بنا لیا‘ یہ اس مریضہ سے فیس نہیں لیتی تھیں جس کا بچہ ڈیلیوری کے دوران فوت ہو جاتا تھا یا جس خاتون کا ”مس کیرج“ ہو جاتا تھا‘ یہ کہتی تھیں‘ میرا ضمیر گوارہ نہیں کرتا‘ میں اس بے چاری سے پیسے لوں جو اپنے بچے کی لاش لے کر جا رہی ہے‘ یہ دونوں میاں بیوی خدا ترسی میں پورے کراچی میں مشہور تھے‘ ڈاکٹر عاصم ایسے ماں باپ اور ایسے نانا کی اولاد ہیں۔ یہ خود بھی بے انتہا ذہین اور محنتی تھے‘ یہ پٹارو کیڈٹ کالج میں جناح گروپ کے کیپٹن تھے‘ یہ بڑے اعزاز کی بات تھی‘ آصف علی زرداری کو کالج سے نکالنے کا فیصلہ ہوا‘ ڈاکٹر عاصم نے انہیں بچا لیا لیکن چند دنوں بعد ایک بار پھر زرداری صاحب کے خلاف ڈسپلن کی خلاف ورزی کا کیس بنا‘ ڈاکٹر عاصم اس بار انہیں نہ بچا سکے اور زرداری صاحب پٹارو سے فارغ کر دیئے گئے‘ یوں ڈاکٹر عاصم اور زرداری صاحب کی راہیں جدا ہو گئیں‘ اس زمانے میں کیڈٹ کالج کے طالب علموں کےلئے لازم تھا‘ یہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد فوجی سروس جوائن کریں‘ ڈاکٹر عاصم کو بھی اس پابندی کا سامنا کرنا پڑا‘ یہ نیوی میں بھرتی ہوئے لیکن جلد ہی بھاگ گئے‘ انہوں نے بعد ازاں ایم بی بی ایس کیا اور پریکٹس شروع کر دی‘ یہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت میں سول ہسپتال کراچی میں ملازم تھے‘ غلام اسحاق خان نے اگست 1990ءمیں محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت ختم کر دی‘ آصف علی زرداری کے خلاف کرپشن کے مقدمات قائم ہوئے اور یہ اکتوبر 1990ءمیں گرفتار ہو گئے‘ یہ گرفتاری کے دوران بیمار ہوئے‘ سول ہسپتال کراچی لے جائے گئے‘ ڈاکٹر عاصم اس وقت سول ہسپتال میں ملازم تھے‘ دونوں نے ایک دوسرے کو پہچان لیا‘ ڈاکٹر عاصم کے کمرے میں اے سی تھا‘ باقی کمرے اور وارڈز اے سی کے بغیر تھیں‘ ڈاکٹر عاصم نے آصف علی زرداری کو اپنا اے سی والا آفس دے دیا اور خود گرم کمرے میں شفٹ ہو گئے‘ یہ مہربانی دوستی کے نئے بندھن کا آغاز ثابت ہوئی اور ڈاکٹر عاصم آہستہ آہستہ آصف علی زرداری کے قریبی دوستوں میں شمار ہونے لگے‘ آصف علی زرداری 2008ءمیں پارٹی کے کو چیئرپرسن بنے‘ پاکستان پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی اور ڈاکٹر عاصم پارٹی کے تمام وزراءاور بیورو کریٹس کے باس بن گئے‘ آپ ان کے کروفر اور ہٹو بچو کی داستانیں پیپلز پارٹی کے کسی بھی سابق وزیر اور سینئر بیورو کریٹس سے سن سکتے ہیں‘ میں خود ان کے کروفر کے ایک واقعے کا عینی شاہد ہوں‘ ہم نے 2012ءمیں اسلام آباد میں ایک کانفرنس کرائی‘ وزیر خزانہ ڈاکٹرعبدالحفیظ شیخ اس کانفرنس کی صدارت کر رہے تھے‘ میں وزیر خزانہ کے بالکل ساتھ بیٹھا تھا‘ تقریریں چل رہی تھیں‘ اچانک وزیر خزانہ کا پی ایس آیا اور ان کے کان میں سرگوشی کی ”ڈاکٹر عاصم آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں“ وزیر خزانہ نے پی ایس سے کہا ” آپ انہیں بتا دیں‘ میں کانفرنس میں بیٹھا ہوں‘ میں فارغ ہو کر کال کرتا ہوں“ پی ایس چلا گیا لیکن تھوڑی دیر بعد دوبارہ آ گیا اور سرگوشی کی ”سر وہ فوراً بات کرنا چاہتے ہیں“ وزیر خزانہ نے پی ایس کو گھور کر دیکھا‘ وہ پیچھے ہٹ گیا‘ کانفرنس چلتی رہی‘ تھوڑی دیر بعد دروازہ کھلا اور ڈاکٹر عاصم اپنے تین چار حواریوں کے ساتھ بنفس نفیس ہال میں داخل ہو گئے‘ وزیر خزانہ کو اشارہ کیا‘