”میں جاننا چاہتا تھا‘ میںاصل میں کون ہوں‘ راج‘ جان یا وکٹر“ وہ سانس لینے کےلئے رکا‘ کافی شاپ میں رش تھا‘ شام کے وقت وہاں روزانہ رش ہو جاتا تھا‘ وہ کافی شاپ میٹرو سٹیشن کے بالکل سامنے تھی‘ چھٹی کے وقت وہاں رونق لگ جاتی تھی‘ بار کاﺅنٹر سے لے کر سڑک تک لوگ ہی لوگ ہوتے تھے‘ یہ رش دو گھنٹے جاری رہتا تھا‘ اس کے بعد وہاں سناٹا ہو جاتا تھا‘ میں اس کافی شاپ کا روزانہ کا گاہک تھا‘ میں چار بجے وہاں جاتا اور سات بجے واپس آتا‘ میں وہاں کیوں جاتا؟ اس کی دو وجوہات تھیں‘ پہلی وجہ سناٹا‘ شور اور سناٹا تھی‘ میں چار بجے اس کافی شاپ کا اکیلا گاہک ہوتا تھا‘ اس پورے ماحول میں اس وقت سناٹے کے سوا کچھ نہیں ہوتا تھا‘ پانچ بجے کے بعد وہاں رش شروع ہوجاتا‘ چھ بجے وہاں سر ہی سر‘ بازو ہی بازو اور ٹانگیں ہی ٹانگیں ہوتی تھیں اور آپ کو کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی‘ یہ رش چھ بجے کے بعد چھٹنے لگتا تھا اور جوں ہی سات بجتے تھے وہاں ایک بار پھر سناٹے کا راج ہو جاتا تھا‘ میں ہوتا تھا اور وہاں کافی شاپ کی موٹی اطالوی مالکن ہوتی تھی اور دوسری وجہ راج جان وکٹر تھا‘ وہ ساڑھے چھ بجے وہاں پہنچتا تھا‘ میں نے اس کےلئے کرسی ریزرو رکھی ہوتی تھی‘ وہ ٹھیک ساڑھے چھ بجے اندر داخل ہوتا‘ سیدھا میری طرف آتا‘ کرسی سے کتاب اٹھاتا اور میرے سامنے بیٹھ جاتا‘ اس کے نارنجی رنگ کے کپڑے‘ لکڑی کی کھڑاویں اور بھکشوﺅں کا تھیلا اس پورے منظر کو منفرد بنا دیتا تھا‘ آپ ذرا تصور کیجئے‘ آپ برسلز میں ہیں‘ آپ ساگوان لکڑی کی کافی شاپ میں بیٹھے ہیں‘ کافی کی مہک ساگوان کی خوشبو کو نشیلا بنا رہی ہے‘ آپ کے دائیں بائیں نوجوان لڑکے لڑکیاں کھڑے ہیں‘ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی اور آپ کے عین سامنے میز کی دوسری طرف ایک گورا بھکشوﺅں کے لباس میں بیٹھا ہے‘ چھت کی روشنیاں اس کی ٹنڈ پر چمک رہی ہیں اور اس کی دونوں تیز آنکھیں عینک کے گول شیشوں کے پیچھے سے آپ کو تاڑ رہی ہیں‘ آپ بتائیے آپ کو وہ شخص‘ اس کے نارنجی کپڑے‘ کھڑاویں اور بھیک کا تھیلا کیسا لگے گا؟ وہ مجھے روز ویسا لگتا تھا‘ پراسرار‘ دلچسپ اور دل کو چھو جانے والا‘ وہ کون تھا‘ وہ مجھے کیسے ملا اور مجھے اس میں اتنی دلچسپی کیوں تھی‘ یہ بھی ایک عجیب داستان تھی۔
میں دو ہفتوں کےلئے برسلز میں تھا‘ میں ایک دن پیدل چلتا ہوا اس کافی شاپ میں چلا گیا‘ وہ وہاں بیٹھ کر کتاب پڑھ رہا تھا‘ ہماری نظریں چار ہوئیں‘ اس نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور پوچھا ”انڈین“ میں نے ہنس کر جواب دیا ”نو پاکستانی“۔ وہ دوبارہ مسکرایا اور کتاب میں گم ہو گیا‘ ہم اس کے بعد تین دن اسی طرح ملتے رہے‘ میں کافی شاپ میں داخل ہوتا‘ وہ کتاب سے نظریں اٹھا کر مجھے سمائل کرتا‘ میں ہاتھ ہلاتا اور ہم اپنی اپنی میز پر بیٹھ جاتے‘ تیسرے دن وہ اٹھ کر میرے پاس آ گیا اور یہاں سے ہماری دوستی شروع ہو گئی‘ مجھے اس کا حلیہ اور اس کا نام دونوں عجیب لگتے تھے‘ میں پانچویں دن اپنے تجسس کے اظہار پر مجبور ہو گیا‘ اس نے قہقہہ لگایا اور بولا ”یہ عجیب کہانی ہے‘ میں شروع میں جان ہوتا تھا‘ میرے والد ٹرک ڈرائیور تھے‘ ماں استاد تھی‘ میں واٹر لو کے قصبے میں پیدا ہوا‘ یونیورسٹی تک تعلیم حاصل کی‘ پرائیویٹ جاب شروع کی‘ دن رات محنت کی اور کمپنی میں نمبر ٹو ہو گیا‘ میرے پاس برسلز میں اپنا فلیٹ‘ اپنی فراری اور اپنی تین گرل فرینڈز تھیں‘ میں مزے سے زندگی گزار رہا تھا‘ میرے ساتھ پھر ایک عجیب واقعہ پیش آیا‘ میں روز ایک خواب دیکھنے لگا‘ اس خواب میں کوئی خاتون مجھے وکٹر کہہ کر پکارتی تھی‘ میں کئی ماہ تک یہ خواب دیکھتا رہا‘ میں روز صبح اٹھتا اور ذہن جھٹک کر دفتر چلا جاتا لیکن پھر ایک اور حیران کن واقعہ پیش آیا‘ میں ایک دن ”گرینڈ پلاس“ سے گزر رہا تھا‘ میرے سامنے ایک بزرگ شخص آیا اور اوئے وکٹر کہہ کر مجھے سے بغل گیر ہوگیا‘ میں نے پریشان ہو کر اس سے پوچھا ”آپ کون ہیں اورمجھے وکٹر کیوں کہہ رہے ہیں‘ میں جان ہوں“ وہ شخص فرنچ تھا‘ وہ نیس سے برسلز آیا تھا‘ میں اس کے سامنے احتجاج کرتا رہا لیکن وہ مجھے مسلسل وکٹر بھی کہتا رہا اور فرنچ زبان میں میرے ساتھ گفتگو بھی کرتا رہا‘ مجھے فرنچ زبان نہیں آتی تھی‘ میں اس کی باتیں سمجھنے کی پوری کوشش کرتا رہا لیکن وکٹر کے علاوہ کوئی بات میرے پلے نہ پڑی‘ اس شخص نے میرا ٹیلی فون نمبر لیا اور اگلے دن پانچ بجے کا وقت طے کر لیا‘ میں اگلے دن اپنا ایک دوست ساتھ لے آیا‘ میرا دوست فرنچ زبان سمجھتا تھا‘ ہم اسی ریستوران میں ملے‘ وہ اجنبی شخص بولتا گیا اور میرا دوست ترجمہ کرتا رہا‘ اس کا دعویٰ تھا‘ میں وکٹر ہوں‘ میں نیس کے ایک گاﺅں کا رہنے والا ہوں‘ ٹرک ڈرائیور ہوں‘ میں ایک بار ٹرک چلا کر پیرس سے نیس آ رہا تھا‘ راستے میں حادثہ ہو گیا اور میں ٹرک سمیت جھیل میں گر گیا‘ میں مر گیا‘ میری لاش نکالی گئی‘ میرا جنازہ ہوا اور مجھے دفن کر دیا گیا‘ میرا باب بند ہو گیا لیکن میری بیوی کا دعویٰ ہے‘ وکٹر زندہ ہے اور وہ آج بھی اس کے خوابوں میں آتا ہے‘ گاﺅں کے لوگ خاتون کو پاگل سمجھتے ہیں لیکن آج جب اس نے مجھے دیکھا تو اسے میری بیوی کی بات پر یقین آ گیا وغیرہ غیرہ۔
مجھے وہ کہانی فراڈ لگی‘ برسلز میں ان دنوں نوسرباز ایسی کہانیاں سنا کر معصوم لوگوں کو لوٹ لیا کرتے تھے‘ میں نے اس کہانی کو بھی ایک ایسی ہی واردات سمجھا لیکن اس شخص نے آخر میں ہم دونوں کو یہ بتا کر حیران کر دیا‘ وہ وکٹر کا والد ہے اور میں اس کا سگا بیٹا ہوں‘ بہرحال قصہ مختصر میں وہاں سے اٹھ کر آ گیا مگر اس بزرگ نے میرا پیچھا نہ چھوڑا‘ وہ مسلسل میرے پیچھے لگا رہا‘ یہاں تک کہ میں ایک دن حقائق جاننے کےلئے اس کے ساتھ اس کے گاﺅں جانے پر تیار ہو گیا‘ میں نیس پہنچ گیا‘ میں وہاں جا کر تقریباً پاگل ہو گیا کیونکہ اس بوڑھے کی ایک ایک بات درست تھی‘ پورے گاﺅں نے تصدیق کی‘ میں وکٹر ہوں‘ میں نے وکٹر کی تصویریں دیکھیں‘ وہ ہو بہو میرے جیسا تھا‘ بس ہیئر سٹائل کا فرق تھا‘ میں بینک گیا‘ اکاﺅنٹ کے فارم پر بھی میری تصویر تھی‘ میں سکول گیا وہاں بھی میری تصویر تھی اور استادوں نے میرے وکٹر ہونے کی تصدیق بھی کی‘ میری نام نہاد بیوی نے میرے جسم پر ان نشانوں کا حوالہ بھی دیا جو عام لوگوں کو نظر نہیں آتے‘ وہ نشان بھی موجود تھے‘ میں قبرستان میں وکٹر کی قبر پر بھی گیا اور وکٹر کے پرانے دوستوں سے بھی ملا‘ میں ہر جگہ وکٹر ثابت ہوا‘ میں یہ جان کر نیم پاگل ہو گیا‘ میں وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا‘میں نے اگلے دو سال نفسیاتی مخمصے میں گزارے‘ میں نفسیات دانوں کے زیر علاج بھی رہا لیکن مجھے افاقہ نہ ہو‘ میں واٹر لو جاتا تو پورا شہر مجھے جان بلاتا اور میں نیس کے اس گم نام گاﺅں میں چلا جاتا تو میں وکٹر ہو جاتا‘ یہ سلسلہ جاری رہا‘ میرا پاگل پن بھی بڑھتا رہا یہاں تک کہ میں نے ایک دن مدراس کے ایک یوگی کے بارے میں پڑھا‘ وہ آواگان کے ماہر تھے‘ وہ انسان کا ہاتھ دیکھ کر یہ بتا دیتے تھے‘ یہ اس کا کون سا جنم ہے اور وہ اس جنم کے بعد کہاں اور کب پیدا ہو گا‘ میں نے ٹکٹ خریدی اور مدراس چلا گیا‘ میں نے بڑی مشکل سے وہ یوگی تلاش کیا‘ بابے کی عمر سو سال تھی‘ وہ مدراس کے مضافات میں تین سو سال پرانے آشرم میں رہتا تھا‘ میں اس کا مرید ہو گیا‘ میں نے اس سے یوگا سیکھی‘ میں نے اس سے یکسوئی کا فن سیکھا اور میں نے اپنی بھوک پر قابو پانا سیکھا‘ میں دو سال اس کا مرید رہا‘ میں نے دو سال بعد اس سے پوچھا ”بابا میں جان ہوں یا وکٹر‘ میں کون ہوں“ بابے نے قہقہہ لگایا اور کہا ”تم جان بھی ہو‘ وکٹر بھی ہو اور راج بھی ہو“ میں نے حیرت سے پوچھا ”کیا مطلب“ بابے نے جواب دیا ”تم ذات کے دلت ہو‘ تمہارا پیشہ مٹی کے برتن بنانا ہے اور تم یوپی کے کسی گاﺅں کے رہنے والے ہو“ میں حیران رہ گیا‘ میں اگر زندگی میں ایک بار جان سے وکٹر نہ ہوا ہوتا تو میں بابے کی بات پر کبھی یقین نہ کرتا لیکن میں کیونکہ ایک بار وکٹر ثابت ہو چکا تھا چنانچہ میں نے راج کے انکشاف پر بھی یقین کر لیا‘ بابے کے پاس آواگان کا ایک قدیم نقشہ تھا‘ وہ اس نقشے سے لوگوں کے تازہ ترین جنم تلاش کرتا تھا‘ ہم نے دو دن کی کوشش سے وہ گاﺅں تلاش کر لیا جس میں مجھے راج کی شکل میں ہونا چاہیے تھا‘ میں اس گاﺅں میں پہنچ گا‘ اس گاﺅں میں واقعی راج تھا‘ وہ راج ہو بہو میرے جیسا تھا‘ بس اس کا رنگ گندمی اور جسم ذرا سا کمزور تھا لیکن وہ باقی میرے جیسا تھا‘ یہی ناک نقشہ‘ یہی آواز اور چلنے پھرنے‘ اٹھنے بیٹھنے اور بھاگنے دوڑنے کا بھی یہی سٹائل‘ وہ میری کاپی تھا‘ وہ واقعی کمہار تھا‘ وہ‘ اس کی بیوی اور اس کے تین چھوٹے بیٹے مٹی کے برتن بناتے تھے‘ وہ دلت بھی تھا‘ گاﺅں میں اس کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک ہوتا تھا‘ میں راج کو دیکھ کر وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا‘ سیدھا مدراس آیا اور بابے سے جنموں کا یہ بھید کھولنے کی درخواست کی۔
بابے نے قہقہہ لگایا اور مجھے بتایا‘ دنیا میں انسان کی سات پرچھائیاں ہوتی ہیں‘ یہ ایک قسم کے سات انسان ہوتے ہیں‘ یہ دنیا کے مختلف حصوں میں مختلف زندگیاں گزار رہے ہوتے ہیں‘ یہ لوگ عموماً زندگی میں ایک دوسرے سے دور اور ناواقف رہتے ہیں لیکن بعض اوقات یہ لوگ یا ان کے جاننے والے ان سے ٹکرا جاتے ہیں جس کے بعد ویسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں جیسے تم دیکھ رہے ہو‘ بابے کا کہنا تھا‘ تم نے لوگوں کے منہ سے اکثر یہ فقرہ سنا ہوگا ”میں نے آپ کو کہیں دیکھا ہے“ آپ جب بھی یہ فقرہ سنو‘ آپ تحقیق کر کے دیکھو‘ آپ کو معلوم ہو گا‘ یہ آپ کی اس شخص سے پہلی ملاقات ہے‘ پھر اس نے آپ کو اس سے پہلے کہاں دیکھا تھا‘ اس نے یقینا آپ کی کوئی نہ کوئی پرچھائی دیکھی تھی‘ وہ راج سے ملا ہو گا‘ جان سے یا پھر وکٹر سے اور وہ ایک ملاقات اسے بار بار کہتی ہے ”میں پہلے بھی اس شخص سے کہیں ملا ہوں“ یہ ملاقات اور اس سے پہلی بے شمار ملاقاتیں یہ سب پرچھائیوں کا کھیل ہے‘ یہ سب آواگان ہے اور یہ سب جنموں کی شطرنج ہے‘ مجھ میں اور تم میں بس ایک فرق ہے‘ تم نے جان ہو کر وکٹر اور راج کو دیکھ لیا جبکہ ہم آج تک اپنی اپنی ذات کے جان اور وکٹر تلاش کر رہے ہیں‘ تم نے راج اور وکٹر پا لئے جبکہ ہمارے وکٹر‘ راج اور جان سات براعظموں کی اس دنیا میں کہیں چھپے بیٹھے ہیں‘ ہم نے ایک دوسرے کو ابھی تلاش نہیں کیا“ بھکشو نے آخر میں قہقہہ لگایا اور بولا ”میں اس دن سے راج جان وکٹر ہو گیا ہوں‘ میں اس دن سے زندگی کا سرا تلاش کر رہا ہوں۔
مجھے بیلجیئم کے اس بھکشو سے ملے 15 سال ہو چکے ہیں‘ میں آج بھی جب اپنے آپ سے پوچھتا ہوں ”راج جان وکٹر جینئس تھا یا پاگل“ تو مجھے کوئی حتمی جواب نہیں ملتا‘ میری عقل اسے پاگل سمجھتی ہے لیکن میرا دل اسے آواگان کا نیوٹن سمجھتا ہے‘ ایک ایسا نیوٹن جو جنموں کے سیب کا اسرار جان گیا تھا‘ میری عقل ٹھیک ہے یا دل؟ میں آج تک یہ فیصلہ نہیں کر سکا۔
نیوٹن
31
جنوری 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں