میری گفتگو جاری تھی‘ اچانک ایڈیشنل سیکرٹری نے قہقہہ لگایا اور بولے ’’میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں‘ میں بھی یہ سمجھتا ہوں‘ ہماری عبادات صرف فرائض تک محدود ہونی چاہئیں اور ہمیں اپنے وقت کا زیادہ حصہ دنیا کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنا چاہیے لیکن یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے‘ تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے اور ہمیں اس رخ پر بھی توجہ دینی چاہیے‘‘ میں نے پوچھا ’’دوسرا رخ کیا ہے‘‘ وہ بولے ’’ میں ایک دن دفتر میں بیٹھا تھا‘ میرے ایک بیچ میٹ کا فون آیا‘ وہ باریش بھی ہے اور تبلیغی جماعت سے بھی تعلق رکھتا ہے‘ ان کا کہنا تھا‘ ان کے چند دوست مجھ سے ملنا چاہتے ہیں‘ میں عموماً مولویوں سے پرہیز کرتا ہوں‘ یہ میری پرانی عادت ہے‘ میں مولویوں کی دکان سے سودا تک نہیں خریدتا‘ اس کی وجہ مذہب سے نفرت نہیں ہے بلکہ میں سوچتا ہوں‘ دکاندار کی غلط بیانی‘ منافع خوری یا خریدی ہوئی چیز کے نقص مجھے کہیں مذہب اور مولویوں سے مزید بدگمان نہ کر دیں چنانچہ میں کسی ایسے شخص سے ملتا ہوں اور نہ ہی معاملہ کرتا ہوں جس سے ملاقات میری بدگمانی میں اضافہ کر دے لیکن میں اس دن بحث کے موڈ میں تھا‘ میں اس دن کسی ایسے شخص کا منتظر تھا میں جس کے ساتھ سینگ پھنسا سکوں اور میرے کولیگ نے مجھے یہ موقع فراہم کر دیا‘ میں نے ان لوگوں کو لنچ کے وقت بلا لیا‘ وہ چھ لوگ تھے‘ وہ سب صحت مند مولوی تھے‘ وہ آئے اور میرے سامنے بیٹھ گئے‘ میں نے ان کے سامنے یہی آرگومنٹ رکھا جو آپ اس وقت ہمارے سامنے کھول کر بیٹھے ہیں‘ میں نے ان سے پوچھا‘ آپ نے آج تک معاشرے اور فرد کیلئے کیا کیا؟ آپ نے دنیا کو کیا دیا؟‘‘ وہ تمام لوگ خاموشی سے میری بات سنتے رہے‘ ان میں موجود ایک شخص نے میرا نام دہرایا اور اس کے بعد پوچھا’’ مجھے آپ کا نام جانا پہچانا لگ رہا ہے‘ آپ کہیں فلاں سال سندھ کے فلاں ضلع میں ڈپٹی کمشنر تو نہیں تھے؟ میں نے ہاں میں سر ہلایا اور عرض کیا‘ جی ہاں میں اس سال سندھ میں تھا اور اس ضلع کا ڈی سی تھا‘ اس نے اس کے بعد کہا‘ جناب آپ کو یاد ہو گا‘ آپ ایک رات ہائی وے سے گزر رہے تھے اور آپ کی گاڑی ڈاکوؤں نے روک لی تھی‘ میں نے دماغ پر تھوڑا سا زور دے کر جواب دیا ہاں! آپ کی یہ بات بھی درست ہے‘ میرے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا تھا لیکن میں نے یہ اپنے ڈیپارٹمنٹ اور پریس دونوں سے خفیہ رکھا‘ اس نے اس کے بعد کہا‘ آپ کو یاد ہو گا‘ آپ کو ایک نوجوان ڈاکو نے تھپڑ مارے تھے‘ آپ جب بھی یہ کہتے تھے‘ میں ڈی سی ہوں تو وہ ڈاکو آپ کو تھپڑ مارتا تھا‘ میں نے کہا ‘ہاں! یہ بھی حقیقت ہے لیکن یہ واقعہ رپورٹ نہیں ہوا تھا‘ یہ آپ تک کیسے پہنچا؟ وہ صاحب مسکرائے اور مسکرا کر جواب دیا‘ وہ تھپڑ مارنے والا ڈاکو میں تھا‘ آپ مجھے دیکھیں اور اس وقت کے ڈاکو کو ذہن میں لائیں جس نے علاقے کے ڈپٹی کمشنر کو تھپڑ مارے تھے اور آپ اس کے بعد اپنا سوال دہرائیں‘ مولویوں کی کسی تنظیم نے آج تک کسی کا مقدر نہیں بدلا‘ آپ کو اپنے سوال کا جواب مل جائے گا‘ میں اس کے جواب سے واقعی لاجواب ہو گیا‘ اس نے بعد ازاں بتایا‘ وہ سب سے پہلے خود تبدیل ہوا اور پھر اس کو دیکھ کر اس کا سارا قبیلہ‘ اس کے سارے ساتھی جرائم اور گناہوں سے توبہ تائب ہو گئے‘ میں یہ سن کر اپنی جگہ سے اٹھا‘ اس کا ہاتھ چوما اور اس سے اپنی مغفرت کی دعا کی درخواست کی‘‘ ایڈیشنل سیکرٹری خاموش ہو گئے‘ ہم دونوں بھی خاموش تھے۔
یہ خاموشی چند لمحے جاری رہی پھر پروفیسر صاحب نے سر اٹھایا اور بولے ’’میرے پاس بھی ایک ایسی ہی کہانی ہے‘ میرے کلینک میں ایک بزرگ آدمی داخل تھا‘ اس کے پاس ہر وقت لوگوں کا میلا لگا رہتا تھا‘ لوگ ساری ساری رات اس کے کمرے کے سامنے کھڑے رہتے تھے‘ ہم جب لوگوں کو منع کرتے تھے تو وہ رونا شروع کر دیتے تھے‘ ہمیں لوگوں کی اس عقیدت نے پریشان کر دیا‘ میں جس شخص سے پوچھتا تھا‘ آپ کو اس بوڑھے سے کیا ملتا ہے تو وہ جواب دیتا تھا‘ سکون‘ ہم جوں ہی انہیں دیکھتے ہیں‘ ہمارے سینے میں ٹھنڈ پڑ جاتی ہے‘ میں نے ایک دن باباجی سے پوچھ لیا‘ آپ کون ہیں اور آپ کو یہ رتبہ کیسے ملا‘ باباجی نے مسکرا کر جواب دیا‘ میں لاہور کا ایک جیب کترا تھا‘ میں جیب تراشی کرتا تھا‘ میں نے ایک دن لاری اڈے پر ایک مسافر کی جیب کاٹی‘ جیب سے 38 روپے اور ایک خط نکلا‘ یہ بیٹے کا اپنی ماں کے نام خط تھا‘ بیٹے نے لکھا تھا‘ ماں میں محنت مزدوری کر کے صرف 38 روپے جمع کر سکا ہوں‘ آپ ڈاکٹر کو یہ پیسے دے کر علاج شروع کرا لو‘ میں باقی 12 روپے بھی آپ کو جلد بھجوا دوں گا‘ میں یہ خط پڑھ کر لرز گیا‘ میں اسی وقت راج مزدوروں کے ساتھ بیٹھ گیا‘ میں نے بارہ دن مزدوری کر کے بارہ روپے جمع کئے‘ حلال روزی کے یہ بارہ روپے ان 38 روپوں میں ملائے اور یہ رقم خط پر لکھے پتے پر منی آرڈر کر دی‘ بس وہ دن ہے اور آج کا دن ہے‘ اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد میرا کوئی قدم برائی کے راستے پر نہیں پڑنے دیا‘ میں نے باباجی کا ہاتھ چوماا اور باہر آ گیا‘ وہ باباجی بھی تبلیغ کا کام کرتے تھے‘‘ پروفیسر صاحب بھی خاموش ہو گئے‘ وہاں اب خاموشی کا راج تھا‘ ہم تینوں خاموش بیٹھے تھے‘ تصویر کے دوسرے رخ نے ہم تینوں کو لاجواب کر دیا تھا۔