میں نے تنہائی کو انجوائے کرنا خواجہ صاحب سے سیکھا تھا‘ خواجہ صاحب مجھے ایک دن مارگلہ کی پہاڑیوں پر لے گئے‘ انہوں نے پیر سوہاوہ کے قریب گاڑی رکوائی‘ مجھے نیچے اتروایا اورپہاڑی کی پگڈنڈی پر چل پڑے۔ ہم چلتے چلتے ایک وادی میں آگئے‘ پہاڑ کے دامن میں کوئی گاﺅں تھا‘ یہ شام کا وقت تھا اورڈوبتے ہوئے سورج کی شعاعیں مکانوں کی چھتوں سے منعکس ہو رہی تھیں‘ گاﺅں کے درمیان سے پانی کا نالا گزر رہا تھا اور ہم جس زاویے پر کھڑے تھے اس سے ہمیں پانی میں آسمان کی نیلاہٹ اور ڈوبتے سورج کی سرخی ایک دوسرے میں گھلتی دکھائی دے رہی تھی۔ گاﺅں کے چاروں طرف جنگل تھا‘ مجھے ایک لمحے کیلئے محسوس ہوا یہ منظر ایک پیالہ ہے جس کے پیندے میں سرخ ٹماٹروں کاگودا پڑا ہے جبکہ کسی ماہر شیف نے پیالے کی گول دیواروں پر پودینے کی چٹنی کا لیپ کر دیاہے۔ میں نے ایک لمبی سانس لی اور خواجہ صاحب کی طرف دیکھا‘ وہ مسکرائے اورآگے چل پڑے‘ میں بھی ان کے پیچھے چل پڑا۔ ہم گھنٹہ بھر چلتے رہے‘ اسی دوران گاﺅں اور چٹنی سے بھرا پیالہ دونوں پگڈنڈی کے کسی موڑمیں گم ہو گئے‘ سفر کے دوران سورج نے بھی ہمارا ساتھ چھوڑ دیا اور رات آہستہ آہستہ ہمارے راستے میں حائل ہونے لگی۔ میرے دل میں خوف ٹشو پر گرے سیاہی کے دھبے کی طرح آہستہ آہستہ پھیل رہاتھا لیکن میں خواجہ صاحب کے احترام میں چپ چاپ چلتا رہا‘ خواجہ صاحب تھوڑی دیربعد رک گئے‘ یہ ایک عجیب جگہ تھی‘ دس دس فٹ کے فاصلے پر دو چٹانیں تھیں‘ چٹانوں کے سامنے پچاس ساٹھ فٹ اونچی چھوٹی سی پہاڑی تھی اور پہاڑی سے مختلف رنگوں کی روشنیاں آسمان کی طرف اٹھ رہی تھیں‘ چٹانوں کی دوسری طرف وہ پگڈنڈی تھی جس پر ہم کھڑے تھے اور ہماری پشت پر ایک گھنا سیاہ جنگل تھا اور اس جنگل سے جنگلی کیڑوں کی ہزاروں قسم کی آوازیں آ رہی تھیں۔ میں نے خواجہ صاحب کی طرف دیکھا‘ وہ مسکرائے‘ انہوں نے دائیں چٹان کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا ”آپ اس چٹان پرچڑھ کر بیٹھ جائیں‘ آپ نے آدھ گھنٹہ وہیں بیٹھے رہنا ہے اور خبردار آپ نے 30منٹ تک یہ جگہ نہیں چھوڑنی“ میں نے بے بسی سے ان کی طرف دیکھا‘ چٹان پر چڑھا اور چپ چاپ بیٹھ گیا۔ خواجہ صاحب دوسری چٹان پر بیٹھے‘ انہوں نے کندھے سے رومال اتارا‘ سر پر ڈالا اور راجپوت عورتوں کی طرح گھونگھٹ نکال کر بیٹھ گئے ۔میں نے دائیں بائیں دیکھا‘ پھر سامنے نظر دوڑائی اور پہاڑی کی دوسری طرف اٹھنے والی روشنیوں کے بارے میں سوچنے لگا۔
میں نے سوچا‘ یہ روشنیاں کہاں سے آ رہی ہیں؟ مجھے شروع شروع میں محسوس ہوا سی ڈی اے نے پہاڑ پر لائٹس لگا رکھی ہیں اور یہ روشنیاں انہی لائٹس کی پیداوار ہیں لیکن میں نے جلد ہی یہ خیال ذہن سے جھٹک دیا کیونکہ سڑک سے دو گھنٹے کی پیدل واک پر لائٹس لگوانے کی کوئی تک نہیں بنتی تھی۔ میں نے سوچا یہ روحانی روشنیاں ہیں اور کسی قطب‘ کسی ابدال نے ان کا بندوبست کیا ہے اور خواجہ صاحب اپنی روحانی لو بلند کرنے کیلئے یہاں آئے ہیں مگر میں نے چند لمحوں میں یہ خیال بھی جھٹک دیا کیونکہ ابدال اور قطب کسی ایک جگہ کو روحانی مقا م نہیں بننے دیتے۔ میں نے سوچا یہ شیطانی روشنیاں ہیں اور ان کا مقصد لوگوں کو گمراہ کرنا ہے لیکن میں نے جلد ہی یہ خیال بھی ذہن سے جھٹک دیا کیونکہ اگر یہ روشنیاں واقعی شیطانی ہوتیں تو پھر خواجہ صاحب کبھی یہاں نہ آتے اور اس کے بعد روشنیوں کا گورکھ دھندہ میرے ذہن میں پھیلتا چلا گیا۔ میرے ذہن میں ہر سیکنڈ بعد روشنیوں کے بارے میں کوئی نہ کوئی نیا تھیسس پیدا ہوتا اور میں اگلے ہی سیکنڈ میں کسی نہ کسی جواز‘ کسی نہ کسی دلیل کی الکلی سے اس تھیسس کے تیزاب کو نمک بنا دیتا۔ یہ سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ خواجہ صاحب نے گھونگھٹ اٹھایا‘ مسکرا کر میری طرف دیکھا اور فرمایا ”چلیں“ میں نے قید با مشقت سے رہائی پانے والے قیدی کی طرح فوراً چٹان سے چھلانگ لگا دی‘ اورچپ چاپ خواجہ صاحب کے پیچھے چل پڑا‘ یہ ایک گہری سیاہ بلکہ اندھی رات تھی اور ہم دونوں پیدائشی نابیناﺅں کی طرح ٹٹول ٹٹول کر راستہ تلاش کر رہے تھے‘ میرے اندر شدید بے چینی تھی‘ میں خواجہ صاحب سے اس ساری خواری کی وجہ معلوم کرنا چاہتا تھا لیکن خواجہ صاحب کی ساری توجہ راستے پر تھی‘ ہم راستے سے الجھتے‘ لڑتے اور بگڑتے ہوئے تین گھنٹوں میں گاڑی تک پہنچے۔
ہم نے واپسی کا سفر شروع کر دیا‘ دامن کوہ کے قریب پہنچ کر خواجہ صاحب نے فرمایا ”انسان ماں کے پیٹ میں نوماہ تک تنہا رہتا ہے‘ تنہائی کے ان دو سو ستردنوں میں اس کے پاس ماں کے دل کی دھڑکن اور اندھیرے کے سواکچھ نہیں ہوتا‘ اندھیرے اور تنہائی کے ان دو سو ستر دنوں میں وہ آہستہ آہستہ لیکوڈ سے سالڈ کی شکل اختیار کرتاہے‘ اس کے تمام اعضاءدرخت کی شاخوں کی طرح ایک ایک کر کے جنم لیتے ہیں یہاں تک کہ وہ ماں کے دل کی دھڑکن کو سمجھنے لگتا ہے اور باہر کی روشنیاں ماں کے پیٹ کی دیواروں سے چھن چھن کر اس تک پہنچنے لگتی ہیں اور وہ ان روشنیوں کی ماہیت کا اندازہ لگا نے کی کوشش شروع کر دیتا ہے“ میں نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا‘ وہ بولے ”اللہ تعالیٰ نے انسان کیلئے ستر لاکھ لذتیں پیدا کی ہیں لیکن اللہ نے سب سے بڑی لذت تنہائی میں رکھی ہے“ وہ رکے‘ انہوں نے سانس لیا اور بولے ”تم تنہائی کی لذت کا اندازہ صرف اس بات سے لگا لو کہ اللہ کے ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی میجی ٹیشن (مراقبے) کیلئے جنگلوں‘ پہاڑوں‘ غاروں اور ویرانوں میںجاتے تھے اوراس عمل میں انہیںاس قدر لذت محسوس ہوتی تھی کہ وہ غاروں تک محدود ہونے کی کوشش کرتے تھے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کو وحی کے ذریعے انہیں واپس بستیوں میں جانے اور لوگوں کو دعوت دینے کا حکم دینا پڑتاتھا۔ یہ نبی بعثت کے بعد بھی ویرانوں‘ جنگلوں اور غاروں کی طرف بھاگتے رہے اور اللہ تعالیٰ انہیں ہر بار واپس بھجواتا رہا۔ تم اولیائے کرام کو بھی دیکھو‘ تمام اولیائے کرام خانقاہوں‘ حجروں اور کوٹھڑیوں میں محدود ہونے کی کوشش کیوں کرتے ہیں؟ درویش اپنی شناخت لوگوں میں کیوں گم کر دیتے ہیں کیونکہ یہ لوگ بھی تنہائی کی لذت‘ تنہائی کی برکتوں سے واقف ہوتے ہیں چنانچہ یہ تنہائی کو انجوائے کرتے ہیں“ وہ رکے اور چند لمحے بعد بولے ”تنہائی کتنی عظیم چیز ہے تم اس کا اندازہ زندگی کے آغاز اور موت جیسے اختتام سے لگا لو‘ اللہ تعالیٰ انسان کو پیدا ہونے سے قبل دو سو ستر دن تک اکیلا رکھتا ہے‘ وہ انسان کو پیدا بھی تنہا کرتا ہے‘ انسان مرتا بھی اکیلا ہے اور مرنے کے بعد حشر تک قبر میں بھی اکیلا رہتا ہے۔۔ کیوں؟ یہ تنہائی ہے! اور یہ تنہائی کی لذت ہے!۔ تنہائی اس قدر عظیم نعمت ہے کہ جب انسان پید اہوتا ہے تو وہ تنہائی چھن جانے پر چیخ کر احتجاج کرتا ہے“ وہ رکے اور دوبارہ بولے ”ساری عبادتیں‘ ساری نمازیں اور ساری دعائیں کیا ہیں؟ یہ بھی ایک مختصر تنہائی ہیں‘ ہم نماز شروع کرنے سے پہلے کیا کرتے ہیں؟ ہم اپنے آپ کو تنہا کرتے ہیں اور اس کے بعد خود کو اللہ کے دربار میں کھڑا کر دیتے ہیں‘ ایسا کیوں ہے؟ اس لئے کہ تنہائی دنیا کی واحد چیز ہے جو انسان کو اللہ سے جوڑتی ہے‘ جو اسے اللہ کا قرب عطا کرتی ہے اور یہ قرب ہی بنیادی طور پر وہ لذت ہوتی ہے جسے انسان پیدائش سے قبل اور انتقال کے بعد محسوس کرتا ہے چنانچہ اگر تم زندگی کو انجوائے کرنا چاہتے ہو‘ تم زندگی کی اصل لذت کو محسوس کرنا چاہتے ہو تو کبھی کبھی پہاڑ کی کسی چٹان پر آ کراکیلے بیٹھ جایا کرو‘ کسی جھیل کے کنارے جایا کرو‘ کسی خوبصورت منظر میں اتر جایا کرو اور کبھی کبھی کسی ایسی اجنبی جگہ چلے جایا کرو جہاں تمہیں کوئی نہ جانتا ہو اور تم کسی خاموش جگہ بیٹھ کر اپنے ارد گرد دیکھا کرو‘ تمہیں ایک ایسی لذت محسوس ہو گی جو ہزاروں محبتیں مل کرنہیں دے سکتیں“۔ وہ رکے اور نرم آواز میں بولے ”انسان کو زندگی کو سمجھنے کیلئے زندگی میں 270دنوں کے برابر تنہائیاں درکار ہوتی ہیں‘ یہ چھ ہزار چار سو اسی گھنٹے بنتے ہیں چنانچہ انسان کو یہ ساڑھے چھ ہزار گھنٹے اپنے آپ کو ضرور دینے چاہئیں کیونکہ ان کے بغیر یہ زندگی کے مقصد کو نہیں سمجھ سکتا“ اور وہ دن ہے اور آج کا دن ہے میں تنہائی کو انجوائے کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتا۔
چھ ہزار چار سو اسی گھنٹے
26
جولائی 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں