گوردون میں برفباری شروع ہو گئی‘ یہ ان سردیوں کی آخری برفباری تھی‘ پہلے ہلکی ہلکی بارش شروع ہوئی‘ پھر یہ بارش برف کی چھوٹی چھوٹی کرچیوں میں تبدیل ہوئی اور آخر میں آسمان سے سفید روئی زمین پر اترنے لگی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے گوردون سفید بھیڑ بن گیا‘ میری ریڑھ کی ہڈی تک جم گئی‘ ہم گاڑی میں بیٹھے اور سینٹ ہال کی طرف چل پڑے‘ یہ وینز کے ساتھ ایک چھوٹا سا گاؤں ہے‘ یہ آرٹسٹوں کا گاؤں کہلاتا ہے‘ کیوں؟ کیونکہ اس گاؤں کا ہر شخص آرٹسٹ اور ہر گھر سٹوڈیو ہے‘ آپ کو گاؤں کی اینٹ اینٹ اور پتھر پتھر میں مصورانہ ٹچ ملتا ہے‘ ہم سینٹ ہال کی طرف نکل کھڑے ہوئے‘ راستے میں برفباری شدت پکڑتی چلی گئی یہاں تک کہ ہمارے چاروں اطراف سفید برف کے سوا کچھ نہیں تھا‘ آسمان سے لے کر زمین تک اور فضا سے لے کر پہاڑوں تک سفیدی ہی سفیدی تھی اور درمیان میں! جی ہاں درمیان میں برف کے اڑتے ہوئے سفید گالے تھے اور سفید دودھیا سڑک پر ہماری گاڑی تھی اور گاڑی کے اندر دو خوفزدہ لوگ بیٹھے تھے‘ ہم دونوں خوفزدہ تھے۔
گوردون کیا ہے اور سینٹ ہال کہاں ہے؟ ہمیں یہ جاننے کیلئے پہلے گراس جانا ہوگا‘ گراس جنوبی فرانس کا قدیم قصبہ ہے‘ یہ قصبہ نیس‘ کینز اور مونٹی کارلو کے ہمسائے میں واقع ہے‘ الپس یہاں سے شروع ہوتے ہیں‘ آپ چند میل کا فاصلہ طے کر کے الپس کے پہاڑوں میں داخل ہو جاتے ہیں‘ یہ قصبہ دنیا میں خوشبو کا دارالحکومت کہلاتا ہے‘ کیپیٹل آف پرفیومز۔ یہ علاقہ خوشبو کا دارالحکومت کیسے بنا؟ یہ بھی ایک کہانی ہے‘ پندرہویں صدی میں سپین میں مسلمانوں کی حکومت تھی‘ یہ لوگ سماجی لحاظ سے انقلابی تھے‘ انہوں نے یورپ میں ٹائی بھی متعارف کرائی‘ سوپ بھی‘ کرسٹل بھی‘ پیرا شوٹ بھی اور علاج کے جدید طریقے بھی‘ مسلمان تاجر اور سیاح عموماً مونٹی کارلو‘ نیس اور کینز سے گزرتے تھے‘ کیوں گزرتے تھے؟ کیونکہ یہاں سمندر ہے‘ یہ لوگ کشتیوں کے ذریعے اس علاقے میں پہنچ جاتے تھے اور دوسری وجہ اس علاقے کا موسم تھا‘ یہ علاقہ نسبتاً گرم ہے‘ یہاں گرمیوں میں شدید گرمی پڑتی ہے اور عرب گرم علاقوں کو پسند کرتے تھے‘ پندرہویں اور سولہویں صدی کے درمیان عرب گراس میں یاسمین کے بیج لے آئے‘ یہ بیج انہوں نے علاقے کے لوگوں میں تقسیم کر دیئے‘ لوگوں نے یہ بیج زمین میں بو دیئے‘ یہ زمین گویا صدیوں سے یاسمین کے بیجوں کا انتظار کر رہی تھی چنانچہ زمین پر بیج گرنے کی دیر تھی اور پورا علاقہ یاسمین کی خوشبو سے مہک اٹھا‘ لوگ حیران رہ گئے‘ لیونڈر اس علاقے میں صدیوں سے اگ رہا تھا‘ یاسمین کی خوشبو لیونڈر کی مہک میں ملی تو گراس خوشبوؤں کی سرزمین بن گیا‘ سیاح جوں ہی گراس کے قریب پہنچتے تھے‘ یہ مست ہو جاتے تھے‘ زمین کی اس تاثیر نے عربوں اور مقامی لوگوں کو کاروبار کا نیا راستہ دکھایا‘ یہ لوگ پھولوں کی مختلف اقسام اگانے لگے‘ یہ جو بھی قلم لگاتے تھے یا جو بھی بیج بوتے تھے وہ دو ماہ میں جوان ہو کر خوشبو دینے لگتا تھا‘ لوگوں کو کاروبار مل گیا‘ یہ پھولوں اور خوشبوؤں کے بیوپاری بن گئے‘ یہ پھول اگاتے‘ پھول چنتے‘ انہیں سوکھاتے اور بوریوں میں بھر کر بیچ دیتے‘ گراس سے پھولوں کے جہاز کے جہاز جانے لگے‘ اس دوران مقامی لوگوں کو معلوم ہوا‘ پھول لے جانے والے تاجر بعد ازاں پھولوں کا ست نکالتے ہیں اور اس ست سے صابن‘ شیمپو اور عطر بناتے ہیں‘ ان لوگوں نے سوچا یہ تمام کام ہم خود کیوں نہیں کرتے؟ یہ لوگ مصر‘ الجزائز‘ مراکش اور قرطبہ گئے‘ پھولوں کا ست نکالنے کا فن سیکھا اور گراس واپس آ کر اس شہر کو خوشبوؤں کا مسکن بنا دیا‘ یہ لوگ پھولوں کا ست نکالنے لگے‘ پھولوں کا ست عمل کشید کے ذریعے نکالا جاتا ہے‘ یہ عمل بھی مسلمانوں کی ایجاد ہے‘ گراس میں کاپر کے بڑے بڑے حمام بنائے گئے‘ ان کے ساتھ شیشے کی بڑی بڑی ٹیوبز لگائی گئیں اور ان ٹیوبز کو ٹھنڈے پانیوں کے حوضوں سے جوڑا گیا اور گراس پرفیومز کا دارالحکومت بن گیا‘ یہ فن آہستہ آہستہ پورے علاقے میں پھیل گیا‘ گراس کے تمام دیہات اور ان دیہات کے تمام لوگ خوشبوؤں کے فنون سے وابستہ ہو تے چلے گئے‘ یہ پھول اگاتے‘ ان کا عطر بناتے اور بیچ دیتے‘ یہ خوشبودار صابن‘ شیمپو‘ اگربتیاں اور مہکتی ہوئی موم بتیاں بھی بنانے لگے‘ یوں یہ علاقہ خوشبو کا مرکز بنتا چلا گیا‘ شہر میں لیبارٹریاں بنیں‘ لیبارٹریوں میں خوشبوؤں کے ماہر آئے‘ ماہرین نے مختلف خوشبوئیں ملا کر نئی نئی خوشبوئیں ایجاد کیں اور یوں خوشبوؤں کے برانڈ بنتے چلے گئے‘ شیشہ سازوں نے گراس کا رخ کیا اور یہ خوشبوؤں کی خوبصورت بوتلیں بنانے لگے‘ یہ بوتلیں پیکنگ کی انڈسٹری کو گراس لے آئیں اور یوں یہ بزنس پھیلتا چلا گیا‘ اس دوران علاقے میں چمڑہ رنگنے کی انڈسٹری لگی‘ ٹینریز لگیں اور یہ چمڑہ اٹلی کے شہروں ٹیورن‘ پیسا اور فلورینس میں بکنے لگا‘ اس چمڑے کے دستانے‘ جوتے اور پرس بنتے تھے‘ یہ تینوں چیزیں دیکھنے میں خوبصورت لگتی تھیں لیکن ان میں چمڑے کی بو آتی تھی‘ چمڑے کی صنعت نے گراس کی خوشبو کی انڈسٹری کو بہت متاثر کیا لیکن پھر گراس کے چند فنکاروں نے ایک ایسی خوشبو بنا لی جو چمڑے کی بدبو کو خوشبو میں بدل دیتی تھی اور خواتین جب دستانے اتارتی تھیں تو ان کے ہاتھوں سے بدبو کی بجائے خوشبو آتی تھی‘ اس ایجاد نے گراس کی خوشبو انڈسٹری کو ’’بوسٹ‘‘ دیا اور یہ دیکھتے ہی دیکھتے علاقے کی سب سے بڑی انڈسٹری بن گئی۔
1747ء میں گراس میں پرفیوم کی پہلی فیکٹری لگی‘ اس کا نام گالی مارڈ (Galli Mard) تھا‘ یہ آج بھی قائم ہے اور یہ دنیا کی پہلی پرفیوم فیکٹری ہے‘ 1849ء میں دوسری فیکٹری لگی‘ اس کا نام مولی نارڈ (Moli Nard) تھا اور 1926ء میں فراگونارڈ (Fragonard) کے نام سے تیسری فیکٹری لگی‘ گراس میں اس وقت 60 فیکٹریاں ہیں‘ ان فیکٹریوں میں ساڑھے تین ہزار لوگ کام کرتے ہیں جبکہ دس ہزار لوگ خوشبو کی صنعت سے وابستہ ہیں‘ حکومت نے 1989ء میں گراس میں خوشبو کا عجائب گھر بنایا‘ اس میوزیم میں خوشبو کی صنعت سے وابستہ پانچ ہزار اشیاء پڑی ہیں‘ گراس میں پرفیوم کالج بھی ہے‘ اس کالج میں ہر سال صرف 16 طالب علموں کو داخلہ ملتا ہے‘ پوری دنیا سے لوگ اپلائی کرتے ہیں‘ ان میں سے صرف 16 لڑکوں اور لڑکیوں کو داخلہ ملتا ہے‘ آپ ان 16 لوگوں کے معیار کا خود اندازہ لگا لیجئے‘ یہ شہر خوشبو کے خام مال کا مرکز ہے‘ یہ لوگ پھولوں کا ست اور رس بیچتے ہیں‘ یہ کتنی بڑی اور قیمتی انڈسٹری ہے‘ آپ اس کا اندازہ صرف ایک چیز سے لگا لیجئے‘ گراس سے گلاب کے پھولوں کا ست ملتا ہے‘ آپ اگر یہ ست خریدنا چاہیں تو آپ کو ایک لیٹر کے 42 لاکھ روپے ادا کرنا پڑتے ہیں‘ یہ غیر معمولی رقم ہے لیکن آپ یہ اندازہ بھی لگائیے‘ اس ایک لیٹر ست سے گلاب کے کتنے پرفیوم بنتے ہوں گے؟ اس سے گلاب کی پرفیوم کی دو لاکھ بوتلیں بنتی ہیں اور آپ اگر ایک بوتل ہزار روپے میں فروخت کریں تو آپ منافع کا اندازہ خود لگا لیجئے۔
خوشبو ایک حساس اور نازک سائنس ہے‘ آپ کو کبھی کسی پرفیوم لیبارٹری میں جانے کا اتفاق ہو تو آپ وہاں موجود لوگوں کو دیکھ کر حیران رہ جائیں گے‘ یہ لوگ دن کا زیادہ تر وقت خوشبو میں گزارتے ہیں‘ یہ سگریٹ اور شراب نہیں پیتے‘ ان کی یادداشت غیر معمولی ہوتی ہے‘ یہ ایک خوشبو سونگھتے ہیں‘ پھر اسے ذہن کے ایک خانے میں محفوظ کرتے ہیں‘ پھر دوسری خوشبو سونگھتے ہیں‘ اسے دوسرے خانے میں محفوظ کرتے ہیں اور پھر ذہن میں موجود دونوں خوشبوؤں کو ملا کر نئی خوشبو بناتے ہیں‘ ان لوگوں کو یہ نئی خوشبو باقاعدہ محسوس ہوتی ہے‘ یہ اس کے بعد ریشم کے رومال پر دونوں خوشبوئیں ملاتے ہیں‘ رومال کو ہوا میں لہراتے ہیں اور اپنی ایجاد کردہ نئی خوشبو کو محسوس کرتے ہیں‘ یہ اس وقت تک دونوں خوشبوؤں کو مختلف مقدار میں ملاتے رہتے ہیں جب تک انہیں ہوا میں وہ خوشبو محسوس نہیں ہوتی جو ماہرین کے ذہن میں ہوتی ہے‘ ہوا اور خوشبو دونوں کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق ہے‘ ہوا خوشبو کو جتنا گدگداتی ہے اس میں اتنی ہی مستی پیدا ہوتی جاتی ہے‘ اچھی خوشبو کی یہ نشانی ہے‘ یہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آپ کے جسم کا حصہ بنتی جاتی ہے‘ آپ ہوا کے رخ کھڑے ہوں تو یہ آپ کا سائن بورڈ بن جائے گی‘ یہ صرف دوسروں کو محسوس ہو گی اور آپ اگر ہوا کے مخالف کھڑے ہو جائیں تو یہ آپ کو محسوس ہوگی‘ خوشبو آپ کو اداسی میں خوشی بھی دیتی ہے اور یہ خوشی میں آپ کی مسرت میں اضافہ بھی کر دیتی ہے‘ صبح کی خوشبو مختلف ہوتی ہے‘ دوپہر کی مختلف اور شام اور رات کی مختلف‘ گرمیوں کی خوشبوئیں الگ ہوتی ہیں اور سردیوں کی مختلف‘ بہار اور خزاں کی خوشبوئیں بھی مختلف ہیں‘ خوشبوؤں کا عمر کے ساتھ بھی گہرا تعلق ہوتا ہے‘ بچوں کیلئے خصوصی خوشبوئیں بنتی ہیں‘ جوانوں کیلئے الگ اور بوڑھوں کیلئے مختلف‘ شادی شدہ مردوں کیلئے الگ خوشبوئیں ہوتی ہیں اور غیر شادی شدہ ٹھرکی لوگوں کیلئے الگ‘ پارٹی کی خوشبوئیں الگ ہوتی ہیں اور جنازوں کیلئے الگ‘ قبرستانوں کی بھی ایک خوشبو ہوتی ہے اور درگاہوں اور عبادت گاہوں میں بھی ایک خوشبو پائی جاتی ہے اور اداسی اور خوشی کی بھی ایک خوشبو ہوتی ہے اور رات کے پچھلے پہر میں جب ہوا اچانک اپنا رخ بدلتی ہے تو اس وقت کی بھی ایک خوشبو ہوتی ہے اور تازہ کٹی ہوئی گھاس اور نئی پھوٹی ہوئی کونپلوں کی بھی ایک خوشبو ہوتی ہے اور انسانی جسم‘ جی ہاں ہر انسان کے جسم سے بھی ایک خاص خوشبو نکلتی ہے‘ یہ خوشبو اس کا مضبوط ترین شناختی نشان ہوتی ہے‘ یہ خوشبو اس کے مرنے کے بعد تک قائم رہتی ہے‘ یہ اس کے ڈی این اے کا حصہ بن جاتی ہے‘ خوشبو انسانی ایجادات میں سے حساس ترین اور شاندار ترین ایجاد ہے اور اس ایجاد کا ستر فیصد کام گراس میں ہوا‘ یہ وہ شہر ہے جس نے خوشبو جیسے آرٹ کو سائنس کا درجہ دیا‘ جس نے خوشبو کو انسانی وجود کا حصہ بنایا اور میں دوپہر کے وقت خوشبو کے اس مندر میں تھا اور پورا شہر میرے سامنے کھلا پڑا تھا‘ اپنی قدیم‘ تنگ اور مہکتی گلیوں کے ساتھ۔
خوشبوؤں کا دارالحکومت
19
مارچ 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں