وہ دونوں گزر گئے اور ڈی آئی جی صاحب بچ گئے۔رانا یوسف گزرنے والوں میں شامل تھا‘ یہ سب انسپکٹر تھا‘ تھانہ شاہدرہ کی چوکی بیگم کوٹ میں تعینات تھا‘ معطل ہوا‘ پولیس لائین بھجوا دیا گیا‘ یہ 17 فروری کو پہلے دن نوکری پر پہنچا‘ قلعہ گوجر سنگھ پولیس لائین کے سامنے خود کش حملہ ہوا اور رانا یوسف زندگی کی سرحد پار کرگیا‘ وہ چلا گیا لیکن اس کی چھ بیٹیاں اور ایک بیٹا پیچھے رہ گیا‘ محمد وقار دوسرا شکار تھا‘ یہ الیکٹریشن تھا‘ یہ اپنے بیٹے حسیب کو ملازمت دلانے پولیس لائین آیا‘ یہ باہر نکلا تو خودکش حملہ ہو گیا‘ محمد وقار بھی اپنی تمام ناآسودہ آرزوؤں کے ساتھ دنیا سے رخصت ہو گیا‘ یہ بھی چار بیٹیاں‘ دو بیٹے اور ایک مرلے کا مکان پیچھے چھوڑ گیا‘ ڈی آئی جی آپریشنز ڈاکٹر حیدر اشرف بھی ٹارگٹ ہو سکتے تھے‘ یہ میٹنگ کیلئے قلعہ گوجر سنگھ آئے‘ میٹنگ ختم ہوئی‘ یہ لائین سے نکلنے لگے تو اچانک رکے اور ایس پی ہیڈ کوارٹر کو ہدایات دینے لگے‘ یہ ایک منٹ کی تاخیر ان کی خوش نصیبی ثابت ہوئی‘ ان کے باہر نکلنے سے قبل خودکش حملہ ہو گیا‘ ڈاکٹر حیدر اشرف اگر ایک منٹ پہلے باہر آ جاتے تو یہ بھی بدنصیبوں میں شامل ہوتے لیکن یہ بچ گئے۔
ہم روزانہ 160 مرتبہ موت کے قریب سے گزرتے ہیں‘ ہم گاڑی میں سفر کرتے ہیں تو ہمارے دائیں بائیں آگے پیچھے موت بھی رواں دواں ہوتی ہے‘ ہمارے دائیں بائیں موجود گاڑیاں کسی بھی وقت ہم سے ٹکرا سکتی ہیں‘ آپ ایک لمحے کیلئے سوچئے دائیں جانب چلنے والی گاڑی‘ ہمارے پیچھے موجود گاڑی یا ہمارے آگے رواں دواں ٹرک کے ڈرائیور کو چھینک آ جائے‘ ڈرائیور کے دماغ کا الیکٹرک سرکٹ شارٹ ہو جائے‘ یہ اچانک دل پر دباؤ محسوس کرے یا پھر یہ اچانک خودکش حملہ آور بننے کا فیصلہ کر لے تو ہمارا کیا بنے گا؟ ہم جس سڑک پر چل رہے ہیں‘ یہ اچانک بیٹھ جائے‘ ہم جس پل سے گزر رہے ہیں‘ یہ ٹوٹ جائے‘ ہماری گاڑی پر بجلی کا کھمبا گر جائے‘ ہمیں چھینک آ جائے یا ہمارے ڈرائیور کو دوران ڈرائیونگ ہارٹ اٹیک ہو جائے‘ ہم جس عمارت میں بیٹھے ہیں وہ نیچے آ جائے‘ دفتر کی چھت گر جائے‘ ہم اپنے بیڈ پر آرام سے سو رہے ہوں‘ زلزلہ آئے اور ہمارا مکان ہمارا مقبرہ بن جائے‘ ہماری سانس کی نالی میں پانی پھنس جائے‘ ہماری خوراک میں وائرس آ جائے اور ہم قے کرتے کرتے دنیا سے گزر جائیں‘ ہم تمام انسان ساڑھے چار ہزار بیماریاں ساتھ لے کر پیدا ہوتے ہیں‘ یہ بیماریاں کسی بھی وقت ’’ایکٹویٹ‘‘ ہو سکتی ہیں‘ ہمارا پتہ کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے‘ ہمارے گردے‘ ہمارے پھیپھڑے‘ ہمارا دماغ‘ ہمارا دل اور ہمارا اعصابی نظام کسی بھی وقت جواب دے سکتا ہے‘ ہماری سانس کسی بھی وقت رک سکتی ہے اور کچھ بھی نہ ہو تو ہم کسی بھی وقت‘ کسی بھی خودکش حملہ آور کا نشانہ بن سکتے ہیں‘ بالکل اس طرح جس طرح سب انسپکٹر رانا یوسف اور الیکٹریشن محمد وقار بن گئے یا پھر راہ گیر محمد عباس بن گیا یا پھر کانسٹیبل احمد بن گیا یا پھر وہ نامعلوم شخص بن گیا جو 17 فروری 2015ء کو قلعہ گوجر سنگھ پولیس لائین کے سامنے سے گزر رہا تھا‘ خودکش حملہ ہوااور وہ بھی جان سے گزر گیا اور ریاست دو دن گزرنے کے باوجود اس بے گناہ کا نام تک معلوم نہ کر سکی‘ یہ کون تھا‘ وہ کہاں سے آیا اور وہ کیوں مر گیا‘ کوئی نہیں جانتا‘ موت روزانہ ڈاکٹر حیدر اشرف‘ محمد وقار اور رانا یوسف کی طرح 160 مرتبہ ہمارے قریب سے گزرتی ہے‘ہم میں سے کچھ لوگ روزانہ محمد وقار اور رانا یوسف بن جاتے ہیں اور کچھ ڈاکٹر حیدر اشرف۔ ہم میں سے کچھ لوگ حیدر اشرف کیوں بنتے ہیں؟ اس لئے کہ موت ان پر توجہ نہیں دیتی اور یہ روزانہ بچ کر گھر واپس آ جاتے ہیں‘ ہم روز اپنے بستر پر سوتے ہیں اور صبح صحیح سلامت اٹھ جاتے ہیں اور یہ بھی بھول جاتے ہیں ہمارے اوپر پوری رات موت منڈلاتی رہی ‘ ہم روز یہ بھی بھول جاتے ہیں‘ ہم میں اور محمد وقار اور سب انسپکٹر رانا یوسف میں کوئی فرق نہیں تھا‘ وہ بھی ہماری طرح گوشت پوست کے انسان تھے اور ہم بھی ان کی طرح عام‘ کمزور‘ بے بس اور لا چارے لوگ ہیں‘ بس ان میں اور ہم میں صرف ایک فرق تھا‘ وہ آج نشانہ بن گئے اور ہم شاید کل‘ پرسوں یا اس سے اگلے دن اپنے دائیں بائیں گزرنے والی موت کا نشانہ بن جائیں گے‘ دنیا میں روزانہ ڈیڑھ لاکھ لوگ زندگی کی سرحد عبور کرتے ہیں‘ ان ڈیڑھ لاکھ لوگوں میں ایک چوتھائی لوگ اہم‘ اہم ترین اور ناگزیر ہوتے ہیں‘ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو خود کو زندگی کی آنکھ سمجھتے ہیں‘ جو یہ کہتے ہیں ہم جس دن بجھ جائیں گے دنیا میں اس دن سارے منظر بیوہ ہو جائیں گے‘ ہمارے بعد سورج تو نکلے گا لیکن اس کی روشنی سے رنگ غائب ہو جائیں گے‘ پھول تو کھلیں گے لیکن پھولوں میں رنگ اور خوشبو نہیں ہو گی‘ فصلیں بھی اگیں گی‘ درخت بھی زمین سے بلند ہوں گے مگر فصلوں سے غذائیت اور درختوں سے پھل اورپتوں سے سائے رخصت ہو جائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوتا‘ یہ لوگ بھی محمد وقار اور رانا محمد یوسف کی طرح دنیا سے چپ چاپ رخصت ہو جاتے ہیں اور وزیراعظم میاں نواز شریف اور وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف دھنیں بجا کر ترکی کے وزیراعظم کا استقبال کرتے ہیں‘ محمد وقار اور رانا یوسف کی بیٹیاں بال کھول کر بین کرتی ہیں اور حکومت جھک کر اپنے ترک بھائی کا شکریہ ادا کرتی ہے‘ دنیا میں کچھ نہیں بدلتا‘ بس ہم دنیا میں نہیں رہتے اور یہ اس بے مہر‘ بے مروت اور بے وفا گولے کی وہ حقیقت ہے جسے ہم سب روزانہ فراموش کر بیٹھتے ہیں‘ ہم جسے روز آنکھ بند کر کے مسترد کر دیتے ہیں۔
وزیراعظم میاں نواز شریف اور وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف یہ دونوں ترکی کی محبت میں گرفتار ہیں‘ یہ محبت جائز بھی ہے کیونکہ ترکی قابل محبت ملک ہے لیکن میری میاں شہباز شریف اور میاں نواز شریف دونوں سے درخواست ہے آپ جب بھی استنبول جائیں‘ آپ شہر کے مزارات کا دورہ ضرور کریں‘ یہ شہر ترک سلطانوں کا قبرستان ہیں‘ استنبول شہر میں 30 ترک بادشاہ دفن ہیں اور یہ وہ لوگ تھے جن کی سلطنت چین سے لے کر مراکش تک اور کابل سے لے کر ویانا تک پھیلی تھی‘ یہ تین براعظموں کے سلطان تھے‘ ان میں وہ سلطان بھی شامل تھا جسے تاریخ میں پہلی بار خادم الحرمین الشریفین کا خطاب دیا گیا اور وہ سلطان محمد فاتح بھی جنہیں نبی اکرم ؐ نے جنت کی بشارت دی اور وہ سلطان سلیمان بھی جو سلطان دی گریٹ کہلایا اور آپ کے پاس اگر وقت ہو تو آپ استنبول سے بورسا چلے جائیں‘ آپ انا طولیہ‘ انقرہ اور قوینہ کا چکر لگا لیں اور آپ وہاں مدفون سلطانوں اور بادشاہوں کے مقبرے بھی دیکھ لیں ‘ آپ اگر امیر تیمور کے ازبکستان اور مغل بادشاہوں کے انڈیا میں بھی جھانک لیں اور آپ ہندو سرزمین پر مدفون 33 مغل بادشاہوں کے مقابر کو بھی ایک لمحے کیلئے دیکھ لیں تو آپ کو دنیا کی حقیقت سمجھ آ جائے گی۔ ترک سلطان اقتدار کو شراکت سے بچانے کیلئے اپنے بھائیوں کے سر اتار دیا کرتے تھے‘ مغل بادشاہ حکومت کے دعوے داروں کو قلعوں میں پھینک دیتے تھے‘ قیدی شہزادوں کو روزانہ دس پیالے بھنگ پینے پر مجبور کرتے تھے اور وہ بے چارے نشے میں دھت پڑے پڑے زندگی کی سرحد پار کر جاتے تھے مگر پھر وہ سلطنتیں کہاں گئیں‘ وہ بادشاہ کہاں گئے‘ ان کے صاحبزادے‘ ان کے صاحبزادوں کا تکبر‘ ان کے وہ محلات جن کیلئے دریاؤں کے راستے بدل دیئے جاتے تھے‘ پہاڑ کاٹ دیئے جاتے تھے اوروہ باغات جن کو روشنی اور منظر دینے کیلئے پورے پور ے شہر جلاوطن کر دیئے جاتے تھے اور ان کے وہ خزانے جن میں کوہ نور بھی ہوتا تھا اور تخت طاؤس بھی‘ وہ سب کہاں چلے گئے‘ یہ دنیا عجیب جگہ ہے اس میں سکندر ہوں‘ دارہ ہوں‘ تیمور ہوں‘ سلیمان عالی شان ہوں یا پھر ہٹلر اور میسولینی ہوں یہ تمام لوگ دنیا سے خالی ہاتھ واپس چلے جاتے ہیں اور ہم نے بھی کسی دن محمد وقار اور سب انسپکٹر رانا یوسف کی طرح اس دنیا سے رخصت ہو جانا ہے‘کب رخصت ہونا ہے؟ یہ فیصلہ موت کے ان 160 بہانوں میں سے کوئی ایک بہانہ کرے گا جو روزانہ ہمارے اردگرد سے گزرتے ہیں اور ہم گردن اکڑا کر ان کے قریب سے گزر جاتے ہیں‘ دنیا سے اگر حاکم علی زرداری چلے گئے‘ میاں شریف اور میاں نواز شریف کے چھوٹے بھائی عباس شریف چلے گئے اور عمران خان کے والد اکرام اللہ خان نیازی اور والدہ شوکت خانم چلی گئیں اور خان عبدالولی خان اور خان باچا خان چلے گئے اور مفتی محمود جیسے متقی اور پرہیز گار چلے گئے تو کیا مولانا فضل الرحمن‘ اسفند یار ولی‘ میاں شہبا زشریف‘ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری ہمیشہ اس دنیا میں رہیں گے‘ یہ کبھی محمد وقار اور سب انسپکٹر رانا یوسف نہیں بنیں گے؟ کیا کبھی ان کی نماز جنازہ نہیں ہو گی‘ کیا یہ کبھی تدفین کے عمل سے نہیں گزریں گے؟ یقیناًیہ بھی محمد وقار او رانا یوسف بنیں گے لیکن رانا یوسف اور محمد وقار اور ان میں ایک فرق ہمیشہ رہے گا‘ اللہ تعالیٰ شاید محمد وقار اور رانا یوسف کی معافی قبول کر لے لیکن یہ لوگ شاید بار گاہ خدا وندی میں معافی کے حق دار نہ ٹھہریں‘ کیوں؟ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے محمد وقار اور رانا یوسف کو اختیار اور اقتدار نہیں دیا تھا‘ یہ ایک مرلے کے گھر میں رہنے والے وہ بے بس لوگ تھے جنہیں پوری زندگی پیٹ بھر کھانا نصیب نہیں ہوا جبکہ اللہ تعالیٰ نے میاں برادران‘ عمران خان‘ آصف علی زرداری اور ان جیسے تمام اقتدار علی خانوں کو اقتدار اور اختیار سے نواز رکھا تھا‘ یہ محمد وقار اور رانا یوسف کی بیواؤں کو بیوہ اور بچوں کو یتیم ہونے سے بچا سکتے تھے‘ یہ دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے 60 ہزار لوگوں کی جان بچا سکتے تھے لیکن یہ خاموش بھی رہے اور ان کی کارکردگی دوروں‘ ملاقاتوں‘ میٹنگز اور بیانات تک محدود بھی رہی‘ یہ لوگ زندگی بھر کوٹ سے گرد جھاڑنے کو کارکردگی اور لواحقین کیلئے پانچ لاکھ روپے امداد کو پرفارمنس کہتے رہے‘ یہ لوگ اس دھوکہ دہی پر کبھی معافی کے دروازے سے نہیں گزر سکیں گے۔
میاں صاحب! دنیا میں مرنے والے لوگ بہادر نہیں ہوتے‘ مرنے والوں کو بچاتے بچاتے مرنے والے بہادر ہوتے ہیں مگر ہم نے دہشت گردوں کا نشانہ بننے کو بہادری سمجھ لیا ہے‘ ہم دعویٰ کرتے ہیں ہم ساٹھ ہزار جانوں کی قربانی دے کر بھی زندہ ہیں‘ کیا ہمارے پاس ساٹھ ہزار قربانیوں کے بعد زندہ رہنے کے علاوہ کوئی آپشن تھا؟ افریقہ میں گیارہ ایسے ممالک ہیں جہاں ایک کروڑ سے زائد لوگ جنگوں کی نذر ہو چکے ہیں‘ اگر لاشیں بہادری کا معیار ہوتیں تو پھر وہ لوگ‘ وہ قومیں اور ان قوموں کی لیڈر شپ ہم سے زیادہ بہادر‘ ہم سے زیادہ جرأت مند ہے‘ مرنا بہادری نہیں ہوتا‘ مرنے سے بچنا اور دوسروں کو بچانا بہادری ہوتا ہے‘ امریکا میں 2001ء میں نائین الیون ہوا‘ اس نائین الیون میں دو ہزار نو سو چھیانوے امریکی مارے گئے لیکن امریکا نے اس کے بعد دوسرا نائین الیون نہیں ہونے دیا‘ یہ بہادری ہوتی ہے! وہ لوگ بہادر ہیں ہم نہیں‘ چرچل سے دوسری جنگ میں فوجی نے کہا تھا ’’ ہم مرنے کیلئے تیار ہیں‘‘ چرچل نے غصے سے جواب دیا ’’ میں تمہیں مرنے کیلئے جنگ پر نہیں بھیج رہا‘ مارنے کیلئے بھیج رہا ہوں‘‘ قوم نے میاں صاحب آپ کو مذمتی بیانات جاری کرنے اور شہداء کیلئے امدادی پیکج جاری کرنے کیلئے وزیراعظم نہیں بنایا‘قوم نے آپ کو مسائل حل کرنے کیلئے ایوان اقتدار میں بھیجا تھا‘ آپ محمد وقار اور رانا یوسف بننے سے پہلے قوم کو بچا لیجئے ورنہ آپ سلطان محمد فاتح اور سلطان سلیمان عالی شان سے بڑے حکمران نہیں ہیں۔
قوم نے میاں صاحب آپ کو
18
فروری 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں