آپ پینسلین کی مثال لیجئے‘ یہ دوا صرف دوا نہیں تھی‘یہ معجزہ تھا اور کوئی شخص اس معجزے کا سہرہ الیگزینڈر فلیمنگ کے سر سے نہیں اتار سکتا‘ سکاٹ لینڈ کے اس عظیم سائنس دان نے 1928ءمیں پھپھوندی سے پینسلین بنائی‘ یہ دنیا کی پہلی باقاعدہ اینٹی بائیو ٹک تھی‘ یہ چند دنوں میں خوفناک سے خوفناک ترین انفیکشن ختم کر دیتی تھی‘ یہ پیپ زدہ انسانیت کے زخموں پر طبی سائنس کا پہلا بڑا مرہم تھا‘ آج جب دنیا کے کروڑوں اربوں لوگ دو گولیاں یا ایک کیپسول کھا کر آرام سے سو جاتے ہیں یا ان کے رستے زخم ایک ہفتے کے علاج سے مندمل ہو جاتے ہیں تو اس کا سارا ثواب الیگزینڈر فلیمنگ کو چلا جاتا ہے‘ وہ حقیقتاً انسانیت کا محسن تھا‘ فلیمنگ کی پینسلین 1928ءمیں ایجاد ہوئی‘ 1942ءمیں مارکیٹ ہوئی اور یہ دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا میں پھیل گئی‘ دنیا کا شاید ہی کوئی ملک ہو گا جہاں پینسلین نہیں بنائی جاتی تھی‘ شاید ہی کوئی ڈاکٹر ہوگا جس نے اپنے مریضوں کو یہ دوا استعمال نہیں کرائی اور شاید ہی کوئی انسان ہو گا جس نے زندگی میں پینسلین فیملی کی کوئی دوا نہ کھائی ہو‘ یہ دوا انسان کی کتنی بڑی محسن ہے‘ آپ اس کا اندازہ صرف ایک حقیقت سے لگا لیجئے‘ آپ پینسلین کی ایجاد سے پہلے انسانوں کی اوسط عمر دیکھ لیجئے اور آپ ڈاکٹر فلیمنگ کی اس ایجاد کے بعد اوسط عمر نکال لیجئے‘ آپ کو دونوں میں زمین آسمان کا فرق ملے گا اور یہ فرق اس انسانی معجزے کا کمال ہے‘ پینسلین پاکستان میں بھی بنتی تھی‘ ملک کی 51 کمپنیاں مختلف ناموں سے پینسلین بناتی تھیں‘ دوا بن رہی تھی اور ملک کے لاکھوں کروڑوں مریضوں کو فائدہ پہنچ رہا تھا لیکن پھر اچانک کمپنیوں نے یہ دوا بنانی بند کر دی‘ کیوں؟ اس کیوں کا جواب وزارت صحت ہے‘ یہ 51 کمپنیاں وزارت صحت کے برآمدوں میں دھکے کھاتی رہیں‘ یہ بابوﺅں کو چیخ چیخ کر بتاتی رہیں‘ دنیا میں پینسلین سے متعلق تمام اشیاءمہنگی ہو چکی ہیں‘ ہم اب پرانی قیمت پر یہ دوا نہیں بنا سکتے‘ آپ مہربانی کر کے دوا کی قیمت میں چند فیصد اضافہ کر دیں لیکن وزارت کے کانوں پر جوں نہ رینگی‘ اس کا نتیجہ یہ نکلا کمپنیوں نے آہستہ آہستہ پینسلین بنانی بند کر دی‘ حکومت نے مریضوں کی مشکلات کا احساس کرتے ہوئے دادو خیل میں پینسلین کی سرکاری فیکٹری لگا دی‘ یہ فیکٹری خام مال مہنگا اور دوا کی قیمت کم ہونے کی وجہ سے زیادہ دیر نہ چل سکی‘ یہ بھی بند ہو گئی لہٰذا آج ملک میں پینسلین نہیں بن رہی اور وزارت صحت کی اس حماقت کا نتیجہ مریض بھگت رہے ہیں‘ یہ آج پینسلین سے کئی گنا مہنگی دوسری اور تیسری جنریشن کی ادویات خرید رہے ہیں‘ ان کی جیب کا بوجھ بڑھتا چلا جا رہا ہے‘حکومت اگر اس وقت پینسلین کی قیمت کنٹرول کرنے کی بے وقوفی نہ کرتی‘ یہ فارما سوٹیکل کمپنیوں کو قیمت میں چند روپے اضافے کی اجازت دے دیتی تو ملک میں آج بھی پینسلین بن رہی ہوتی‘ ملک میں اس معجزاتی دوا کا بحران نہ ہوتا۔
ہمارے ملک کا سب سے بڑا ایشو عقل کی کمی ہے‘ ہمارے ریاستی ادارے دماغ کی بجائے 1860ءکے بنائے قانون سے سوچتے ہیں اور اس کم علمی کے نتیجے میں ملک بحرانستان بنتا جا رہا ہے‘ آج کے دور کا سب سے بڑا کمال مسابقت یا کمپی ٹیشن ہے‘ یہ آج کی سب سے بڑی مارکیٹ فورس ہے‘ یہ فورس مارکیٹ میں خود بخود توازن پیدا کرتی ہے‘ حکومت جب بھی اس طاقت کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتی ہے‘ معاملات سلجھنے کی بجائے الجھ جاتے ہیں اور اس کا نتیجہ وہی نکلتا ہے جو پینسلین کے معاملے میں نکلا تھا‘ ملک میں اس وقت بھی وزارت صحت اور ادویات ساز اداروں کے درمیان جنگ جاری ہے‘ فارما سوٹیکل کمپنیوں کا کہنا ہے‘ ملک میں 80 ہزار ادویات بنتی ہیں‘ حکومت نے پچھلے 13 برسوں میں انڈسٹری کو ان ادویات کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کرنے دیا‘ ان 13 برسوں میں دنیا کی ہر چیز مہنگی ہو گئی‘ پاکستان کے اندر اشیاءکی قیمتوں میں 570 فیصد اضافہ ہوا‘ دس روپے کا تربوز ڈیڑھ سو روپے کا ہو گیا لیکن ادویات کی قیمتیں اسی جگہ کھڑی رہیں‘ یہ ٹھہراﺅ انڈسٹری کو نگلتا جا رہا ہے‘ حکومت نے 2015ءمیں انڈسٹری کے ساتھ مل کر قیمتوں میں 94 اعشاریہ 25 فیصد اضافے کا فیصلہ کیا تھا لیکن پھر یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا‘ مارچ 2015ءہی میں فیصلہ ہوا‘ حکومت نے اگر 9 ماہ میں انتہائی اہم ادویات کی قیمتیں طے نہ کیں تو کمپنیاں اپنی قیمتیں خود ایڈجسٹ کر سکتی ہیں‘ کمپنیوں نے چار چار سال سے درخواستیں جمع کرا رکھی ہیں لیکن ”ڈریپ“ نے فیصلہ نہیں کیا‘ دسمبر میں پالیسی کے نو ماہ پورے ہو گئے‘ ڈریپ نے ہارڈشپ کیسز کے فیصلے نہیں کئے چنانچہ انڈسٹری عدالت گئی اور عدالتی حکم سے 150 ادویات کی قیمتیں ایڈجسٹ کر لیں‘ انڈسٹری یہ قدم نہ اٹھاتی تو ملک میں جان بچانے والی ادویات کا بحران پیدا ہو جاتا اور یوں ہزاروں مریضوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ جاتیں‘ انڈسٹری کا کہنا ہے‘ ہم نے 40 لاکھ لوگوں کو روزگار بھی فراہم کر رکھا ہے‘ ہم اربوں روپے ٹیکس بھی دیتے ہیں‘ ہم ملکی ضرورت کی 93فیصد ادویات بھی ملک میں بناتے ہیں‘ پاکستان کی 95 فیصد ادویات کی قیمتیں سارک کے دوسرے ممالک کے مقابلے میں کم ہیں‘ وہ ادویات جو بھارت اور پاکستان دونوں میں تیار ہوتی ہیں‘ وہ پاکستان میں ستر فیصد سستی ہیں‘ انڈسٹری کا کہنا ہے‘ ہمارے ملک میں ادویات اتنی سستی ہیں کہ ملک سے ہر سال کروڑوں روپے کی ادویات افغانستان‘ ایران اور سنٹرل ایشیا سمگل ہوتی ہیں‘ ہمارے ملک میں اگر ادویات مہنگی ہیں تو پھر یہ سمگل کیوں ہو رہی ہیں‘ انڈسٹری کا کہنا ہے‘ ہماری بات سننے کےلئے کوئی شخص اور کوئی ادارہ تیار نہیں لہٰذا ہم کہاں جائیں‘ ہم کس کے دروازے پر ماتھا پھوڑیں۔
میں صحت کی وزیر مملکت سائرہ افضل تارڑ کو ذاتی طور پر جانتا ہوں‘ یہ سمجھ دار اور درد دل رکھنے والی خاتون ہیں‘ یہ صحت کے شعبے میں بہت کچھ کرنا چاہتی ہیں‘ میں نے انہیں ہمیشہ انڈسٹری کے مسائل کو سمجھتے اور ان کے جائز مطالبات کو مانتے دیکھا لیکن مجھے یہ بھی قیمتوں کے ایشو پر بے بس نظر آتی ہیں‘ شاید یہ ان پریشر گروپوں کا مقابلہ نہیں کر پا رہیں جو دوا سازی کا ایک لائسنس روک کر مہینے میں دس دس کروڑ روپے کما لیتے ہیں‘ ہم اس سلسلے میں ہیپاٹائٹس سی کی دوا کی مثال دے سکتے ہیں‘ پاکستانی کمپنیوں نے جولائی اگست 2015ءمیں یہ دوا بنانے کی درخواست دی لیکن وزارت اجازت کو گھسیٹ کر مارچ 2016ءتک لے گئی‘ ان آٹھ نو مہینوں میں کیا ہوا؟ اس دوران وفاقی حکومت کے سینئر ترین وزیر کے ایک سسرالی رشتے دار وہ دوا 38 ہزار روپے فی ڈبی فروخت کرتے رہے جو اس وقت میرے دوست خواجہ اسد ساڑھے پانچ ہزار روپے میں بنا کر بیچ رہے ہیں‘ ان نو مہینوں میں طاقتور وزیر کے سالہ صاحب نے کتنے کروڑ روپے کمائے‘ یہ اعدادوشمار خواجہ اسد کے پاس موجود ہیں اور یہ وہ تمام اعدادوشمار سپریم کورٹ میں پیش کرنے کےلئے تیار ہیں‘ چیف جسٹس ہیپاٹائٹس سی کی دوا پر سوموٹو نوٹس لے چکے ہیں‘ سماعت جاری ہے‘ میری درخواست ہے‘ عدالت طاقتور وزیر کے طاقتور رشتے دار تک پہنچنے کےلئے خواجہ اسد کو عدالتی کارروائی کا حصہ بھی بنائے اور ان نوماہ کا فائدہ اٹھانے والی کمپنی سے ریکوری کا حکم بھی جاری کرے‘ یہ ایک مثال ہے‘ آپ اگر گہرائی میں جائیں گے تو آپ کو اس قسم کی درجنوں مثالیں ملیں گے اور آپ ہر مثال پر اپنی انگلی دانتوں میں داب لیں گے۔
ملک میں 374 انتہائی ضروری ادویات ہیں‘ یہ فہرست کسی مقامی کمپنی نے تیار نہیں کی‘ یہ ”ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن“ کی طے کردہ ہے اور یہ ادویات صرف ادویات نہیں ہیں‘ یہ انسانیت کی دوائیں ہیں‘ دنیا ملکوں پر مکمل پابندیوں کے دوران بھی ان ادویات کی سپلائی منقطع نہیں ہونے دیتی لیکن پاکستان میں حکومتی بے حسی کی وجہ سے یہ ادویات بھی متاثر ہو رہی ہیں‘ وزارت صحت ڈیٹول اور کینسر کی دوا دونوں کو ایک ہی حکم کی لاٹھی سے ہانک رہی ہے اور اس پالیسی کا نقصان بے چارے مریض اٹھا رہے ہیں‘ حکومت انتہائی ضروری ادویات کو دوسری ادویات سے الگ کیوں نہیں کرتی؟ یہ دونوں کو الگ الگ کیوں نہیں ٹریٹ کرتی؟ آپ انتہائی ضروری ادویات کی کوالٹی اور سپلائی پر توجہ دیں اور قیمت مارکیٹ پر چھوڑ دیں‘ کمپنیوں میں ”کمپی ٹیشن“ ہونے دیں‘ کمپنیاں مارکیٹ کا زیادہ سے زیادہ شیئر لینے کےلئے آپس میں ٹکراتی رہیں گی یوں قیمتیں کم ہوتی رہیں گی اور مریضوں کو فائدہ ہوتا رہے گا اور اگر دوائی کی قیمت زیادہ ہو گئی تو یہ باہر سے ملک میں آ جائے گی اور یوں مقامی کمپنیوں کو قیمت کے ساتھ جرمن‘ سوئس اور امریکی معیار کا مقابلہ بھی کرنا پڑے گا اور اس کا فائدہ یقینا مریضوں کو ہوگا! ہمیں یہ حقیقت بھی ماننا ہو گی ‘ملک میں 80 ہزار ادویات بن رہی ہیں‘ قیمت صرف 150 ادویات کی بڑھی اور ملک میں کہرام برپا ہو گیا‘ حکومت اس وقت عدالتوں میں دھکے کھا رہی ہے‘ کوئی ان سے یہ پوچھے‘ آپ نے معاملات کو اس سطح پر جانے ہی کیوں دیا تھا؟ آپ نے جب مارچ 2015ءمیں فارمولہ طے کر دیا تھا تو پھر آپ نے نو ماہ میں ہارڈشپ کیسز کا فیصلہ کیوں نہیں کیا‘ آپ یہ فیصلے کر دیتے تو یہ کمپنیاں عدالت جانے پر مجبور نہ ہوتیں‘ یہ عدالتی حکم پر قیمتوں میں اضافہ بھی نہ کرتیں اور یوں یہ بحران پیدا نہ ہوتا‘ حکومت اس وقت بھی معاملے کو سلجھانے کی بجائے بگاڑتی چلی جا رہی ہے‘ یہ انڈسٹری کے ساتھ بیٹھ کر مسئلہ حل کرنے کی بجائے ریاستی طاقت استعمال کر رہی ہے‘ یہ ادویات ساز کمپنیوں کو ڈرا دھمکا رہی ہے‘ مجھے خطرہ ہے‘ یہ جنگ صورتحال کو کہیں اس سطح پر نہ لے جائے جہاں پہنچ کر دوا ساز اداروں نے پینسلین بنانا بند کر دی تھی‘ آپ خود سوچئے‘ وہ ادارے جو 13 سال سے سرکاری برآمدوں میں مارے مارے پھر رہے ہیں‘ جو حکومتی دروازوں پر ٹکریں مار مار کر لہو لہان ہو چکے ہیں‘ وہ یہ نہیں کریں گے تو کیا کریں گے اور اگر ادویات بننا بند ہو گئیں تو اس کا ذمہ دار کون ہو گا؟ اس بحران کی ذمہ داری کس کے گلے میں آئے گی‘ کیا سیکرٹری ہیلتھ قوم کو جواب دہ ہوں گے‘ وزیر صحت جواب دہ ہوںگی یا پھر وزیراعظم اور اور یا پھر چیف جسٹس آف پاکستان‘ آپ آج یہ فیصلہ کر لیں کیونکہ وہ دن اب زیادہ دور نہیں ہیں جب ملک میں بجلی اور گیس کے ساتھ ساتھ ادویات کی لوڈشیڈنگ بھی شروع ہو جائے گی۔
ادویات کی لوڈ شیڈنگ
10
مارچ 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں