اچک لیتاہوں‘ مجھے ٹیلی ویژن سے بھی اکثر اوقات اچھی خبریں اور اچھی معلومات مل جاتی ہیں لیکن میں ٹھیک دس منٹ بعد تمام چیزیں بھول جاتا ہوں‘ میںنے نیویارک اور لندن میں پانچ پانچ ہفتوں کے کورس بھی کئے‘ میں نے پاکستان میں بھی ٹیوٹر رکھے لیکن میں علم نہیں سیکھ سکا‘ مجھے عقل نہیں آئی ‘کیوں؟“ وہ مجھے اس وقت ایک بے بس اور معصوم سا شخص دکھائی دیا‘ اس وقت اگرکوئی شخص اس کی گفتگو سن لیتا تو وہ کبھی یقین نہ کرتا‘ صوفے پر بیٹھا وہ شخص پاکستان کے امیر ترین لوگوں میں شمار ہوتا ہے‘ اس کے پاس کتنی دولت ہے‘ اس کی کتنی کمپنیاں ہیں‘ اس کی کتنی فیکٹریاں ہیں‘ اس کے کتنے پلازے ہیں اور دنیا کے کس کس ملک میں اس کی کتنی جائیداد یں ہیں؟وہ حقیقتاً مٹی کو سونا بنانے کا فن جانتا ہے‘ وہ جب سٹاک ایکس چینج میں داخل ہوتا ہے تو شیئرز کی قیمتیں چڑھنے لگتی ہیں اور وہ جب کسی بنجر‘ ویران اور غیر آباد فیکٹری میں قدم رکھ دیتا ہے تو وہ دیکھتے ہی دیکھتے پھل دینے لگتی ہے لیکن وہ اس کے باوجود پریشان تھا‘ اس کی پریشانی بجا بھی تھی ‘ انسان جب سماجی سطح پر ترقی کرتا ہے تو اس کی اگلی کوشش عقل‘ علم اور ذہانت ہوتی ہے ‘ دولت انسان کو ہمیشہ مکار بناتی ہے اور مکاری علم اور ذہانت کی دشمن ہوتی ہے‘ آپ دنیا کے تمام دولت مند لوگوں کو چالاک‘ مکار اور مفاد پرست پائیں گے‘ ان لوگوں میں ایک عجیب قسم کی حس ہوتی ہے‘ یہ لوگ زمین کی سات تہوں میں چھپی دولت سونگھ لیتے ہیں‘ یہ نشے کی انتہائی سطح اور غنودگی کے گہرے عالم میں بھی سودا ہمیشہ ٹھونک بجا کر کرتے ہیں لیکن یہ لوگ جونہی کاروبار سے باہر قدم رکھتے ہیں ان کی عقل‘ ذہانت اور علم کا دائرہ ختم ہو جاتاہے اور یہ خود کو انتہا درجے کے بے وقوف‘ بے علم اور سادہ پاتے ہیں اور یہاں سے ان کی فرسٹریشن شروع ہو جاتی ہے جس کے بعد ان کے اندر خواہش پیدا ہوتی ہے ‘یہ بھی دوسرے لوگوں کی طرح علم‘ دانش اور ذہانت کی باتیں کریں‘ لوگ فلسفیوں کی طرح ان کے خیالات بھی نوٹ کریں اور پروفیسروں کی طرح ان کی باتیںگھنٹوں سنی جائیں لیکن یہ ممکن نہیں ہوتا کیونکہ ان لوگوں کی ذات میں دولت کے سوا کوئی کشش نہیں ہوتی‘ لوگ ان کے سامنے واہ واہ کرتے ہیں مگر جونہی یہ واش روم کیلئے اٹھتے ہیں تو لوگ آہ‘ آہ کرنے لگتے ہیں۔میرے یہ مہربان بھی اسی مسئلے کا شکار تھے‘ یہ علم حاصل کرنے کی لاکھ کوشش کرتے تھے لیکن علم ان سے دور بھاگتا تھا‘ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کیا ان کا مسئلہ ناقابل حل تھا؟ جی نہیں!۔
میرے اس دوست کا مسئلہ ہزاروں سال قبل بوہیمیا کے دانشوروں نے حل کر دیا تھا‘بوہیمیا ایک چھوٹی سی ریاست تھی‘ یہ ریاست پہلی جنگ عظیم سے قبل آسٹریا کا حصہ تھی‘ جنگ ہوئی تو یہ ریاست تاریخ کا حصہ بن گئی لیکن اس کی ایک حکایت شائد دنیا کی آخری سانس تک زندہ رہے گی‘ کیوں؟ کیونکہ اس حکایت میں دنیا کی بہت بڑی سچائی چھپی ہے‘ یہ حکایت دنیا کے تمام امیروں کے مسئلے کا حل ہے‘ یہ حکایت کچھ یوں تھی ”دیوتاﺅں کے ڈرائنگ روم میں ایک بار قسمت اور عقل آمنے سامنے بیٹھ گئیں‘ عقل تازہ تازہ جوان ہوئی تھی‘ وہ جوانی کے زعم میں دوسروں کو حقارت سے دیکھتی تھی‘ اس نے اس دن ٹیڑھی نظروں سے قسمت کی طرف دیکھا اور نخوت سے بولی ”میرے ہوتے ہوئے تم اونچی مسند پر کیوں بیٹھی ہو؟“ کہنہ مشق قسمت نے آنکھ کھول کر اس کی طرف دیکھا اور مسکرا کر بولی ”میں جہاں ہوتی ہوں وہاں کسی دوسرے کی ضرورت نہیں رہتی‘ میں اس لئے ہمیشہ اونچی مسند پر بیٹھتی ہوں“ یہ سن کر عقل غصے میں آ گئی اور اس نے قسمت کو چیلنج کردیا‘ قسمت نے یہ چیلنج قبول کر لیا ‘دونوں ڈرائنگ روم سے باہرنکل آئیں‘ ذرا فاصلے پر ایک کھیت تھا‘ کھیت میں ایک نوجوان لڑکا ہل چلا رہا تھا‘ قسمت نے لڑکے کی طرف اشارہ کیا اور عقل سے کہا ”تم اس لڑکے میں داخل ہو جاﺅ‘ اگر یہ لڑکا تمہاری وجہ سے کامیاب ہو گیا تو میں شکست تسلیم کر لوں گی لیکن اگر تم ناکام ہو گئی تو تم مجھے جہاں بھی دیکھو گی تم مجھے سلام کرو گی اوروہاں سے کھسک جاﺅ گی “ عقل نے اثبات میں سر ہلایا اور ہل چلاتے لڑکے کے دماغ میں چھلانگ لگا دی‘ لڑکے نے فوراً سر اٹھا کر دائیں بائیں دیکھا‘ نفرت سے ہل کی ہتھی چھوڑی اور اپنے والد کو آواز دے کر بولا ” میں آج سے یہ ہل نہیں چلاﺅں گا‘ میں مالی بنوں گا“ اس کے باپ نے اسے سمجھانے کی کوشش کی لیکن لڑکے نے جوتے پہنے اور شہر روانہ ہو گیا‘ شہر میں شاہی باغ کے مالی کو اسسٹنٹ کی ضرورت تھی‘ لڑکے نے انٹرویو دیااور وہ شاہی باغ میں اسسٹنٹ مالی بھرتی ہو گیا‘ عقل اس کے ساتھ تھی چنانچہ وہ بہت جلد کام سیکھ گیا‘ عقل مند لوگ کیونکہ ہمیشہ مفاد پرست ہوتے ہیں‘ وہ لڑکا بھی مفاد پرست بن گیا‘ اس نے سارے مالیوں کو پیچھے چھوڑ دیا‘ وہ بہت جلد بادشاہ کے مقربین میں شمار ہونے لگا‘ وہ بے انتہا عقل مند اور زیرک تھا ‘وہ بادشاہ کو مختلف معاملات میں مشورے دیتا تھا‘ بادشاہ کو اس کے مشوروں سے فائدہ پہنچا اور یوں بادشاہ اسے پسند کرنے لگا‘ اس نے اسی دوران شہزادی کو آئینے میں اتار لیا‘ شہزادی لڑکے کی محبت میں گرفتار ہو گئی‘ ایک دن جب بادشاہ اس کے کارناموں سے خوش تھا تو اس نے اس سے پوچھا ”مانگو کیا مانگتے ہو“ لڑکا چالاک تھا‘ اس نے بادشاہ سے شہزادی کا ہاتھ مانگ لیا‘ یہ سن کر وزیراعظم آگے بڑھا اور بادشاہ سے عرض کیا ”جناب اس کمی کمین کی یہ جرات کہ یہ آپ سے شہزادی کا ہاتھ مانگ لے‘ یہ گستاخ واجب القتل ہے“ بادشاہ جلال میں آ گیا اور اس نے لڑکے کا سر قلم کرنے کا حکم جاری کر دیا‘جلاد تلوار لے کر آگے بڑھا‘ یہاں پہنچ کرعقل گھبرا گئی اور اس نے دائیں بائیں دیکھنا شروع کر دیا‘ قسمت نے قہقہہ لگایا اور اس سے کہا ”اب تم اس کے دماغ سے نکل جاﺅ اور مجھے اپنا کام کرنے دو“ عقل باہر آ گئی جس کے بعد قسمت نے لڑکے کے دماغ میں چھلانگ لگا دی‘ اسی دوران جلاد نے تلوار چلائی‘ تلوار کا وار خطا ہوا‘ تلوار شکنجے کے ساتھ ٹکرائی اور ٹوٹ گئی‘ نئی تلوار لائی گئی‘ اس دوران شہزادی وہاں پہنچ گئی‘ وہ بادشاہ کی لاڈلی بیٹی تھی‘ اس نے رو رو کر بادشاہ کو منا لیا‘ بادشاہ نے لڑکے کی شادی شہزادی کے ساتھ کر دی۔ چند برس بعد بادشاہ مر گیا اور وہ کسان لڑکا ملک کا بادشاہ بن گیا“ ۔
میں نے اپنے دوست کو یہ حکایت سنائی اور اس کے بعد عرض کیا ”وہ دن ہے اور آج کا دن ہے جہاں قسمت پہنچ جاتی ہے وہاں سے عقل رخصت ہوجاتی ہے“ میں نے ان سے عرض کیا ”عقل اور قسمت ایک دوسرے کی ضد ہیں‘ یہ دونوں ایک دوسرے کی دشمن ہیں‘ یہ دونوں کبھی ایک جگہ جمع نہیں ہوتیں۔ آپ ایک خوش قسمت شخص ہیں چنانچہ عقل آپ سے رخصت ہو چکی ہے‘ آپ اس کا پیچھا نہ کریں“ میں خاموش ہو گیا‘ وہ بولے ”خوش قسمتی اور عقل میںکیا فرق ہے“ میں نے عرض کیا ”خوش قسمتی دولت‘ اقتدار اور خطرات سے بچ نکلنے کا نام ہے جبکہ عقل علم‘ ذہانت اور ابلاغ ہے چنانچہ آپ دیکھ لیں دنیا کے تمام عقل مند‘ ذہین‘ عالم اور دانشور لوگوں کا تعلق غربت یا مڈل کلاس سے ہوتا ہے جبکہ دنیا کے تمام دولت مند اور بااقتدار لوگ دانش‘ علم‘ ذہانت اورعقل سے فارغ ہوتے ہیں چنانچہ میرا مشورہ ہے آپ علم پر وقت ضائع نہ کریں یہ آپ کے قابونہیں آئے گا“ وہ مسکرائے اور بولے ”قسمت اور عقل میں بہتر کون ہے“ میں نے چند لمحے سوچا اور اس کے بعد عرض کیا ”قسمت“ وہ بولے ”وہ کیسے ؟“ میں نے عرض کیا ”کیونکہ اگر آپ خوش قسمت ہیں تو آپ سینکڑوں‘ ہزاروں عقل مندوں‘ عالموں اور ذہین لوگوں کو ملازم رکھ سکتے ہیں‘ آپ شہنشاہ اکبر کی طرح اپنے گرد نورتن جمع کر سکتے ہیں لیکن آپ اگر عقل مند‘ ذہین اور صاحب علم ہیں تو آپ کسی خوش قسمت شخص کی ملازمت کے سوا کچھ نہیں کر سکتے‘ آپ کی عقل آپ کی ذہانت اور آپ کا علم ہمیشہ کسی خوش قسمت شخص کی دولت میں اضافے کا باعث بنے گا‘ کیوں؟ کیونکہ سیٹھ خوش قسمت ہوتا ہے اور اس کا اکاﺅنٹنٹ عقل مند“۔
قسمت اور عقل
21
جون 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں