جمعرات‬‮ ، 21 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

یہ لوگ جاتی عمرہ پہنچ جائیں گے

datetime 17  مارچ‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لاہور میں فیروز پور روڈ ہے‘آپ فیروز پور روڈ پر چونگی امرسدوسے بائیں مڑیں توچند گز کے بعد عیسائی آبادی آ جاتی ہے‘ یہ آبادی یوحنا آباد کہلاتی ہے‘

یہاں لاکھ سے زائد عیسائی آباد ہیں‘ یہ پنجاب میں عیسائیوں کی سب سے بڑی بستی ہے‘ یوحنا آباد میں سات چرچ ہیں‘ اتوار کی صبح ان چرچوں میں سروس ہوتی ہے‘ حکومت نے ملک میں دہشت گردی بالخصوص 22ستمبر 2013ءکو پشاور چرچ پر حملے کے بعد یوحنا آباد کے چرچوں پر پولیس تعینات کر دی‘ اتوار 15 مارچ کی صبح کیتھولک چرچ اور کرائسٹ چرچ میں عبادت جاری تھی‘ دعا شروع ہوئی تو پولیس اہلکاروں نے ایک مشکوک شخص کو کیتھولک چرچ کے گیٹ کی طرف بڑھتے دیکھا‘ عیسائی نوجوان آکاش کو بھی وہ شخص مشکوک لگا‘ آکاش نے نوجوان کو روک لیا‘ پولیس اہلکاروں نے مشکوک نوجوان سے پوچھ گچھ شروع کر دی‘ نوجوان چرچ کے اندر داخل ہونا چاہتا تھا‘ اہلکاروں اور آکاش نے اجازت نہ دی تو اس نے خودکش جیکٹ کا لیور کھینچ دیا‘ دھماکہ ہوااور پولیس ہیڈ کانسٹیبل راشد منہاس اور آکاش حملہ آور کے ساتھ زندگی کی سرحد پار کر گئے جبکہ تین پولیس اہلکار زخمی ہو گئے‘ یہ دھماکہ ابھی کانوں میں گونج رہا تھا کہ کیتھولک چرچ سے سوا سو میٹر کے فاصلے پر واقع کرائسٹ چرچ کے اندر بھی دھماکہ ہو گیا‘ اب ہر طرف لاشیں‘ز خمی اور دھواں تھا‘ پولیس کو اطلاع ہوئی‘ پولیس کے دستے‘ ایمبولینسز اور بم ڈسپوزل سکواڈ موقع واردات کی طرف دوڑ پڑے‘ یہ انتہائی افسوس ناک واقعہ تھا‘ پاکستانی شہریوں کی جان اور مال کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے‘ ہماری ریاست کو چرچ کے دروازے پر ہونا چاہیے تھا‘ پورا ملک‘ پورے ملک کے تمام شہر ریاست کی نظر میں ہونے چاہیے تھے‘ دہشت گرد جب بھی دہشت گردی کا منصوبہ بنائیں یہ زیادہ دیر تک اپنا منصوبہ ریاست سے پوشیدہ نہ رکھ سکیں‘ یہ جب بھی اپنی پناہ گاہ سے باہر آئیں‘ یہ ریاست سے بچ نہ سکیں‘ ملک میں کتنے لوگ رہتے ہیں‘ ہمارے ملک میں روزانہ کتنے بچے پیدا ہوتے ہیں‘ لوگ کہاں سے کہاں جا رہے ہیں‘ ملک سے باہر کون جا رہا ہے اور ملک میں واپس کون آ رہا ہے‘ کس نے کس وقت اپنا ایڈریس تبدیل کیا اور کون کتنے دنوں سے غائب ہے‘ یہ تمام معلومات ریاست کے پاس ہونی چاہئیں لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو رہا‘ ہمارے ملک میں اٹھارہ کروڑ لوگ رہتے ہیں لیکن نادرا کے پاس صرف بارہ کروڑ 76 لاکھ شہریوںکا ڈیٹا موجود ہے‘ باقی پانچ کروڑ لوگ کون ہیں اور یہ کہاں کہاں رہتے ہیں‘ ہماری ریاست نہیں جانتی‘ ہمارے ملک میں کون کب پیدا ہوا؟ یہ کہاں رہتا ہے‘ یہ کیا کرتا ہے اور یہ کہاں کہاں جا اور آ رہا ہے‘ ریاست اس سے بھی بے خبر ہے لہٰذا جی ایچ کیو پر حملہ ہو‘مہران بیس پر یلغار ہو‘ پی اے ایف کامرہ کا واقعہ ہو‘ پریڈ لین مسجد کا سانحہ ہو‘ آئی ایس آئی‘ آئی بی اور سپیشل برانچز کے دفاتر پر حملے ہوں یا پھر آرمی پبلک سکول‘ پشاور چرچ اور لاہور چرچ کے واقعات ہوں‘ ریاست کو اس وقت تک سانحے کا علم نہیں ہوتا جب تک تاحد نظر لاشیں نہیں بکھر جاتیں ‘ یہ ہے ہماری ریاست۔ ریاست کو 15 مارچ کو چرچز کے گیٹس پر ہونا چاہیے تھا لیکن یہ وہاں نہیں تھی ۔

یوحنا آباد کے چرچز پر حملوں کے بعد چار خوفناک واقعات پیش آئے‘ ان چار واقعات نے ریاست کی باقی قلعی بھی کھول دی‘ خود کش حملوں کے بعد علاقے میں مظاہرے شروع ہو گئے‘ یوحنا آباد کے شہریوں نے پولیس‘ ریسکیو ورکرز‘ بم ڈسپوزل سکواڈ اور ایمبولینسز کے راستے روک دیئے اور یوں سرکاری ادارے ریسکیو ورک نہ کر سکے‘ یہ پہلا واقعہ تھا‘ دوسرا واقعہ پولیس اہلکار تھے‘ مشتعل نوجوانوں نے تین زخمی پولیس اہلکاروں کو پکڑ لیا‘ پولیس اہلکاروں کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا‘ یہ اہلکار جب بے حال ہو گئے تو انہیں اندر بند کر دیا گیا‘ یہ اہلکار تین گھنٹے بند رہے‘ مظاہرین نے ان کی مرہم پٹی تک کی اجازت نہ دی‘ تیسرا واقعہ‘ ہجوم نے وہاں سے دو مشکوک لوگ پکڑ لئے اور یہ انہیں ڈنڈے‘ جوتے اور ٹھڈے مارنے لگے‘ یہ لوگ جب نیم مردہ ہو گئے تو ہجوم انہیں پاﺅں اور بالوں سے پکڑ کر سڑکوں پر گھسیٹنے لگا‘ پولیس نے یہ لوگ ہجوم سے چھڑا لئے لیکن لوگ انہیں دوبارہ پولیس سے لے گئے‘ یہ انہیں فیروز پور روڈ پر لے کر آئے‘

انہیں ایک دوسرے کے اوپر رکھا‘ تیل چھڑکا اور انہیں آگ لگا دی‘ یہ لوگ اس وقت تک آگ پر تیل چھڑکتے رہے جب تک یہ دونوں لوگ جل کر راکھ نہ بن گئے‘ یہ دونوں لاشیں چھ گھنٹے جلتی رہیں لیکن ریاست ان لوگوں کو بچا سکی اور نہ ہی لاشیں اٹھا سکی‘ یہ درندگی چھ گھنٹے جاری رہی‘ لوگ موبائل سے فلمیں بناتے رہے مگر ریاست آگے نے بڑھ سکی‘ مشتعل نوجوان15 اور 16 مارچ کو راہگیروں کو بھی نشانہ بناتے رہے‘ یہ عام شہریوں کی گاڑیاں بھی توڑتے رہے‘ یہ باریش لوگوں کوبھی پکڑ کر مارتے رہے‘ یہ زخمیوں کو سڑکوں پر بھی گھسیٹتے رہے اور یہ مسجدوں پر حملوں کےلئے آگے بڑھے لیکن ریاست یہ حملے بھی نہ روک سکی‘ چوتھا واقعہ‘ مظاہرین فیروز پور روڈ پر آئے اور انہوں نے میٹرو بس سٹیشنوں پر حملے شروع کر دیئے‘ سٹیشن توڑ دیئے گئے‘

جنگلوں کو شدید نقصان پہنچایا گیا‘ کمپیوٹر‘ کیمرے اور سٹیشن کے شیشے بھی توڑ دیئے گئے‘ کھمبے گرا دیئے گئے‘ کیش کاﺅنٹر لوٹ لیا گیا اور بسوں پر ڈنڈے برسائے گئے‘ ان حملوں کے بعد میٹرو بند ہو گئی چنانچہ ریاست میٹرو کی حفاظت بھی نہ کر سکی‘ قوم میٹرو سٹیشنز کے ٹوٹنے کا لائیو نظارہ کرتی رہی لیکن ریاست دبک کر بیٹھی رہی‘ یہ چار واقعات کیا ثابت کرتے ہیں؟ کیا یہ ثابت نہیں کرتے ملک میں ریاست غائب ہو چکی ہے‘ کیا یہ حقیقت نہیں ریاست کو بم دھماکوں کے بعد وہاں موجود ہونا چاہیے تھا لیکن ریاست وہاں نہیں تھی‘ ریاست کو کسی شخص کو ایمبولینس روکنے‘ بم ڈسپوزل سکواڈ اور پولیس کا راستہ بند کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے تھی لیکن ریاست یہ بھی نہ کر سکی اور جب ریاست اور عوام آمنے سامنے ہو جائیں تو ریاست کو پاﺅں پر کھڑا نظر آنا چاہیے لیکن ہماری ریاست پسپا ہو گئی اور جب ریاست عوام کے سامنے پسپا ہو جائے تو پھر ریاست کی رٹ ختم ہو جاتی ہے اور 15 مارچ کو یہ رٹ ختم ہوئی۔
آپ کیلنڈر سامنے رکھئے‘ پندرہ مارچ کے بعد ورق الٹیے تو آپ کے سامنے سولہ مارچ آئے گا‘ہماری ریاست اگر 15 مارچ کو سامنے نہیں آئی تو اسے کم از کم سولہ مارچ کو ضرور نظر آنا چاہیے تھا‘ ریاست کو 16 مارچ کو خودکش حملہ آوروں تک ضرور پہنچنا چاہیے تھا‘ یہ کون تھے؟ یہ کہاں سے آئے؟ یہ چرچوں تک کیسے پہنچے‘ ان کے ہینڈلرز کون تھے اور لاہور میں ان کا کون کون سا ساتھی چھپا بیٹھا ہے لیکن ریاست ایسا نہ کر سکی‘ ریاست کو ان تمام لوگوں کو بھی گرفتار کرنا چاہیے تھا جنہوں نے ایمبولینس‘ بم ڈسپوزل سکواڈ اور پولیس کا راستہ روکا‘ جنہوں نے سرکاری اداروں کو کام نہیں کرنے دیا اور جو مشتعل لوگوں کو مسجدوں پر حملوں کی ترغیب دے رہے تھے‘ ریاست کو پولیس اہلکاروں پر تشدد کرنے اور زخمی اہلکاروں کو بند کرنے والوں کے خلاف بھی تادیبی کارروائی کرنی چاہیے تھی‘ یہ لوگ بھی گرفتار ہونے چاہیے تھے‘ ریاست کو ان لوگوں کو بھی گر فتار کر کے عدالت کے سامنے پیش کرنا چاہیے تھا جنہوں نے دو لوگوں پر تشدد کیا‘ انہیں سڑکوں پر گھسیٹا اورانہیں آگ لگا کر راکھ کر دیا‘ دنیا کا کوئی قانون کسی شخص کو اس ظلم کی اجازت نہیں دیتا‘ ریاست کو ظلم کرنے والے ان لوگوں کو بھی گرفتار کرنا چاہیے تھا اور ریاست کو میٹرو سٹیشنز پر حملے کرنے والوں‘ شیشے توڑنے والوں‘ کیش کاﺅنٹر لوٹنے والوں اور سرکاری اور غیر سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے والوں کو بھی گرفتار کرنا چاہیے تھا لیکن آپ بدنصیبی دیکھئے ریاست سولہ مارچ کو بھی کسی جگہ نظر نہیں آئی‘ آپ ملاحظہ کیجئے‘ ریاست چودہ تاریخ کو اس وقت بھی موجود نہیں تھی جب دہشت گرد چرچ پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے‘ ریاست 15 مارچ کو اس وقت بھی نہیں تھی جب متاثرہ فریق مظلومیت کی آڑ میں ظالم بن رہا تھا اور ریاست سولہ اور سترہ مارچ کو اس وقت بھی نہیں تھی جب عیسائی پاکستانی پورے ملک میں لاہور کی تاریخ دہرا رہے تھے‘ آپ کو 15 اور 16 مارچ میں کوئی فرق نظر نہیں آئے گا۔ سوال یہ ہے ”ریاست کہاں ہے“ کیا یہ صرف اس وقت موجود ہوتی ہے جب حکمرانوں کی انا کی تسکین کےلئے ماڈل ٹاﺅن میں 14 لوگوں کو گولی مارنا ہوتی ہے یا صدر صاحب کے قافلے کے راستے میں کھڑے نابینا ﺅں کو ہٹانا ہوتا ہے یا پھر حکمرانوں کی آمد ورفت کے دوران سرکار کو سیلوٹ کرنا ہوتے ہیں! ”ریاست کہاں ہے“ اور یہ ریاست 15 مارچ جیسے حالات میں کہاں چلی جاتی ہے؟ قوم کل سے اس کا جواب تلاش کر رہی ہے!۔
میری حکومت سے درخواست ہے آپ چودہ‘ پندرہ اور سولہ مارچ کو ماڈل بنائیں اور ان تین تاریخوں کو سامنے رکھ کر ملک کے نظام میں اصلاح کر لیں‘ آپ فیصلہ کریں 2015ءمیں کوئی شخص ریاست سے پوشیدہ نہیں رہے گا‘ ملک کے تمام لوگوں کو نادرا کے سسٹم میں لائیں گے‘ بچے کے شناختی کاغذات پیدائش سے پہلے بنیں گے‘ والدین پیدائش سے قبل بچے کا نام بھی رکھیں گے اور یہ بچے کو نادرا میں رجسٹر بھی کرائیں گے‘ شناختی کارڈ کے بغیر کوئی شخص سفر نہیں کر سکے گا‘ بس‘ ریل اور ہوائی جہاز کے سفر کےلئے شناختی کارڈ سکین ہوں گے‘ موٹروے اور ہائی ویز کے ٹول پلازوں پر بھی شناختی کارڈ سکین کئے جائیں گے‘ ہوٹلوں میں بھی شناختی کارڈ سکین ہوں گے‘ ملک کے تمام شہروں میں کیمرے لگائے جائیں گے‘ مسجدوں‘ امام بارگاہوں‘ سکولوں اور چرچز کے گرد ونواح میں بھی کیمرے نصب کئے جائیں گے‘ محلے کے لوگ محلے کی مسجد میں نماز ادا کریں گے تاکہ مشکوک لوگوں کی شناخت ہو سکے‘ مسجد کے گیٹ اور ہال میں فاصلہ ہو گا تا کہ مشکوک شخص کو ہال سے دور روکا جا سکے‘ حکومت یہ فیصلہ کر لے ملک کے کسی بھی حصے میں بم دھماکے کے بعد اس علاقے میں کرفیو لگا دیا جائے گا‘ وہ پورا علاقہ فوج کے حوالے کر دیا جائے گا‘ لواحقین کو کرائم سین سے دور رکھا جائے گا‘ پولیس‘ بم ڈسپوزل اور میڈیکل سٹاف کام کرے گا اور یہ لوگ جب کام ختم کر لیں تو کرفیو اٹھا لیا جائے گا‘ سرکاری اور غیر سرکاری املاک پر حملہ کرنے والوں کےلئے قانون سخت کر دیا جائے گا‘ یہ لوگ قید بھی بھگتیں گے اور نقصان بھی جرمانے کے ساتھ پورا کیا جائے گا‘ ملزم اگر یہ نقصان پورا نہ کر سکے تو اسے قید بامشقت دی جائے گی اور جب تک نقصان پورا نہ ہو یہ جیل میں رہے گا اور بم دھماکوں کے بعد میڈیا کو کیسے کوریج کرنی چاہیے‘ حکومت کو یہ فارمولہ بھی بنانا چاہیے‘ ہمارا میڈیا بھی عوام کے اندر اضطراب بڑھا رہا ہے‘ لوگ ٹیلی ویژن دیکھ کر بھی فرسٹریٹ ہو رہے ہیں‘ ہمیں یہ فارمولہ بھی بنانا ہو گا۔
آپ یقین کریں 15 مارچ کو ہلکی سول نافرمانی تھی‘ ہم نے اگر اب فیصلہ نہ کیا تو یہ ہلکی سول نافرمانی مکمل سول نافرمانی میں تبدیل ہو جائے گی اور پھر لوگوں کو فیروز پور روڈ سے رائے ونڈ جاتے دیر نہیں لگے گی‘یہ لوگ جاتی عمرہ پہنچ جائیں گے اور یہ اگر وہاں پہنچ گئے‘ تو آپ کیا کریں گے؟ آپ سوچئے اور فیصلہ کیجئے کیونکہ فیصلے کی گھڑی آ چکی ہے۔



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…