آج سے پانچ ہزار سال قبل تائی چنگ کی جگہ کوئی نامعلوم شہر آباد تھا‘ وہ پتھر کا زمانہ تھا‘ لوگ غاروں میں رہتے تھے‘ پتھر کو پتھر سے رگڑ کر آگ جلاتے تھے‘ پتھروں کے ذریعے جانوروں کا شکار کرتے تھے‘ آوازوں کو لفظ سمجھتے تھے اور جسم پر جانوروں کی کھالیں اور پتے باندھتے تھے‘ دنیا میں زراعت شروع ہو چکی تھی لیکن زمین سے رزق حاصل کرنے کی ٹیکنیک ابھی اس شہر تک نہیں پہنچی تھی‘ کیوں؟ ماہرین اس سوال کا جواب ابھی تک تلاش نہیں کر سکے‘ وہ شہر آباد تھا‘ لوگ اس میں رہتے تھے لیکن پھر 2800 قبل مسیح میں ایک خوفناک زلزلہ آیا اور پورا شہر زمین میں دھنس گیا‘ مویشی‘ لوگ اور غار تینوں زمین میں دفن ہو گئے‘ وقت گزرتا رہا‘ لوگ آتے رہے‘ اس جگہ دوبارہ آباد ہوتے رہے یہاں تک کہ یہاں تائی چنگ شہر آباد ہو گیا‘ یہ اب تائیوان کا وسطی شہر ہے‘ اس کا رقبہ 2215 مربع کلومیٹر اور آبادی 27 لاکھ ہے‘ یہ شہر صنعتی بھی ہے‘ آج سے دو سال پہلے مئی 2014ءمیں آثار قدیمہ کے ماہرین کو تائی چنگ کے نیچے قدیم شہر کے آثارملے‘ کھدائیاں شروع ہوگئیں‘ ماہرین آہستہ آہستہ پرانا شہر تلاش کرتے رہے‘ حکومت نے منصوبے پر سرمایہ کاری بڑھا دی‘ کھوجیوں کی تعداد بھی دگنی کر دی گئی‘ ماہرین نے دو برسوں میں تائی چنگ کے نیچے 48 غار تلاش کر لئے‘ یہ غار قدیم زمانے کی رہائش گاہیں تھیں‘ یہ رہائش گاہیں اپنے مکینوں سمیت اچانک زمین میں دھنس گئیں‘ ماہرین کو اپریل میں ان غاروں سے پانچ ہزار سال پرانی لاش ملی‘ یہ کسی خاتون کی لاش تھی‘ لاش کو چونے کے پتھر نے ڈھانپ رکھا تھا‘ لاش کے اوپر سے دھول اتاری گئی تو لوگوں کےلئے آنسو ضبط کرنا مشکل ہو گیا ‘ وہ لوگ آنکھوں پر ٹشو پیپر رکھ کر غار سے باہر آگئے‘ لاش کی تصویر کھینچی گئی‘ یہ تصویر سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا تک پہنچی اور اس نے پوری دنیا کو حیران کر دیا‘ دنیا کے جس شخص نے بھی یہ تصویر دیکھی‘ وہ اپنے آنسو ضبط نہ کر سکا‘ اس تصویر میں کیا ہے جس کی وجہ سے آنسو روکنا مشکل ہے؟ یہ تصویر بنیادی طور پر بچے کے ساتھ ماں کی محبت کا قدیم ترین ثبوت ہے‘ یہ ایک ماں اور نوازائیدہ بچے کی تصویر ہے‘ ماں غار کی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھی ہے‘ بچہ اس کی گود میں ہے‘ وہ بڑے پیار سے بچے کی طرف دیکھ رہی ہے‘ بچہ بھی محبت اور حیرت سے اپنی ماں کی طرف دیکھ رہا ہے‘ محبت اور حیرت کے اس وقفے کے دوران زلزلہ آ گیا‘ ماں نے بچے کو بچانے کےلئے اسے اپنے ساتھ لپٹا لیا‘ غار بیٹھ گیا‘ وہ دونوں چونے کے پتھروں میں منجمد ہو گئے‘ قدرت کو محبت کے یہ لمحے اتنے پسند آئے کہ اس نے انہیں ”فریز“ کر دیا‘ ماں اور بچے کی یہ محبت پانچ ہزار سال تک پتھروں میں محفوظ رہی‘ ماہرین نے لاش کا ”کاربن ٹیسٹ“ کیا‘ یہ لاشیں چار ہزار آٹھ سو سال پرانی نکلیں۔
یہ دنیا میں ممتا کا قدیم ترین فوسل ہے‘ اس سے قبل عورت اور مرد کی محبت کا قدیم ترین فوسل اٹلی کے شہر پمپئی سے دریافت ہوا تھا‘ پمپئی نیپلز کے قریب واقع تھا‘ یہ شہر حضرت داﺅد ؑ کے دور میں آباد ہوااور یہ اپنے دور کی جنت کہلاتا تھا‘ یہ شہر پہاڑ کی اترائیوں پر آباد تھا‘ دو اطراف سے سمندر نظر آتا تھا‘ پانی اور سبزے کی فراوانی تھی‘ لوگ خوش حال تھے‘ یہ انگور کی شراب پیتے تھے اور بچھڑوں کا گوشت کھاتے تھے‘ یہ دنیا کا پہلا شہر تھا جس میں دو منزلہ مکان بننا شروع ہوئے‘ جس میں بیکریاں بنیں‘ جس میں کریم کیک ایجاد ہوا اور جس میں عوامی شراب خانے اور ریستوران بھی تھے‘ اس کے ہر گھر کے پیچھے چھوٹا سا لان اور اس لان میں فوارہ ہوتا تھا‘ زیبرا کراسنگ کا تصور بھی اسی شہر میں پیدا ہوا‘ شہر کے درمیان سوئمنگ پول تھا‘ لوگ دن کا بڑا حصہ اس تالاب میں نہاتے ہوئے گزارتے تھے اور یہ دنیا کے ان چند شہروں میں بھی شمار ہوتا تھا جس میں اڑھائی تین ہزار سال قبل مرد کو مرد اور عورت کو عورت سے شادی کی اجازت تھی لیکن پھر حضرت عیسیٰ ؑ کے انتقال (عیسائی عقیدے کے مطابق) کے 67 سال بعد پمپئی کا پہاڑ پھٹا‘ لاوا نکلا‘ راکھ اڑی اور اس راکھ نے پورے شہر کو ڈھانپ لیا‘ سارا شہر راکھ میں دفن ہو گیا‘ وقت راکھ کے اوپر جمتا چلا گیا‘ ٹھہرتا چلا گیا یہاں تک کہ پمپئی راکھ کے پہاڑ میں گم ہو گیا‘ پمپئی مر گیا لیکن اس کا ذکر قدیم کتابوں میں زندہ رہا‘ اٹلی کے ماہرین نے 1748ءمیں پمپئی کی کھدائی شروع کی‘ آثار قدیمہ دریافت ہوئے اور یوں پوری دنیا حیران رہ گئی‘ ان آثاروں میں لاشیں بھی تھیں‘ راکھ میں دفن لاشیں‘ ان لاشوں میں ایک جوان جوڑے کی لاش بھی تھی‘ یہ عورت اور مرد تھے‘ یہ موت سے پہلے ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح لپٹ گئے جیسے یہ ایک دوسرے کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں‘ آسمان سے لاوا اور راکھ برسی اور یہ دونوں اس میں دفن ہو گئے‘ ماہرین دو ہزار سال بعد ان تک پہنچے‘ ان کے جسم سے راکھ اتاری گئی اور دیکھنے والوں کی آنکھیں نم ہو گئیں‘ یہ دونوں لاشیں آج بھی پمپئی کے میوزیم میں رکھی ہیں‘ ہالی ووڈ نے پمپئی کے نام سے ان پر بڑی خوبصورت فلم بنائی‘ مجھے 2006ءمیں پمپئی جانے کا اتفاق ہوا‘ میں نیپلز گیا‘ وہاں سے پمپئی گیا‘ سارا دن پمپئی کے کھنڈرات میں گزارا‘ رات سورنتو میں گزاری اور اگلا دن کیپری کی چٹان پر بنے کیپری شہر کی چھوٹی گلیوں میں گھومتا رہا‘ مجھے پمپئی سے آئے ہوئے دس سال ہو چکے ہیں لیکن دو انسانوں کا وہ حقیقی مجسمہ‘ پمپئی کی گلیاں اور ان گلیوں کے دو منزلہ مکان آج بھی میری یادداشت کی دیواروں سے چپکے ہوئے ہیں‘ میں جب بھی یادداشت کا البم کھولتا ہوں تو یہ سوال ذہن میں پھن پھلا کر بیٹھ جاتا تھا‘ پمپئی میں ہزاروں لوگ تھے‘ وہ سارے لوگ آتش فشاں کی راکھ اور لاوے میں دفن ہو گئے‘ ان سب کا نام و نشان مٹ گیا مگر یہ دو انسان دو ہزار سال تک راکھ میں جوں کے توں رہے یہاں تک کہ انسانی ہاتھ ان تک پہنچ گئے‘ ان کے اوپر سے راکھ کی تہیں اتاری گئیں اور یہ محبت کا قدیم ترین بت بن کر انسانی تہذیب کے سامنے آ گئے‘ ان میں ایسی کیا خوبی تھی‘ ان میں ایسا کیا جادو تھا کہ قدرت دو ہزار سال تک ان کی حفاظت کرتی رہی‘ اس نے انہیں ٹوٹنے اور ایک دوسرے سے الگ نہیں ہونے دیا‘ اس جادو‘ اس خوبی کا نام محبت ہے‘ محبت وہ جذبہ ہے جسے زوال نہیں آتا‘ جو ہمیشہ زندہ رہتا ہے‘ کیوں؟ کیونکہ اس کا سورس اللہ تعالیٰ کی ذات ہے‘ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اپنی ذات کی محبت میں گوندھ کر پیدا کیا تھا چنانچہ دنیا کا جو بھی شخص محبت کے جذبے کے ساتھ جڑ جاتا ہے وہ لافانی ہو جاتا ہے‘ آپ محبت کی کوئی پرانی داستان کھول کر دیکھ لیں‘ آپ کو دنیا میں لیلیٰ مجنوں‘ شیریں فرہاد‘ سسی پنوں‘ ہیر رانجھا اور رومیو جولیٹ کی تہذیب نہیں ملے گی‘ بادشاہ مر گئے‘ تخت اجڑ گئے اور ملک زوال پذیر ہو گئے‘ اگر کوئی چیز زندہ ہے تو وہ محبت کے وہ کردار ہیں اور ان کرداروں سے جڑی ہوئی کہانیاں ہیں‘ میں پچھلے سال رومیو جولیٹ کے شہر ورونا گیا‘ ورونا کا بادشاہ کون تھا‘ اس کا قلعہ کہاں تھا اور اس کے پاس دولت کتنی تھی یہ سب کچھ ختم ہو گیا لیکن رومیو جولیٹ کا نام آج بھی زندہ ہے‘ وہ بالکونی بھی آج تک موجود ہے جس سے رومیو ساری رات لٹکا رہتا تھا‘ یہ محبت جیسے جذبے کا کمال ہے ‘ یہ جذبہ کبھی زوال پذیر نہیں ہوتا اور پمپئی کا یہ فوسل اس عظیم جذبے کا قدیم ترین ثبوت ہے۔
محبت کا دوسرا فوسل تائیوان سے دریافت ہوا‘ یہ محبت کا پمپئی سے بھی قدیم ترین فوسل ہے‘ آپ قدرت کا کمال دیکھئے‘ شہر کے سارے لوگ زلزلے کا لقمہ بن گئے‘ ان سب کی ہڈیاں سرمہ ہو گئیں مگر یہ دونوں ماں بیٹا آج تک موجود ہیں‘ ماں کی ہڈیوں نے 4800 برسوں سے بچے کو ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے‘ اس کے چہرے کی ہڈیوں میں آج تک ممتا زندہ ہے‘ بچے کی حیرت بھی آج تک موجود ہے‘ وہ آج بھی لرزتی کانپتی دیواروں‘ گرتی چھتوں اور غار کے بیٹھتے فرشوں میں اپنی ماں سے آنکھوں کے ذریعے پوچھ رہا ہے ”ماں یہ کیا ہو رہا ہے‘ کیا ہم مر رہے ہیں“ اور ماں اپنی پلکوں کے برش سے وقت کے کینوس پر لکھ رہی ہے ”میرے بچے‘ میرے لعل تم پریشان نہ ہو‘ میں مر بھی گئی تو بھی تمہیں اپنے بازوﺅں سے جدا نہیں ہونے دوں گی“ اور ماں نے صرف یہ کہا نہیں بلکہ ثابت بھی کیا‘ وہ چار ہزار آٹھ سو سال اپنے بچے کو بازو میں چھپا کر بیٹھی رہی یہاں تک کہ دنیا اس تک پہنچ گئی‘ میری خواہش ہے یہ تصویر دنیا کی ہر ماں کے سرہانے ہونی چاہیے اور اسے صبح و شام کم از کم دو بار یہ تصویر ضرور دیکھنی چاہیے‘ کیوں؟ کیونکہ ہو سکتا ہے یہ تصویر دنیا کی ان تمام ماﺅں کو طاقت دے جو کوئٹہ کی اس ماں کی طرح اپنی چار بچیوں کو پانی کی ٹینکی میں ڈبو کر مارنا چاہتی ہوں جس نے دو دن قبل یہ حرکت کرکے دنیا بھر کی ماﺅں کو رلا دیا‘ یہ تصویر ان ظالم ماﺅں کو یہ پیغام دے گی‘ بچوں کو قتل کرنے والی عورتیں صرف عورتیں ہوتی ہیں‘ یہ مائیں نہیں ہوتیں‘ ماں وہ ہستی ہے جو چار ہزار آٹھ سو سال بعد بھی بچے کو اپنے بازوﺅں سے نہیں نکلنے دیتی‘ زلزلے آئیں‘ سیلاب آئیں‘ طوفان آئیں یا پھر وقت لہر بن کر اوپر سے گزرتا رہے مگر یہ ماں کے بازوﺅں سے بچے کو جدا نہیں کر سکتا‘ یہ سارے عذاب ماں کے جذبے‘ ماں کی محبت سے جیت نہیں سکتے‘ یہ تصویر ثابت کرتی ہے ماں کی محبت عورت اور مرد کی محبت سے بھی کئی گنا طاقتور ہے‘یہ پمپئی کے عاشقوں کو بھی 2800 سال پیچھے چھوڑ جاتی ہے۔
ممتاکے 4800 سال
8
مئی 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں