شریف الدین اورنگی ٹاﺅن 10 مومن آباد کے رہائشی ہیں‘ یہ پکوان ہاﺅس کے نام سے کیٹرنگ کا بزنس کرتے ہیں‘ ان کے تین بچے تھے‘ بیٹے کا نام علی‘ پہلی بیٹی کا نام اقصیٰ اور دوسری بیٹی نمرہ تھی‘ بچوں کی عمریں تین سال‘ پانچ سال اور آٹھ سال تھیں‘ شریف الدین 19 اپریل کو کام پر تھے‘ پڑوسن نے چھت سے ان کے صحن میں جھانکا‘ اس کے منہ سے چیخ نکل گئی‘ صحن میں شریف صاحب کے بیٹے کی لاش پڑی تھی‘ پڑوسن نے شور مچا دیا‘ لوگ گھر میں داخل ہوئے‘ دیکھا بیٹے کی لاش صحن جبکہ دونوں بیٹیوں کی لاشیں کمرے میں پڑی ہیں‘ چھوٹی بچی کی لاش بیڈ پر تھی‘ اس کے گلے میں دوپٹا بندھا ہوا تھا اور منہ سے خون نکل رہا تھا‘ پولیس کو اطلاع دی گئی‘ پولیس آئی‘ لاشیں اٹھائیں اور تفتیش شروع کر دی‘ پولیس دس گھنٹے میں ملزم تک پہنچ گئی‘ ملزم شریف صاحب کا ملازم حسنین تھا‘ حسنین کی عمر 18 سال تھی‘ یہ 19 اپریل کو شریف صاحب کے گھر داخل ہوا اور تینوں بچوں کو گلا دبا کر قتل کر دیا‘ تفتیش آگے بڑھی تو پتہ چلا شریف صاحب دکان کی رقم گھر میں رکھتے تھے‘ حسنین اس راز سے واقف تھا‘ وہ اس دن شریف صاحب کے گھر میں داخل ہوا اور الماری سے ان کے چار لاکھ روپے چوری کر لئے‘ بچے گھر میں کھیل رہے تھے‘ انہوں نے اسے چوری کرتے ہوئے دیکھ لیا‘ بڑی بیٹی نے حسنین کو دھمکی دی ”میں ابا کو بتاﺅں گی“ حسنین ڈر گیا اور اس نے تینوں بچوں کو گلا دبا کر قتل کر دیا‘ وہ جب بیٹیوں کو قتل کر رہا تھا تو بیٹا علی صحن میں بھاگ گیا‘ قاتل نے اس کا پیچھا کیا اور اسے صحن میں لٹا کر قتل کر دیا۔
یہ ایک لرزہ خیز واردات تھی‘ ٹیلی ویژن چینلز نے جب اس واردات کی رپورٹنگ کی تو پورا ملک سوگوار ہو گیا‘لوگ ابھی تک شاک میں ہیں‘ پولیس قاتل کو گرفتار کر چکی ہے‘ مقدمہ جلد عدالت میں پیش ہو جائے گا‘ قاتل کو یقینا سزائے موت بھی ہو جائے گی لیکن کیا اس سے انصاف کا عمل مکمل ہو گا؟ آپ میں سے زیادہ تر لوگوں کا جواب ہاں ہو گا‘ آپ بھی یقینا لاکھوں کروڑوں لوگوں کی طرح حسنین کو قاتل سمجھتے ہوں گے اور آپ کا بھی خیال یہ ہوگا ہمارا جسٹس سسٹم جس دن حسنین کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا دے گا اس دن شریف الدین کے تینوں مقتول بچوں کی روحوں کو قرار آ جائے گا‘ اس دن ہمارے انصاف کا نظام سرخرو ہو جائے گا لیکن میں یہ نہیں سمجھتا‘ میرا خیال ہے ہمارے انصاف کا نظام ابھی تک اصل قاتل تک نہیں پہنچا‘ بچوں کا اصل قاتل شاید کبھی نہ پکڑا جائے‘ یہ شاید پوری زندگی کھلا پھرتا رہے‘ کیوں؟ کیونکہ بچوں کا قاتل حسنین نہیں تھا‘ ان کا قاتل ان کا وہ والد تھا جس نے دولت کمانا تو سیکھ لیا لیکن اس دولت کو محفوظ رکھنا اور استعمال کرنا نہیں سیکھا‘ میں نے آج تک کسی شخص کو غربت کے ہاتھوں مرتے نہیں دیکھا لیکن میں لوگوں کو امارت کے ہاتھوں روز مرتے دیکھتا ہوں‘ یہ بچے بھی چار لاکھ روپے کے ہاتھوں مارے گئے اور اس کا ذمہ دار ان کا والد ہے‘ وہ والد جس نے ان معصوم بچوں کی ہلاکت کا سامان گھر پر رکھا ہوا تھا‘ کیٹرنگ کا شعبہ سروسز میں آتا ہے‘ ملک میں اس وقت سروسز پر کم سے کم 8 فیصد ٹیکس ہے‘ چار لاکھ روپے پر 32ہزار روپے ٹیکس بنتا تھا‘ شریف الد ین اگر 32 ہزارروپے ٹیکس دے دیتا تو یہ چار لاکھ روپے وائیٹ ہو جاتے‘ شریف الدین یہ رقم بینک میں رکھ دیتا اور یوں ملازم چوری کرنے پر مجبور نہ ہوتا اور بچے بھی اسے نہ دیکھتے چنانچہ میں سمجھتا ہوں ان معصوم بچوں کے اصل قاتل یہ 32 ہزار روپے اور شریف الدین ہیں‘ شریف الدین نے یہ چند ہزار روپے بچانے کےلئے اپنے تین معصوم بچوں کو بلی چڑھا دیا‘ میں اس شخص کو مجرم سمجھتا ہوں اور جس دن ریاست اس اصل مجرم کو گرفتار کرے گی‘ یہ جس دن اسے سزا دے گی میں اس دن ملک کے نظام عدل کو کامیاب اور مکمل سمجھوں گا۔
ملک میں روزانہ چوری‘ ڈکیتی‘ راہ زنی اور قتل کی سینکڑوں وارداتیں ہوتی ہیں‘ ہم ہمیشہ حکومت‘ پولیس اور مجرموں کو ان وارداتوں کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں لیکن ہم نے کبھی اپنے گریبان میں جھانکا‘ ہم نے کبھی ا پنی چارپائی کے نیچے دیکھا‘ ہم نے کبھی اپنا احتساب کیا؟ یہ درست ہے چوری میں چور ذمہ دار ہوتا ہے‘ پولیس‘ معاشرے اور حکومت کے کندھوں پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے لیکن مدعی ان سب سے زیادہ ذمہ دار ہوتا ہے‘ ہم کبھی اس سے نہیں پوچھتے تمہیں کس نے کہا تھا تم بینک کی بجائے اپنی پوری جمع پونجی جیب میں ڈال کر پھرتے رہو‘ تم لاکرز کی بجائے رقم الماری میں رکھو‘ تم کریڈٹ کارڈ مشین کی بجائے کیش وصول کرو‘ تم چیک کی بجائے نقدی لو اور دو‘ ہم کبھی ان سے نہیں پوچھتے تمہیں کس نے کہا تھا تم یہ غیر ضروری زیورات خریدو اور تمہاری خواتین یہ زیورات پہن کر باہر پھرتی رہیں‘ تم کروڑ روپے کی یہ گاڑی خریدو مگر تم اس کی حفاظت کےلئے بیس ہزار روپے کا ڈرائیور اور گارڈ نہ رکھو اور تمہیں کس نے کہا تھا تم لاکھ روپے کا موبائل خریدو اور اسے جیب کی بجائے ہاتھ میں اٹھا کر پھرتے رہو‘ ہم لوگ جب حکومت کو تھوڑی سی رقم دے کر اپنے سرمائے اور اپنے خاندان کو محفوظ بنا سکتے ہیں تو ہم عقل کا یہ چھوٹا سا پتھر کیوں نہیں اٹھاتے‘ ہم اگر کاروباری ہیں تو ہم اپنے کاروبار سے اپنی تنخواہ نکالیں‘ اس پر ٹیکس دیں‘ رقم اپنے اکاﺅنٹ میں رکھیں‘ اے ٹی ایم کارڈ اور کریڈٹ کارڈ بنوائیں اور ہم اپنے گھر والوں کو بھی کارڈ بنوا دیں ‘ اس سے ہم اور ہمارے اہل خانہ دونوں محفوظ ہو جائیں گے‘ ہم اسی طرح کاروبار کی آمدنی پر بھی ٹیکس دیں‘ یہ ٹیکس ہماری عمر بھر کی کمائی کی حفاظت بھی کرے گا اور ہم گھر میں رقم چھپانے کی مشکل سے بھی بچ جائیں گے اور ہمارے بچے بھی حسنین جیسے ملازموں سے محفوظ رہیں گے‘ ہم اپنی جان خطرے میں کیوں ڈالتے ہیں‘ ہم نے کبھی سوچا۔
ہم چند دوستوں نے دو سال قبل ”پرس فری کلب“ بنایا تھا‘ ہم نے فیصلہ کیا تھا‘ ہم آئندہ جیب میں بٹوا نہیں رکھیں گے‘ ہم صرف اے ٹی ایم کارڈ اور کریڈٹ کارڈ ”کیری“ کریں گے‘ مارکیٹ میں آج کل موبائل فون کے ایسے کور دستیاب ہیں جن کے ساتھ چھوٹی سی پاکٹ ہوتی ہے‘ ہم لوگ ان پاکٹس میں یہ دونوں کارڈز رکھ لیتے ہیں اور ہمیشہ کارڈز کے ذریعے ادائیگی کرتے ہیں‘ ہم نے اپنے بینک کو لکھ کر دے دیا ہے‘ آپ ہر مہینے چپ چاپ ہمارے اکاﺅنٹ سے کریڈٹ کارڈ کا بل منہا کر لیا کریں‘ بینک بل کی رقم نکال لیتے ہیں اور ہم لوگوں کو ان کا ایس ایم ایس آ جاتا ہے‘ ہمیں رقم کی ضرورت پڑتی ہے تو ہم لوگ اے ٹی ایم کارڈ استعمال کر لیتے ہیں‘ ہم تھوڑی بہت ضرورت کےلئے پتلون کی جیب میں ایک دو ہزار روپے رکھ لیتے ہیں‘ ہم لوگ بڑی ادائیگیاں صرف چیکس کے ذریعے کرتے ہیں‘ ہمارے ادارے ٹیکس کاٹ کر تنخواہ براہ راست اکاﺅنٹ میں جمع کرا دیتے ہیں‘ ہم لوگوں نے فیصلہ کیا تھا‘ ہم دو سے زائد اکاﺅنٹ بھی نہیں رکھیں گے‘ ایک کرنٹ اکاﺅنٹ اور دوسرا سیونگ اکاﺅنٹ‘ ہم لوگ سال کے آخر میں ٹیکس ریٹرن بھی جمع کرا دیتے ہیں اور بات ختم۔ ہم ماشاءاللہ سکھی ہیں‘ ہم لوگوں نے اب زیورات‘ جائیداد اور گاڑیوں سے بھی جان چھڑانا شروع کر دی ہے‘ ہمارے گروپ کے پاس زیورات نہیں ہیں‘ ہم لوگ چھوٹی جائیدادیں بیچ رہے ہیں اور ان کو مشترکہ جائیدادوں میں تبدیل کر رہے ہیں‘ ہم لوگ یہ بھی سمجھتے ہیں‘ ہمارے پاس اگر زیادہ گاڑیاں ہوں گی تو ہمارے مسائل بھی زیادہ ہوں گے‘ ہمارے ایکسیڈنٹ بھی زیادہ ہوں گے اور ہمارے اخراجات بھی بڑھیں گے چنانچہ ہم گاڑیاں بھی کم کرتے چلے جا رہے ہیں‘ دنیا میں اسی طرح کیش کولیکشن کی کمپنیاں بھی موجود ہیں‘ یہ کمپنیاں دکانوں سے رقم اکٹھی کر کے بینکوں میں جمع کرا دیتی ہیں‘ میرے چند جاننے والوں نے یہ بندوبست بھی کر رکھا ہے‘ یہ لوگ کسی ایک بینک میں اکاﺅنٹ کھلواتے ہیں‘ مل کر کیش لے جانے والی بکتر بند گاڑی خریدتے ہیں‘ گارڈز اور کیشیئر رکھتے ہیں اور یہ گاڑی ان سب کی رقم لے کر بینک چلی جاتی ہے‘ یہ لوگ دفتر اور گھر میں رقم نہیں رکھتے‘ہم دوست مل کر ایک نئی تحریک بھی شروع کر رہے ہیں‘ اس تحریک کا نام ”صفر وراثت“ ہوگا‘ ہم سمجھتے ہیں‘ وراثت میں زیادہ سرمایہ چھوڑنے والے لوگ ظالم ہوتے ہیں‘ یہ لوگ جوں ہی دنیا سے رخصت ہوتے ہیں ان کے بچے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو جاتے ہیں اور یہ صرف عدالتوں میں ایک دوسرے کا منہ دیکھتے ہیں جبکہ ”صفر وراثت“ کے لوگوں کے بچے پوری زندگی ایک دوسرے سے ملتے رہتے ہیں‘ یہ باپ کے بعد بھی رشتوں میں بندھے رہتے ہیں چنانچہ ہم نے وراثت کے خلاف بھی تحریک چلانے کا فیصلہ کر لیا ہے تا کہ ہمارے بچے ہمارے بعد بھی ایک دوسرے کے بہن بھائی رہیں‘ یہ ایک دوسرے سے ملتے رہیں‘ یہ دولت کی تلوار سے ایک دوسرے کے گلے نہ کاٹیں۔
میں شریف الدین کو مجرم سمجھتا ہوں اس شریف الدین کو جس نے چند ہزار روپے ٹیکس بچانے کےلئے اپنے تینوں بچے قربان کر دیئے۔
باپ مجرم تھا
1
مئی 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں