”میں بھگوان بول رہا ہوں“ آواز گھمبیر تھی‘ میں چند لمحوں کےلئے سکتے میں آ گیا‘ وہ میری خاموشی سمجھ گئے‘ فون سے لمبے سانس کی آواز آئی اور پھر بولے ” جاوید صاحب آپ شاید پریشان ہیں“ میں نے عرض کیا ”جناب جب کسی مسلمان کو بھگوان کا فون آئے گا تو کیا وہ پریشان نہیں ہو گا“ دوسری طرف طویل قہقہہ بلند ہوا اور اس کے ساتھ ہی رانا بھگوان داس سے ایک دائمی تعلق پیدا ہو گیا۔
رانا بھگوان داس 2000 ءمیں سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج مقرر ہوئے‘ وہ اسلام آباد شفٹ ہوئے اورچند دن بعد مجھے فون کر دیا‘ وہ ملاقات کےلئے آنا چاہتے تھے‘ میں نے عرض کیا ”میں آپ کے پاس خود حاضر ہوں گا“ وہ نہ مانے‘ وہ مسلسل اصرار کرتے رہے مگر میں ضد میں آ گیا چنانچہ رانا صاحب نے رات کھانے پر بلا لیا‘ محی الدین وانی اس وقت اسلام آباد میں اے سی تھے‘ یہ سکھر میں رانا بھگوان داس سے متعارف ہوئے تھے‘ رانا صاحب سندھ ہائی کورٹ کے جج تھے‘ یہ سکھر بینچ کا حصہ تھے اور یہ اکثر کیسوں کی سماعت کےلئے سکھر جاتے رہتے تھے ‘ محی الدین وانی اسلام آباد سے قبل سکھر میں اے سی تعینات رہے‘ یہ مختلف مقدموں میں رانا بھگوان داس کی عدالت میں حاضر ہوتے رہتے تھے‘ یہ حاضریاں دوستی میں تبدیل ہو گئیں‘ محی الدین وانی میرے بھی دوست تھے‘ یہ دفتر سے سیدھے میرے پاس آ جاتے تھے اور ہم لمبی واک کےلئے راول ڈیم چلے جاتے تھے‘ میں نے وانی صاحب کو رانا صاحب کے فون کے بارے میں بتایا‘ وانی نے انکشاف کیا ”رانا صاحب کو آپ کا فون نمبر میں نے دیا تھا“ ہم واک کے بعد رانا صاحب کے گھر چلے گئے‘ رانا صاحب سے ملاقات ہوئی اور وہ ملاقات دوستی میں بدل گئی اور یہ دوستی 23 فروری کو رانا صاحب کے انتقال تک جاری رہی‘ رانا صاحب کے ساتھ دوستی کی تین وجوہات تھیں‘ پہلی وجہ رانا بھگوان داس کی سادگی تھی‘ میں نے زندگی میں ان سے زیادہ سادہ شخص نہیں دیکھا‘ وہ درمیانے درجے کے سادہ کپڑے پہنتے تھے‘ جوتوں کے تلوے گھسے ہوتے تھے‘ کراچی سے نمکو اور پاپڑ لے کر آتے تھے اور یہ پاپڑ اور نمکو ہر ملاقاتی کو پیش کئے جاتے تھے‘ وہ ڈرائنگ روم میں آ کر خود اے سی چلاتے تھے اور اٹھتے وقت اپنے ہاتھ سے اے سی کا سوئچ آف کرتے تھے‘ فالتو بتیاں بجھاتے تھے‘ کھانا انتہائی سادہ بلکہ بے ذائقہ کھاتے تھے‘ ہندو تھے لیکن دوسروں کے نماز روزے کا بہت خیال رکھتے تھے‘ سٹاف کو نماز کے وقت تکلیف نہیں دیتے تھے‘ گھر میں لیمن گراس اگاتے تھے اور اس لیمن گراس کا قہوہ بنا کر خود بھی پیتے تھے اور دوسروں کو بھی پلاتے تھے اور اپنی تنخواہ کو اپنے اور اپنے خاندان کےلئے کافی سمجھتے تھے‘ ہماری دوستی کی دوسری وجہ رانا صاحب کی ایمانداری اور بہادری تھی‘ یہ دیانتدار بھی تھے اور بے خوف بھی۔ آپ انہیں خرید سکتے تھے اور نہ ہی دبا سکتے تھے‘وہ سفارش سنتے ضرور تھے مگر سننے کے بعد قہقہہ لگاتے تھے اور سفارش مسترد کر دیتے تھے‘ میں چار بڑی سفارشوں کا عینی شاہد ہوں‘ جنرل پرویز مشرف نے 9 مارچ 2007ءکو چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو معزول کر دیا‘ رانا بھگوان داس چودھری صاحب کے بعد سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج تھے‘ یہ چودھری صاحب کے بعدقائم مقام چیف جسٹس یا چیف جسٹس تھے مگر یہ اس وقت بھارت میں چھٹیوں پر تھے‘ رانا صاحب کی غیر موجودگی میں جسٹس جاوید اقبال قائم مقام چیف جسٹس بن گئے‘ جنرل پرویز مشرف اور شوکت عزیز نے افتخار محمد چودھری کو ہٹانے کےلئے جان بوجھ کر ایسے وقت کا انتخاب کیا تھا جب رانا بھگوان داس ملک میں نہیں تھے‘ حکومت جانتی تھی اگر رانا صاحب چیف جسٹس بن گئے تو یہ حکومتی فیصلوں کی توثیق نہیں کریں گے چنانچہ چودھری صاحب کو عین اس وقت ہٹایا گیا جب رانا صاحب ملک میں نہیں تھے‘ حکومت چاہتی تھی رانا صاحب اپنی چھٹیوں میں توسیع کر لیں‘ یہ اس وقت تک پاکستان نہ آئیں جب تک جوڈیشل کمیشن افتخار محمد چودھری کے خلاف فیصلہ نہیں دے دیتا‘ حکومت کے اس وقت کے دو سینئر عہدیدار میرے پاس آئے اور میرے ذریعے بھارت میں رانا بھگوان داس سے ٹیلی فون پر بات کی‘میں نے فون ملایا‘ رانا صاحب کو سلام کیا اور فون اس سینئر عہدیدار کے ہاتھ میں پکڑا دیا‘ عہدیدار نے رانا صاحب سے درخواست کی ”ملک کے حالات ٹھیک نہیں ہیں‘ ہم آپ کو کنٹروورسی سے بچانا چاہتے ہیں‘ ہمارا مشورہ ہے آپ اپنی چھٹیوں میں توسیع کر لیں“ رانا صاحب نے قہقہہ لگایا اور صاف انکار کر دیا‘ ان کا کہنا تھا” میں اپنے شیڈول کے مطابق پاکستان آﺅں گا‘ نہ ایک دن پہلے اور نہ ایک دن بعد اور آپ لوگ مجھے دوبارہ فون بھی نہ کیجئے گا“ رانا صاحب نے اس کے بعد فون بند کر دیا‘ یہ پیغام رانا صاحب کو بعد ازاں بھارت میں پاکستانی ہائی کمیشن کے ذریعے بھی دیا گیا‘ فوج کے تین اعلیٰ عہدیدار کراچی میں رانا صاحب کے گھر بھی گئے‘ وہاں رانا صاحب کی ان کی اہلیہ‘ صاحبزادی اور بھائی سے بات کرائی گئی‘ خاندان نے بھی انہیں پاکستان آنے سے روکا لیکن یہ نہ مانے اور 23 مارچ کو پاکستان پہنچ گئے‘24 مارچ کو چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالا اور وہ کارنامہ سرانجام دیا جو آج تاریخ کا حصہ بن چکا ہے‘ دوسرا واقعہ ڈی جی آئی ایس آئی کا فون تھا‘ لیفٹیننٹ جنرل اشفاق پرویز کیانی مارچ 2007ءمیں ڈی جی آئی ایس آئی تھے‘ میں رانا بھگوان داس کے ساتھ بیٹھا تھا‘ جنرل کیانی کا فون آ گیا لیکن رانا صاحب نے فون سننے سے انکار کر دیا‘ سپریم کورٹ کا سٹاف رانا صاحب کی رہائش گاہ پر پہنچ گیا‘ یہ لوگ اصرار کر رہے تھے‘ آپ اپنی مرضی کریں لیکن آپ بس فون سن لیں لیکن رانا صاحب کا جواب تھا ” میں فون کیوں سنوں‘ اگر کوئی سرکاری معاملہ ہے تو ڈی جی رجسٹرار سے رابطہ کرے اور اگر معاملہ غیر سرکاری ہے تو چیف جسٹس کو کسی سرکاری عہدیدار کا غیر سرکاری فون نہیں سننا چاہیے“ یہ سلسلہ گھنٹہ بھر چلتا رہا یہاں تک کہ جنرل کیانی کا سٹاف آفیسر بھی وہاں پہنچ گیا مگر رانا صاحب نہ مانے‘ وہ اٹھے اور سونے کےلئے بیڈروم میں چلے گئے‘ آپ تیسرا واقعہ بھی ملاحظہ کیجئے‘ حکومت چاہتی تھی رانا بھگوان داس افتخار محمد چودھری کی معطلی کا جائزہ لینے کےلئے بینچ نہ بنائیں‘ رانا صاحب کے ایک استاد کو سندھ سے اسلام آباد لایا گیا‘ استاد رانا صاحب کے گھر تشریف لائے‘ شاگرد نے استاد کو کھانا کھلایا‘ اطمینان سے پوری بات سنی‘ جھک کر دروازے پر رخصت کیا‘ واپس آئے اور اسی وقت 13 رکنی فل کورٹ بینچ بنا دیا‘ وہ استاد کی سفارش بھی ٹال گئے اور چوتھا واقعہ سپریم کورٹ کے دو جج میاں نواز شریف کیس کے بینچ کا حصہ بننا چاہتے تھے‘ دونوں ججوں نے پورا زور لگایا مگر رانا صاحب نے انکار کر دیا اور یہ بھی ذہن میں رکھیں وہ میاں برادران بالخصوص میاں شہباز شریف کو بہت پسند کرتے تھے‘ وہ دل سے چاہتے تھے میاں شہباز شریف ملک میں واپس آئیں اور وزیراعظم بنیں لیکن اپنی پسندیدگی کے باوجود ان ججوں کو بینچ کا حصہ نہیں بننے دیا جو میاں برادران کےلئے سافٹ کارنر رکھتے تھے‘ وہ جج بعد ازاں افتخار محمد چودھری کے منظور نظر بنے اور وہ ان تمام بینچوں کا حصہ رہے جنہوں نے بڑے سیاسی فیصلے کئے۔
میرے رانا بھگوان داس سے تعلق کی چوتھی وجہ ان کی سفر کی شدید خواہش تھی‘ وہ ذہنی لحاظ سے سیاح تھے لیکن قدرت نے انہیں سفر کے زیادہ مواقع نہیں دیئے‘ وہ زندگی بھر سماجی‘ خاندانی اور ملازمتی ایشوز میں الجھے رہے لہٰذا وہ اتنے سفر نہیں کر سکے جتنے وہ کرنا چاہتے تھے‘ میں اس معاملے میں خوش نصیب ہوں میں مجبوریوں کے باوجود چل پڑتا ہوں‘ رانا صاحب کو میری یہ بے وقوفی اچھی لگتی تھی‘ وہ مجھے بلاتے تھے‘ ملکوں کے نام لیتے تھے اور میں انہیں ان ملکوں اور شہروں کے قصے سناتا تھا‘ وہ خوش ہو جاتے تھے‘ ہمیں ایک بار اکٹھے سفر کرنے کا موقع بھی ملا‘ میں انہیں پیرس‘ میلان‘ قرطبہ اور غرناطہ لے کر گیا‘ وہ سفر یاد گار تھا‘ رانا صاحب ہر منظر‘ ہر چیز کو بچوں جیسی حیرت سے دیکھتے تھے‘ ہم قرطبہ کی مسجد میں گئے تو رانا صاحب نے میرے کان میں سرگوشی کی ”آپ ستون کے پیچھے چھپ کر دو نفل پڑھ لو“ میں نے جواب دیا ”جناب بھگوان صاحب یہ مسجدنہیں یہ میوزیم ہے‘ یہاں نماز پڑھنا جرم ہے“ وہ ہنسے اور سرگوشی میں کہا ” دنیا کی کوئی مسجد ایک بار مسجد بن جائے تو وہ قیامت تک مسجد رہتی ہے‘ میں پولیس والوں پر نظر رکھتا ہوں‘ آپ نفل پڑھ لو“ میں نے بہانہ بنایا ” میرا وضو نہیں“کہا ” بھاگ کر واش روم جاﺅ اور وضو کر آﺅ“ میں بھاگ کر واش روم گیا‘ چھپ کر وضو کیا اور مسجد میں واپس آ گیا‘ مسجد میں چاروں اطراف کیمرے لگے تھے‘ میں ایک ستون کے پیچھے کھڑا ہوا‘ جوتے اتارے اور نماز شروع کر دی‘ رانا صاحب نے میری حفاظت کی ذمہ داری اٹھا لی‘ میں نماز کے دوران یہ سوچتا رہا ” یہ کیسا بھگوان ہے جو ایک بھٹکے ہوئے مسلمان کو متروک مسجد میں سجدہ یاد کرا رہا ہے“ میں نے سلام پھیرا‘ رانا صاحب کی طرف دیکھا‘ وہ مسکرا رہے تھے۔میں نے عرض کیا ” جناب آپ کیسے بھگوان ہیں“ وہ ہنس کر بولے ” بھگوان اگر دوست ہوں تو بڑے فائدے ہوتے ہیں“۔میاں نواز شریف رانا بھگوان داس کو صدر بنانا چاہتے تھے‘ میاں صاحب نے اپنی اس خواہش کا اظہار سینیٹر پرویز رشید سے بھی کیا تھا‘ میاں صاحب آئین کی وجہ سے یہ نیک کام نہ کر سکے‘ہمارا آئین کسی غیر مسلم کو وزیراعظم اور صدر بنانے کی اجازت نہیں دیتا‘ ہمیں یہ آئین بدلنا ہو گا‘ ہمیں پاکستان کے ہر شہری کو مذہب‘ فرقے اور نسل سے بالاتر ہو کر یکساں مواقع دینا ہوں گے‘ ہم نے اگر یہ نہ کیا تو پاکستان رانا بھگوان داس جیسے بے شمار ایسے پاکستانیوں سے محروم ہو رہ جائے گا جو دیانتداری‘ محنت اور بہادری میں نوے فیصد مسلمانوں سے بہتر ہیں‘آپ کو شاید یاد ہو گا رانا بھگوان داس جب 2007ءمیںبھارت میں تھے تو سوشل میڈیا پر اس وقت یہ فقرہ گردش کر رہا تھا ” اسلام کے نام پر بننے والے ملک کے اٹھارہ کروڑ مسلمان آج انصاف کےلئے بھگوان کا انتظار کر رہے ہیں“ یہ فقرہ رانا صاحب کی شخصیت اور خدمات دونوں کےلئے شاندار ٹریبیوٹ تھا‘ وہ واقعی ملک میں انصاف‘ میرٹ اور حق گوئی کے بھگوان تھے۔
رانا بھگوان داس 23 فروری2015ء کو کراچی میں آنجہانی ہو گئے مگر ان کی خدمات ہمیشہ زندہ رہیں گی‘ میری سپریم کورٹ کی انتظامیہ سے درخواست ہے آپ سپریم کورٹ کے ہر جج کے کمرے میں رانا بھگوان داس کی تصویر لگوا دیں تا کہ ہمارے جج جب بھی دباﺅ یا ترغیب میں آنے لگےں تو یہ ایک رانا صاحب کی تصویر دیکھیں اور پھر اپنے آپ سے پوچھےں ”بھگوان داس اپنے بھگوان کے سامنے سرخرو ہو گئے لیکن میں اپنے اللہ کو کیا منہ دکھاﺅں گا“۔ مجھے یقین ہے یہ سوال ہمارے مسلمان ججوں کو بھگوان بنا دے گا‘ رانابھگوان داس۔