وہ بھی ایک وقت تھا جب دنیا میں سب سے زیادہ جعلی پاسپورٹ برطانیہ کے نکلتے تھے‘ انسانی سمگلر برطانیہ کا پاسپورٹ چھپواتے تھے‘ اس پر تصویر لگاتے تھے‘ آلو کاٹ کر سوئی سے برطانوی امیگریشن کی مہر بناتے تھے‘ پاسپورٹ پر ٹھپہ لگاتے تھے اور بندے کو روانہ کر دیتے تھے اور پاسپورٹ ہولڈر برطانیہ کے سوا دنیا کے کسی بھی ملک میں پناہ لے لیتا تھا‘ جعل ساز جعلی پاسپورٹ کے معاملے میں برطانیہ پر اتنے مہربان کیوں تھے؟ وجہ بہت دلچسپ تھی‘ برطانیہ نائین الیون سے پہلے دنیا کے ان چند ملکوں میں شمار ہوتا تھا جو اپنے جعلی پاسپورٹ کو بھی ”اون“ کر لیتے تھے‘ برطانیہ کا جعلی پاسپورٹ تصدیق کےلئے اس کے کسی سفارتخانے میں جاتا تھا تو عملہ اسے اصل قرار دے کر اپنے پاس رکھ لیتا تھا‘ کیوں؟ کیونکہ برطانیہ کا خیال تھا ہم نے جس دن اپنے کسی پاسپورٹ کو جعلی قرار دے دیا اس دن ہمارے کروڑوں پاسپورٹ مشکوک ہو جائیں گے اور یہ برطانیہ کی توہین ہو گی‘ دنیا بھر کے ”ایجنٹوں“ نے برطانیہ کی اس کمزوری کا بھرپور فائدہ اٹھایا‘ یہ روایت آج بھی کم وبیش اسی طرح جاری ہے‘ برطانیہ‘ یورپی یونین کے ممالک‘ امریکا اور کینیڈا اپنے اپنے شناختی کاغذات کو جعلی تسلیم کرنے میں بہت وقت لگاتے ہیں‘ یہ جعلی کاغذات کو شبے میں ضبط کر لیتے ہیں مگر یہ جعلی ہونے کی تصدیق نہیں کرتے جبکہ اس کے مقابلے میں ہمارے وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے 24 مئی کی شام بھری پریس کانفرنس میں تسلیم کرلیا پاکستان کے شناختی کاغذات کا نظام ٹھیک نہیں‘ نادرا کے ملازمین پیسے لے کر غیر ملکیوں کو شناختی کارڈز اور پاسپورٹ بنا کر دیتے ہیں‘ چودھری نثار نے اعتراف کیا نادرا میں کرپٹ‘ بے ایمان اور نااہل لوگ موجود ہیں‘ ہم نے کرپشن کے الزام میں 614 ملازمین نوکری سے فارغ کئے اور 65 کو گرفتار کیا‘ چودھری نثار نے انکشاف کیا2011ءمیں صرف 26 شناختی کارڈاور 2012ءمیں493شناختی کارڈ منسوخ کئے گئے ‘جون 2013ءمیںپہلے چھ ماہ کے دوران 6062 ‘2014ءمیں 22 ہزار‘ 2015ءمیں 96689 اور 2016ءمیں ایک لاکھ 11 ہزار 540شناختی کارڈمنسوخ کئے گئے جبکہ دو سالوں میں 29 ہزار مشکوک پاسپورٹ بھی کینسل ہوئے‘ چودھری نثار کے یہ تمام حقائق سچائی پر مبنی ہیں لیکن ان حقائق کے پریس کانفرنس میں اعتراف نے تمام پاکستانی پاسپورٹ ہولڈرز کے کاغذات کو مشکوک بنا دیا‘ دنیا ہمارے پاسپورٹ کو پہلے بھی عزت نہیں دیتی لیکن وزیر داخلہ کے اعتراف کے بعد ہمارے گرین پاسپورٹ کا جنازہ نکل گیا‘ دنیا اب ہر پاکستانی کے اندر ہیبت اللہ اخونزادہ کو تلاش کرے گی‘ یہ ہمیں طالبان کا ساتھی سمجھ کر ڈیل کرے گی۔
دنیا میں سارے سچ بولنے کےلئے نہیں ہوتے‘ انسان کو بعض سچائیوں پر خاموشی بھی اختیار کرنی چاہیے لیکن ہم لوگ جب بولنے پر آتے ہیں تو ہم حضرت آدمؑ اور حضرت حواءؑ کی اولین اولاد کو بھی ”بے نکاحی“ قرار دے دیتے ہیں‘ ہم ایک لمحے کےلئے بھی اپنے تیزابی فقروں کی تباہ کاری پر غور نہیں کرتے‘ ہم ان کے جوہری نتائج کو مکمل فراموش کربیٹھتے ہیں‘ میں چودھری نثار کی حق گوئی اور بے باکی کی داد دیتا ہوں لیکن انہیں کروڑوں پاکستانیوں کی شناخت مشکوک بنانے سے پہلے اپنی حق گوئی اور بے باکی کا مظاہرہ ملا اختر منصور پر کرنا چاہیے‘ چودھری نثار کو یہ تسلیم کرنا چاہیے تھا امریکی ڈرون افغانستان سے پاکستان میں داخل ہوئے‘ ملا منصور کی گاڑی پر میزائل داغا‘ ان کی ہلاکت کی تصدیق کی اور واپس افغانستان چلے گئے‘ چودھری نثار کو اس عمل کے تصویری ثبوت بھی میڈیا کے سامنے رکھنے چاہیے تھے اور اگر امریکی ڈرون واقعی پاکستان نہیں آئے تو پھر چودھری نثار کو یہ ماننا چاہیے تھا امریکی فوجی افغان آرمی کی یونیفارم میں پاکستان میں داخل ہوئے‘ احمد وال میں ملا منصور کی گاڑی روکی‘ ملا منصور کا پاسپورٹ اور شناختی کارڈ لیا‘ تصدیق کی‘ گاڑی کو مسافروں سمیت بم سے اڑایا اور پاسپورٹ اور شناختی کارڈ جلتی ہوئی گاڑی سے چند گز کے فاصلے پر پھینک کر واپس چلے گئے‘ چودھری صاحب کو ماننا چاہیے تھا‘ یہ آپریشن بھی ایبٹ آباد کی طرح ”گراﺅنڈ آپریشن“ تھا‘ امریکی پاکستانی سرزمین پر 65 کلو میٹر اندر آئے اور اپنا کام مکمل کر کے اطمینان سے واپس چلے گئے‘ یہ آرگومنٹ ثابت کرنے کےلئے دو حقائق کافی تھے‘ دنیا میں جب بھی کوئی گاڑی میزائل کا نشانہ بنتی ہے تو یہ ٹکڑوں میں تقسیم ہو جاتی ہے اور یہ ٹکڑے دور دور جا گرتے ہیں جبکہ ملا منصور کی گاڑی تباہ ہونے کے باوجود ”ون پارٹ“ رہی‘ یہ ٹکڑے ٹکڑے نہیں ہوئی‘ کیوں؟ دوسری حقیقت گاڑی جل کر راکھ ہو گئی‘ آگ نے لاشوں کو ناقابل شناخت بنا دیا لیکن اس نے ملا منصور عرف ولی محمد کے پاسپورٹ اور شناختی کارڈ کو چھونے تک کی جسارت نہیں کی‘ ان پر دھوئیں کا نشان بھی نہیں‘ کیوں؟ کیا یہ کاغذات ڈاکٹر عبدالقدیر کی لیبارٹری میں تیار ہوئے تھے؟ اس کا سیدھا سادا مطلب ہے گاڑی کو میزائل کی بجائے بم سے اڑایا گیا تھا اور بم نصب کرنے سے پہلے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ گاڑی سے نکال لئے گئے تھے‘ یہ کاغذات ملا منصور کی ہلاکت کے بعد وہاں پھینکے گئے لیکن چودھری نثار علی خان نے اس حقیقت کے اعتراف کی بجائے چار پانچ کروڑ پاکستانیوں کے پاسپورٹ مشکوک بنا دیئے‘ کیا حکومت کے پاس اس حماقت کا کوئی جواب ہے؟
یہ درست ہے پاکستان میں آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے‘ آپ خود فیصلہ کیجئے جس ملک میں فوج جیسے ادارے میں لیفٹیننٹ جنرل‘ میجر جنرل‘ بریگیڈیئر اور کرنل لیول کے افسر کرپٹ نکل آئیں اور آرمی چیف ان لوگوں کو نوکری سے برطرف کرنے پر مجبور ہوجائے‘ جس میں سیکرٹری خزانہ کے گھر سے 68 کروڑ روپے نکل آئیں اور مشیر خزانہ نیب کی حراست میں ہو‘ جس میں ڈاکٹر عاصم حسین جیسے اہم ترین وزیر کے خلاف 462 ارب روپے کی کرپشن کے مقدمات بن جائیں‘ جس میں ایک وزیراعظم کے خلاف حج سکینڈل‘ ایفی ڈرین سکینڈل اور ای اوبی آئی سکینڈل آ گیا ہو‘ لوگ دوسرے وزیراعظم کو راجہ رینٹل کہتے ہوں اور تیسرے وزیراعظم کے خلاف ”ٹی او آرز“ بن رہے ہوں‘ جس میں وزیر داخلہ (سابق) پر سرکاری پاسپورٹس اور سفارتی پاسپورٹس بیچنے کے الزامات لگ گئے ہوں‘ جس کے ایک صدر (سابق) کے دروازے پر عدالت نے طلبی کا اشتہار لگوا دیا ہو اور دوسرا صدر (سابق) لندن اور دوبئی سے واپس نہ آتا ہو اور جس میں درجنوں سیاستدانوں کے نام آف شور کمپنیاں نکل آئی ہوںکیا اس ملک کے کسی ادارے اور کسی شخصیت کی ایمانداری کی قسم کھائی جا سکتی ہے؟ ہمیں ماننا ہو گا ہم ایک ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جس میں ملک ریاض نے ہاتھ میں قرآن مجید اٹھا کر چیف جسٹس آف پاکستان اور ان کے صاحبزادے کے خلاف کرپشن کی گواہی دی تھی اور جس میں حارث سٹیل مل کیس میں اٹارنی جنرل آف پاکستان کو رشوت لینے کے جرم میں فارغ کیاگیا تھا‘ اس ملک میں آوے کا آوا تو دور اس میں بگڑنے کےلئے آوا بچتا ہی نہیں چنانچہ ہم اگر اس صورتحال میں یہ توقع کریں‘ ہمارا نادرا صوفیاءکرام کا مسکن ہو گا تو یہ امید غلط ہو گی مگر اس کے باوجود ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا دنیا میں چند ادارے حساس ہوتے ہیں اور حکومتیں ہمیشہ ان کے بارے میں سچ بولتے وقت احتیاط کرتی ہیں مثلاً آپ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو لے لیجئے‘ ہم اگر تلاش کریں تو ہمیں وہاں بھی کوئی نہ کوئی گڑ بڑ مل جائے گی لیکن کیا ہم اس گڑ بڑ کے اعتراف کا رسک پریس کانفرنس میں لے سکیں گے؟ ہرگز نہیں‘ کیوں؟ کیونکہ ہم جانتے ہیں یہ اعتراف ہمارے پورے ملک کو تباہ کر دے گا‘ نادرا بھی ایک ایسا ہی محکمہ ہے‘ یہ 20 کروڑ لوگوں کو شناختی کاغذات دیتا ہے لیکن جب اس کے وفاقی وزیر نے پوری دنیا کے سامنے مان لیا ہمارے نادرا میں بے ایمان اور کرپٹ لوگ موجود ہیں اور ہمارے ملک میں جعلی کاغذات بنتے ہیں تو پھر پیچھے کیا رہ جاتا ہے؟ کیا ہم دنیا کو منہ دکھانے کے قابل رہ گئے ہیں‘ چودھری صاحب کو چاہیے تھا یہ نادرا کے سسٹم پر توجہ دیتے‘ یہ اسے مزید فول پروف بناتے‘ یہ شناختی کارڈز کی تصدیق کا عمل بہتر سے بہتر کرتے جاتے‘ یہ بس کے ٹکٹ سے ہوائی سفر تک ملک میں تمام سرکاری انٹر ایکشن شناختی کارڈ کے ساتھ منسلک کر دیتے‘ ہمارا نظام اتنا مضبوط ہوتا کہ جوں ہی کسی شخص کا شناختی کارڈ سسٹم میں ڈالا جاتا وہ شخص چند لمحوں میں سامنے آ جاتا‘ وہ خود کو چھپا نہ پاتا‘ چودھری صاحب شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے نظام کو اتنا شفاف بنا دیتے کہ کوئی شخص کاغذات مکمل کئے بغیر شناختی کارڈ حاصل کر پاتا اور نہ ہی پاسپورٹ اور جس شخص کے کاغذات پورے ہوتے ملک کی کوئی اتھارٹی اس کا پاسپورٹ اور شناختی کارڈ روک نہ سکتی‘ چودھری صاحب اسی طرح نادرا کے اندر تطہیر کرتے‘ یہ کرپٹ لوگوں کو فارغ بھی کرتے اور انہیں سزا بھی دیتے لیکن یہ پریس کانفرنسوں میں اس کا اعتراف نہ کرتے‘ یہ اس عمل کو خفیہ رکھتے لیکن شاید چودھری صاحب یہ بھول گئے‘ یہ فراموش کر بیٹھے نادرا جیسے ادارے ”انڈر گارمنٹس“ ہوتے ہیں‘ یہ انڈر وئیر کی طرح ہمیشہ خفیہ رکھے جاتے ہیں‘ انہیں پتلون کے اوپر پہن کر ان کی نمائش نہیں کی جاتی‘ ان پر داد وصول نہیں کی جاتی اور چودھری صاحب یہ غلطی فرما چکے ہیں‘ یہ اپنا پاسپورٹ بھی مشکوک ثابت کر چکے ہیں۔
سارے سچ بولنے کےلئے نہیں ہوتے
26
مئی 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں