وہ گاؤں میں وصولی کیلئے آیا تھا‘ اس کی کمپنی کھیتی باڑی کے آلات بناتی تھی‘ کسان یہ آلات خرید کر لے جاتے تھے‘ کمپنی عموماً ادھار نہیں دیتی تھی لیکن بعض اوقات کسانوں کے پاس رقم کم پڑ جاتی تھی چنانچہ مالکان دس بیس فیصد ادھار کرنے پر مجبور ہو جاتے تھے‘ سال کے آخر میں حساب کیا گیا تو پتہ چلا دس دیہات کے کسانوں نے کمپنی کے سالانہ منافع کے برابر پیسے دینے ہیں‘ یہ چھوٹی چھوٹی رقمیں تھیں‘ کسی کسان کے ذمے سو ڈالر تھے اور کسی نے صرف پچاس ڈالر ادا کرنا تھے لیکن کمپنی نے جب یہ سو پچاس ڈالر جمع کئے تو یہ رقم ہزاروں ڈالرز میں تبدیل ہو گئی اور یہ ظاہر ہے چھوٹے قصبے کی چھوٹی کمپنی کیلئے ایک بڑی رقم تھی چنانچہ کمپنی نے وصولی کیلئے ایک منیجر رکھ لیا‘ منیجر کو لوگوں کی فہرست پکڑا کر وصولی کا ٹاسک دے دیا گیا‘ منیجر مختلف دیہات میں جاتا‘ ادھار خور کے دروازے پر دستک دیتا‘ اسے کمپنی کا خط دکھاتا‘ ادھار کی رسید دیتا اور رقم کا مطالبہ کرتا‘ کچھ لوگ اسے رقم دے دیتے اور کچھ اس سے مزید مہلت مانگ لیتے‘ یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ وہ آخری دن آخری گاؤں پہنچ گیا‘ شام ہو چکی تھی‘ اس نے شام کے وقت ادھار خور کو تنگ کرنا مناسب نہ سمجھا اور وہ رات گزارنے کیلئے گاؤں کے واحد ہوٹل میں چلا گیا‘ ہوٹل کے کمرے کا کرایہ سو ڈالر تھا‘ اس نے سو ڈالر ادا کئے اور سونے کیلئے چلا گیا‘ وہ صبح اٹھا‘ ناشتہ کیا اور گاہک کے پاس چلا گیا‘ گاہک نے کمپنی کے سو ڈالر ادا کرنا تھے‘ منیجر نے اسے رسید د کھائی اور رقم کا مطالبہ کر دیا‘ وہ ایک بوڑھا نائی تھا‘ وہ اندر گیا اور سو ڈالر کا نوٹ لا کر اسے دے دیا‘ منیجر نے گاہک کو وصولی کی رسید دی اور بس سٹاپ کی طرف چل پڑا۔
نائی کے سو ڈالر اس کے ہاتھ میں تھے‘ اس نے چلتے چلتے نوٹ کھول کر دیکھنا شروع کر دیا‘ وہ نوٹ اسے جانا پہچانا لگا‘ اسے محسوس ہوا‘ یہ نوٹ اس نے اس سے پہلے بھی کہیں دیکھا ہے‘ اس نے یادداشت پر زور دیا تو اسے یاد آیا‘ یہ وہی نوٹ ہے جو اس نے پچھلی شام ہوٹل کے کاؤنٹر پر ادا کیا تھا‘ یہ اس کا اپنا نوٹ تھا‘ یہ نوٹ ہوٹل سے نکل کر نائی تک گیا اور نائی سے ہوتا ہوا دوبارہ اس کے ہاتھ میں آگیا‘ وہ بس سٹاپ پر پہنچا‘ بس خراب تھی ٗ وہ اب واپس نہیں جا سکتا تھا ٗ منیجر نے اس وقت کو دلچسپ طریقے سے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا‘ وہ اٹھا‘ نائی کے پاس گیا‘ اسے نوٹ دکھایا اور اس سے پوچھا ’’تم نے یہ نوٹ کہاں سے لیا‘‘ نائی نے قہقہہ لگایا‘ بازار کے سرے پر دندان ساز کا کلینک تھا‘ اس نے کلینک کی طرف اشارہ کیا اوربتایا’’وہ ڈینٹسٹ مجھ سے روز ادھار شیو کراتا تھا‘ ادھار سو ڈالر تک پہنچ گیا تو میں نے کل اس کو وارننگ دے دی‘ تم نے اگر آج اپنا ادھار ادا نہ کیا تو میں کل سے تمہاری شیو نہیں بناؤں گا‘ وہ کل شام میرے پاس آیا اور مجھے یہ نوٹ دے گیا‘‘ منیجر نے قہقہہ لگایا اور دندان ساز کے کلینک پر چلا گیا‘ اس نے وہ نوٹ اسے دکھایا اور اس سے پوچھا ’’آپ نے یہ نوٹ کس سے لیا تھا‘‘ ڈینٹسٹ نے قہقہہ لگا کر جواب دیا ’’وہ سامنے مرغی فروش کی دکان ہے‘ میں نے پچھلے ہفتے اس کا دانت نکالا تھا‘ اس کے پاس رقم نہیں تھی‘ اس نے مجھ سے ادھار کر لیا‘ وہ کل دوسرا دانت نکلوانے آ گیا‘ میں نے اس سے کہا‘ تم جب تک اپنا ادھار چکتا نہیں کرو گے‘ میں تمہارا علاج نہیں کروں گا‘ یہ بے چارہ مایوس ہو کر واپس چلا گیا لیکن شام کے وقت یہ نوٹ لے کر آ گیا‘ میں نے اسے کلینک میں بٹھایا اور یہ نوٹ نائی کو دے دیا‘‘ منیجر نے ایک اور قہقہہ لگایا اور مرغی فروش کے پاس چلا گیا اور اس سے بھی نوٹ کے بارے میں پوچھ لیا‘ اس نے ٹیلر ماسٹر کی طرف اشارہ کیا اور بتایا ’’یہ مجھ سے تین ماہ ادھار مرغی لیتارہا ‘ میں نے کل اسے وارننگ دے دی‘ یہ شام کو یہ نوٹ لے کر آ گیا اور میں نے دندان ساز کا حساب چکتا کر دیا‘‘ منیجر ٹیلر ماسٹر کے پاس گیا‘ ٹیلر ماسٹر نے اسے گاؤں کی واحد بوتیک پر بھجوا دیا‘ پتہ چلا بوتیک کی مالکن ٹیلر ماسٹر سے ادھار کپڑے سلواتی تھی‘ ٹیلر ماسٹر نے اسے الٹی میٹم دے دیا اور وہ سو ڈالر کا یہ نوٹ لے کر اس کی دکان پر پہنچ گئی‘ بوتیک کی مالکن نے بتایا‘ گاؤں کے واحد سبزی فروش نے اس سے بیٹی کی شادی کیلئے ادھار لباس خریدا تھا اور یہ ادائیگی باقی تھی‘ منیجر سبزی فروش کے پاس چلا گیا‘ سبزی فروش نے اسے کریانہ مرچنٹ کے پاس بھجوا دیا‘ کریانہ مرچنٹ نے اسے ٹرک ڈرائیور کے پاس بھجوا دیا‘ ٹرک ڈرائیور اسے ڈاک کے بابو کے پاس لے گیا‘ بابو نے اسے جانوروں کے بیوپاری کے پاس بھجوا دیا اور جانوروں کے بیوپاری نے اسے دھوبی کا راستہ دکھا دیا اور دھوبی نے انکشاف کیا ’’میں ہوٹل کی چادریں‘ تولئے اور تکیوں کے خلاف دھوتا ہوں‘ ہوٹل کے مالک نے میرے سو ڈالر دینے تھے‘ میں نے اسے کل صبح بتا دیا تھا‘ مجھے اگر شام تک پیسے نہ ملے تو میں کل سے ہوٹل کی چادریں نہیں دھوؤں گا‘ ہوٹل کا مالک کل شام میرے پاس آیا اور مجھے یہ سو ڈالر دے گیا‘ میں نے جانوروں کے بیوپاری سے دو مہینے پہلے گدھا خریدا تھا‘ میں نے اس کی ادائیگی کر دی‘‘ منیجر نے قہقہہ لگایا‘ دوبارہ ہوٹل آیا‘ سو ڈالر کا نوٹ کاؤنٹر پر رکھا اور مسکرا کر کہا ’’میں یہاں ایک رات مزید رہنا چاہتا ہوں‘‘ ہوٹل کے مالک نے اسے کمرہ کھول کر دیا اور نوٹ جیب میں ڈال کر بس سٹاپ کی طرف دوڑ پڑا‘ اس نے بس ڈرائیور کے سو ڈالر دینے تھے‘ ڈرائیور بیمار تھا‘ اس نے ڈاکٹر کو ادائیگی کرنی تھی‘ ڈاکٹر نے کیمسٹ کو رقم دینی تھی اور کیمسٹ موٹر مکینک کا مقروض تھا‘ موٹر مکینک نے جرمانہ ادا کر کے پولیس لاکپ سے باہر آنا تھا‘ اس نے باہر نکل کر علاقے کی واحد بس ٹھیک کرنی تھی اور منیجر نے اگلے دن اس بس پر بیٹھ کر واپس جانا تھا اور شہر جانے سے پہلے اس نے پولیس سٹیشن سے گھاس کاٹنے والی مشین کے سو ڈالر وصول کرنے تھے‘ پولیس سارجنٹ نے ایک سال قبل کمپنی سے گھاس کاٹنے کی مشین ادھار خریدی تھی۔
یہ امریکا کے ایک گاؤں کی دو دن کی معیشت ہے‘ آپ غور کیجئے‘ سو ڈالر کے نوٹ نے ایک ہی شام میں کتنا فاصلہ طے کیا ٗ یہ کس کس ہاتھ سے ہو کر کہاں کہاں پہنچا‘ کس طرح وصول کرنے والے اسے ادا اور ادا کرنے والے اسے وصول کرتے گئے اور یہ نوٹ آخر میں کس طرح وہیں پہنچ گیا جہاں سے یہ چلا تھا‘ یہ سو ڈالر کے نوٹ کا صرف ایک حصہ تھا‘ آپ اگر نوٹ کی پوری کہانی کو ٹریک کریں‘ آپ اس کا پہلے ہاتھ سے لے کر آخری ہاتھ تک کا سفر دیکھیں تو آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے کہ یہ ایک نوٹ پورے معاشرے کے اندر سے گزرتا ہے ٗ ہر وصول کرنے والا شخص اسے اپنا سمجھتا ہے لیکن یہ کسی کا نہیں ہوتا ٗیہ کس کے پاس نہیں رکتا ٗآپ اب ایک اور پہلو بھی ملاحظہ کیجئے ٗ جیب تراش نے کسی کی جیب سے یہ نوٹ نکال لیا ٗ یہ نوٹ اس نے شراب خانے میں خرچ کر دیا ‘ نوٹ آگے چلا گیا لیکن جیب تراش کے نامہ اعمال میں ایک جرم کا اضافہ ہو گیا‘ جرم کا یہ دھبہ ہمیشہ قائم رہے گا‘ شراب خانے کی انتظامیہ نے نوٹ شراب بنانے والی کمپنی کے حوالے کر دیا‘ نوٹ آگے چلا گیا لیکن جاتے جاتے شراب خانے سے وابستہ لوگوں کے گناہوں میں اضافہ کر گیا‘ شراب ساز کمپنی نے وہ نوٹ مٹیریل فراہم کرنے والے اداروں کے حوالے کر دیا‘ نوٹ آگے کھسک گیا مگر کمپنی کی اخلاقیات کی چادر پر بداخلاقی اور معاشرتی گراوٹ کا نشان چھوڑ گیا‘ مٹیریل بنانے والی کمپنی نے ملازمین کو تنخواہ دی تو وہ نوٹ ایک جواری ملازم کے پاس چلا گیا‘ جواری نے وہ نوٹ جوئے پر لگا دیا‘ وہ بازی ہار گیا اور نوٹ جیتنے والے کی جیب میں چلا گیا لیکن جاتے جاتے جواری کے گناہوں‘ افسوس اور ملامت میں اضافہ کر گیا‘ جیتنے والے نے وہ نوٹ طوائف کو دے دیا‘ نوٹ مزید آگے نکل گیا لیکن نکلتے نکلتے دو انسانوں کی بیلنس شیٹ میں ایک اور گناہ کبیرہ لکھ گیا‘ طوائف نے وہ نوٹ کریانہ مرچنٹ کو دے دیا‘ نوٹ آگے چلا گیا لیکن جسم فروشی کا جرم اور گناہ طوائف کے نامہ اعمال میں باقی رہ گیا‘ کریانہ مرچنٹ نے وہ نوٹ رشوت میں ایکسائز آفیسر کے حوالے کر دیا‘ نوٹ دو ہاتھ آگے منتقل ہو گیا مگر رشوت کا دھبہ پیچھے رہ گیا‘ ایکسائز آفیسر نے وہ نوٹ بچے کی فیس میں ادا کر دیا‘ نوٹ آگے چلا گیا لیکن خاندان پر حرام خوری کا اثر چھوڑ گیا‘ سکول نے وہ نوٹ چیریٹی میں ہسپتال کو دے دیا‘ نوٹ آگے نکل گیا لیکن سکول کی نیک نامی میں اضافہ کر گیا‘ ہسپتال نے وہ نوٹ ادویات فراہم کرنے والی کمپنی کو دے دیا‘ نوٹ مزید آگے نکل گیا مگر یہ جاتے جاتے چند مریضوں کو زندگی دے گیا‘ ادویات ساز کمپنی نے وہ نوٹ مٹیریل بنانے والے اداروں کو دے دیا‘ مٹیریل بنانے والوں نے یہ نوٹ ریسرچ لیب کو دے دیا‘ ریسرچ لیب نے وہ نوٹ یونیورسٹی کو دے دیا‘ یونیورسٹی نے وہ نوٹ چرچ کو دے دیا اور چرچ نے وہ نوٹ شام کے مسلمان مہاجرین کو بھجوا دیا اور مسلمان مہاجرین نے وہ نوٹ کیمپ کی عارضی مسجد پر لگا دیا اور مسجد بنانے والا ٹھیکے دار وہ نوٹ جوئے میں ہار گیا‘ آپ ملاحظہ کریں‘ نوٹ کسی کے پاس نہیں رک رہا‘ یہ مسلسل سفر کر رہا ہے‘ یہ ایک ہاتھ میں آتا ہے اور دوسرے ہاتھ سے نکل جاتا ہے لیکن جاتے جاتے قرضہ‘ جرم‘ گناہ‘ ثواب‘ خوشی اور تسکین چھوڑ جاتا ہے‘ یہ کیا ہے؟ یہ دنیا کے تمام نوٹوں ٗساری دولت کی اصل حقیقت ہے اور یہ حقیقت بتاتی ہے‘ دنیا کے ہر نوٹ پر سات چیزیں چپکی ہوتی ہیں‘ حلال‘ حرام‘ گناہ‘ جرم‘ ثواب‘ دکھ اور خوشی۔ ہم جب بھی یہ نوٹ وصول کرتے ہیں‘ ان سات چیزوں میں سے کوئی ایک چیز ہمارے ہاتھ کے ساتھ چپک جاتی ہے‘ یہ نوٹ چند لمحوں میں مہمان کی طرح رخصت ہو جاتا ہے لیکن نوٹ کا ’’تحفہ‘‘ ہمیشہ کیلئے ہمارے نامہ اعمال کا حصہ بن جاتا ہے‘ یہ حقیقت ہمیں بتاتی ہے ٗہم ان نوٹوں کے صرف ’’کیئرر‘‘ ہیں‘ ہم صرف کیشیئر ہیں‘ ایک ہاتھ سے وصول کرتے ہیں اور دوسرے ہاتھ سے ادا کر دیتے ہیں‘ ہم کم وصول کرتے ہیں تو ہم کم ادا کرتے ہیں‘ ہمیں زیادہ ملتا ہے تو ہم زیادہ دے دیتے ہیں‘ ہمارے سامنے نوٹوں کی چھوٹی گزر گاہ ہے تو ہم غریب ہیں اور اگر گزر گاہ بڑی ہے تو ہم امیر ہیں‘ ہماری وصولی چھوٹی ہے تو ہم چھوٹے کیشیئرہیں اور اگر وصولی کا سائز بڑا ہے تو ہم بڑے کیشیئر ہیں ٗ یہ حقیقت ہمیں بتاتی ہے ٗ دنیا کا ہر وہ نوٹ جو ہم تک پہنچتا ہے وہ ہماری جیب سے نکلتا ضرور ہے ٗ ہم نے لین دین کے اس کھیل میں بس اتنا خیال رکھنا ہوتا ہے ہم جو نوٹ وصول کررہے ہیں ٗ اس کے ساتھ نیکی کی خوشبو ہو اور جو نوٹ ہمارے ہاتھ سے نکل رہا ہے وہ جاتے ہوئے وہ ہماری انگلیوں پر نشان چھوڑ ے اور یہ ہے دنیا کی کل معیشت ٗنوٹ کی گردش اور انگلیوں کے دھبے۔
گردش اور دھبے
26
مارچ 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں