‘ میں ہوں یا پھر انبیاءکرام ؑاور اولیاءکرامؒ ہوں لباس سے لے کر خوراک تک اور پناہ گاہ سے لے کر جنگ تک انسان کے 95 فیصد تقاضے مادی ہیں‘ سوال یہ ہے‘ کیا کوئی شخص اپنی زندگی سے مادے‘ علم اور ٹیکنالوجی کو خارج کر سکتا ہے؟ جواب‘ نہیں‘ ہرگز نہیں! ہم بس اس میں کمی یا زیادتی کر سکتے ہیں‘ ہم اسے زندگی سے خارج نہیں کرسکتے مثلاً آپ توکل کی چوٹی پر بیٹھے شخص کو دیکھ لیجئے‘ وہ شخص بھی کپڑے پہنے گا‘ وہ بھی خوراک کھائے گا‘ وہ بھی سردی اور گرمی سے بچے گا‘ وہ بھی ادویات استعمال کرے گا‘ وہ بھی مکھی مچھر سے پرہیز کرے گا‘ وہ بھی صاف پانی پیئے گا اور وہ بھی رات بسر کرنے کےلئے کوئی محفوظ ٹھکانہ تلاش کرے گا اور یہ تمام چیزیں کیا ہیں اور یہ کہاں سے آتی ہیں؟ یہ تمام چیزیں مادی ہیں اور یہ ٹیکنالوجی اور علم سے آتی ہیں‘ آپ انبیاءکرام ؑ کی جنگوں کا احوال بھی دیکھ لیجئے‘ تاریخ کے جس زمانے میں تلواریں ”وار ٹیکنالوجی“ تھیں‘ انبیاءؑ نے اس دور میں تلواریں استعمال کیں‘ جب تیر ایجاد ہوا تو انہوں نے تیر استعمال کئے‘ جب گرز اور زرہیں آئیں تو انبیاءؑ نے یہ ٹیکنالوجی بھی استعمال کی‘ جہاں ہاتھی تھے انبیاءکرام ؑ نے وہاں ہاتھی استعمال کئے‘ جہاں گھوڑے تھے وہاں گھوڑے اور جہاں اونٹ تھے وہاں اونٹ میدان میں لائے گئے اور جس دور میں منجنیقیں ایجاد ہوئیں انبیاءؑ نے اس دور میں مختلف منجنیق بھی استعمال کیں لہٰذا جتنی ٹیکنالوجی آئی اس دور میں اتنی استعمال کی گئی‘ سوال‘ کیا تعداد میں کم لوگ زیادہ پر حاوی ہو سکتے ہیں؟ ہاں ہو سکتے ہیں‘ انسان کی پوری تاریخ اس کی گواہ ہے‘ آپ حضرت داﺅد ؑ کی داستان پڑھ لیں‘ حضرت موسیٰ ؑ کا واقعہ دیکھ لیجئے اور نبی اکرم کے غزوات دیکھ لیجئے‘ یہ لوگ تعداد میں کم تھے لیکن اس کے باوجود جیت گئے‘ سوال‘ کیا یہ لوگ صرف ایمانی قوت سے جیتے؟ شاید ہاں۔ یہ شاید کیوں؟ شاید اس لئے کہ تاریخ میں ایسے کافر بھی موجود ہیں جو تعداد اور وسائل میں کمی کے باوجودجیت گئے تھے اور ایسے اہل ایمان بھی ہیں جو ایمان اور دنیاوی اسباب دونوں کے باوجود ہار گئے‘ مثلاً؟ مثلاً انبیاء ؑکے ادوار میں یوروشلم کافروں کے ہاتھوں برباد ہوتا رہا‘ کافر آئے اور مقدس ترین شہر کو تاراج کر کے چلے گئے‘مثلاً مقدونیہ کے کافر شہزادے سکندر اعظم نے آدھی دنیا روند ڈالی‘ مثلاً چنگیز خان کے ساتھ چند سو لوگ تھے‘ یہ اٹھا اور دنیا کی عظیم اسلامی اور غیر اسلامی ریاستوں پر کھوپڑیوں کے مینار بنا دیئے‘مثلاً امیر تیمور کیش گاﺅں کے معمولی زمیندار کا بیٹا تھا‘ اس کے پاس دو سو جوان تھے‘ یہ ان کے ساتھ دنیا سے ٹکرا گیا اور اس نے اپنے دیکھے اور نہ ہی پرائے‘ مثلاً آپ چین اور ویتنام کی مثال لیجئے‘ چین بھی لادین ہے اور ویتنام بھی لیکن ان دونوں لادینوں نے سپر پاورز کو پسپا کر دیا چنانچہ اگر تعداد کا تعلق صرف مذہب سے ہوتا تو دنیا میں بخت نصر کامیاب ہوتا اور نہ ہی سکندر اعظم‘ چنگیز خان اور نہ ہی چین اور ویتنام‘ یہ لوگ تعداد میں بھی کم تھے اور ایمانی قوت سے بھی خالی تھے لیکن یہ اس کے باوجود بھی کامیاب ہوئے‘آپ کو اسی طرح تاریخ میں ہارنے والے اسلامی لشکر بھی مل جائیں گے‘ سوال یہ ہے‘ افغانستان کے بوریا نشینوں نے دنیا کی تین سپر پاورز کو ناک سے چنے چبوا دیئے‘ کیا یہ ان کے توکل اور ایمانی قوت کا ثبوت نہیں؟ شایدنہیں! کیونکہ اگر صرف مار کھانا‘ پچاس ساٹھ ہزار لاشیں اٹھانا‘ گوانتانا موبے کی اذیت برداشت کرنا‘ اجتماعی قبروں کا کتبہ بننا‘ تورا بورا بن جانا اور 40 لاکھ افغانوں کا 30 سال تک مہاجرکیمپوں میں پڑا رہنا کا میابی ہے تو پھر افریقہ کے ستر فیصد ممالک افغانستان کے بوریا نشینوں سے زیادہ کامیاب ہیں ‘ یہ سو سال سے ایسی کامیابیاں سمیٹ رہے ہیں ۔ سوال یہ ہے‘ متوکل کون ہے ؟