اصل خودکش حملہ آور

16  جنوری‬‮  2015

ڈاکٹر خالد جمیل ایک باہمت انسان ہیں‘ آپ اگر کوشش‘ حوصلہ اور ہمت سیکھنا چاہتے ہیں تو آپ کیلئے ڈاکٹر خالد جمیل کی مثال کافی ہوگی‘ ڈاکٹر صاحب جوانی میں نٹ کھٹ‘ متحرک اور شرارتی تھے‘ یہ زندگی سے بھرپورجوان بھی تھے لیکن پھر ایک حادثہ ہوا اور ان کی زندگی کا سارا پیٹرن تبدیل ہو گیا‘ یہ لاہور میں ایم بی بی ایس کے طالب علم تھے‘ ان کے دوست انہیں زبردستی گاڑی میں بٹھا کر راولپنڈی روانہ ہو گئے‘ گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہوگیا‘ ان کی ریڑھ کی ہڈی میں فریکچر آیا اور یہ مکمل طور پر معذور ہو گئے‘ دنیا میں اس قسم کے مریض دوبارہ قدموں پر کھڑے نہیں ہوتے لیکن ڈاکٹر خالد جمیل نے ہمت نہ ہاری‘ یہ بستر پر لیٹ کر اپنے پاؤں کا انگوٹھا ہلانے کی کوشش کرتے رہے‘ یہ اپنی کوشش میں اتنے مستقل مزاج اور قطعی تھے کہ ایک دن ان کے انگوٹھے میں واقعی جنبش پیدا ہو گئی اور یوں یہ آہستہ آہستہ اپنے قدموں پر کھڑے ہو گئے‘ ڈاکٹر صاحب نے اس کے بعد اپنی تعلیم بھی مکمل کی‘ پریکٹس بھی شروع کی اور لوگوں کو زندگی اور صحت کی نعمت پر تبلیغ بھی کرنے لگے‘ آج بھی انہیں چلنے میں مشکل پیش آتی ہے لیکن یہ اس مشکل کے باوجود چلتے ہیں‘ میں ڈاکٹر صاحب سے ملاقات سے محروم ہوں مگر میں نے ان کی کتاب ’’ تیسرا جنم‘‘ پڑھی اور میں ان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا‘ کتاب میں ڈاکٹر خالد جمیل نے بے شمار مفید مشورے دیئے لیکن ایک مشورہ میرے حافظے کا حصہ بن گیا‘ ڈاکٹر صاحب نے بتایا‘ لوگ ٹریفک حادثوں کے دوران اتنے متاثر نہیں ہوتے جتنے یہ ریسکیو کے دوران زخمی ہو جاتے ہیں‘ ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا‘ روڈ ایکسیڈنٹ میں زیادہ تر لوگوں کی ریڑھ کی ہڈی فریکچر ہوتی ہے‘ ان زخمیوں کو جب گاڑی سے نکالا جاتا ہے تو کھینچنے کی وجہ سے ان کی ریڑھ کی ہڈی مکمل طور پر ٹوٹ جاتی ہے اور یوں یہ زندگی بھر کیلئے معذور ہو جاتے ہیں‘ ڈاکٹر صاحب کا مشورہ تھا ایکسیڈنٹ کے بعد عام لوگوں کو زخمیوں کو گاڑیوں سے نہیں نکالنا چاہیے‘ ایمبولینس یا ڈاکٹر کا انتظار کرنا چاہیے اور اگر زخمی کو نکالنا ضروری ہو تو اسے آڑھا ترچھا کر کے نہ اٹھائیں‘ زخمی کی کمر پر بیلٹ باندھیں اور اسے سیدھا اٹھائیں اور سیدھا لٹا دیں‘ یہ مشورہ میرے لئے ’’ٹپ‘‘ تھا‘ میں اب تک بے شمار لوگوں کو ڈاکٹر خالد جمیل کے حوالے سے یہ ’’ٹپ‘‘ دے چکا ہوں لیکن یہ ٹپ اور ڈاکٹر خالد جمیل کی جدوجہد ہمارا موضوع نہیں‘ ہمارا موضوع پاکستان میں ہونے والے حادثے ہیں۔
ہم ملک میں دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں‘ یہ درست ہے‘ دہشت گردی ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور ہم جب تک اس عفریت سے جان نہیں چھڑائیں گے ہم ملک میں امن‘ انصاف اور خوشحالی قائم نہیں کر سکیں گے لیکن اگر ملک کا کوئی ادارہ ٹھوس بنیادوں پر ٹریفک حادثوں اور دہشت گردی کے ہاتھوں مرنے والوں کا ڈیٹا جمع کرے تو قوم یہ جان کر حیران رہ جائے گی ہمارے ملک میں حادثوں میں مرنے والوں کی تعداد دہشتگردی کا نشانہ بننے والے لوگوں سے زیادہ ہے‘ پاکستان حادثوں کی عالمی فہرست میں دوسرے نمبر جبکہ ہم دہشت گردی کے شکار ممالک کی فہرست میں تیسرے نمبر پر ہیں‘ ہمارے ملک میں سالانہ 4 سے پانچ ہزار لوگ حادثوں میں جان سے گزر جاتے ہیں‘ زخمیوں کی تعداد تین گنا زیادہ ہوتی ہے‘ ہم اگر درد دل سے دیکھیں تو یہ زخمی ہلاک ہونے والوں کے مقابلے میں زیادہ اذیت سے گزرتے ہیں ‘ ہمارے ملک میں ریاست زخمیوں اور معذوروں کو کوئی ریلیف نہیں دیتی‘یہ لوگ باقی زندگی خاندان پر بوجھ بنے رہتے ہیں‘ یہ بے چارے سسک سسک کر زندگی گزارتے ہیں‘ آپ کسی دن کوئی اخبار اٹھائیے اور مارکر کے ساتھ اس اخبار میں حادثوں کی خبروں کو سرکل کرنا شروع کیجئے‘ آپ یقین کیجئے آپ کے اخبار پر سرکل ہی سرکل ہوں گے اور یہ اس دن ہونے والے حادثوں کی صرف دس فیصد خبریں ہوں گی کیونکہ اخبارات تک صرف دس فیصد خبریں پہنچتی ہیں‘ نوے فیصد خبریں سڑک‘ ہسپتال اور قبرستان تک محدود ہو کر رہ جاتی ہیں‘ ہمارے ملک میں کئی برسوں سے ہر ہفتے کوئی ایسا حادثہ پیش آتا ہے جس میں پچاس ساٹھ معصوم لوگ مارے جاتے ہیں‘ دنیا کے دوسرے ممالک میں اتنے بڑے بڑے حادثوں کے بعد حکومتیں بدل جاتی ہیں جبکہ ہمارے ملک میں مجرموں کے خلاف ایف آئی آر تک درج نہیں ہوتی‘ آپ ریکارڈ نکال کر دیکھ لیجئے آپ کو پاکستان میں کسی ایکسیڈنٹ کے بعد کوئی موٹر ساز ادارہ‘ کوئی ٹرانسپورٹ کمپنی بند ہوتی نظر نہیں آئے گی‘ آپ حادثے کا موجب بننے والے کسی شخص کو عدالت سے سزا پاتے بھی نہیں دیکھیں گے‘ کیوں؟ کیونکہ ہماری حکومتیں‘ ہماری ریاست بے حس ہے‘ ہم آج بھی حادثے کو امر ربی اور مرنے اور زخمی ہونے والے کا نصیب سمجھ کر خاموش ہو جاتے ہیں‘ سوال یہ ہے کیا یورپ‘ امریکا اور جاپان میں کوئی دوسرا خدا ہے؟ وہاں حادثوں میں اتنے لوگ کیوں نہیں مرتے؟ بات سیدھی ہے‘ دنیا حادثے کو دہشت گردی سے زیادہ اہمیت دیتی ہے‘ آپ دنیا کے کسی ماڈرن ملک میں لائسنس اور ٹریننگ کے بغیر گاڑی نہیں چلا سکتے‘ وہ معاشرے گاڑیوں کی مینٹیننس‘ انشورنس اور کوالٹی پرکبھی کمپرومائز نہیں کرتے‘ یورپ میں سردیوں کے ٹائر تک مختلف ہوتے ہیں اور آپ جب تک یہ ٹائر نہیں تبدیل کرتے آپ اس وقت تک برف باری کے علاقوں میں داخل نہیں ہو سکتے‘ جنرل موٹرز نے 2005ء سے 2014ء تک دنیا بھر سے اپنی 48 لاکھ گاڑیاں واپس منگوائیں‘ کیوں؟ کیونکہ گاڑی میں اگنیشن کا معمولی سا نقص تھا‘‘ یہ نقص نکلا تو کمپنی کو 48 لاکھ گاڑیاں واپس منگوانی پڑ گئیں‘ کمپنی مینٹننس پر اب تک 5ارب ڈالر خرچ کر چکی ہے جبکہ کمپنی کے خلاف10 ارب ڈالر ہرجانے کا دعویٰ بھی ہوچکا ہے لیکن کمپنی یہ نقصان برداشت کررہی ہے‘ کیوں؟ کیونکہ یورپ کا کوئی ملک جنرل موٹرز کی گاڑی کلیئر نہیں کر رہا ‘ دنیا کے بے شمار ممالک میں دس سال پرانی گاڑی پر پابندی ہے جبکہ پاکستان میں آپ کوئی بھی گاڑی‘ کسی بھی وقت‘ ٹریننگ اور لائسنس کے بغیر سڑک پر لے آتے ہیں اور درجنوں لوگوں کیلئے خودکش حملہ آور بن جاتے ہیں‘ یورپ میں گاڑی میں آگ بجھانے کے آلات‘ ٹارچ‘ اندھیرے میں چمکنے والی جیکٹ اور دور سے نظر آنے والا سٹینڈ لازم ہوتا ہے‘ آپ سڑک پر ٹائر بدلنا چاہتے ہیں تو آپ پہلے سڑک پر سٹینڈ کھڑا کریں گے‘ یہ سٹینڈ دور سے آنے والی گاڑیوں کو آگاہ کرتا ہے آپ کے راستے میں خراب گاڑی کھڑی ہے‘ آپ اس کے بعد دور سے نظر آنے والی جیکٹ پہنتے ہیں تا کہ آپ دوسرے ڈرائیوروں کو نظر آ سکیں‘ یورپ میں بڑے ٹرکوں‘ ٹرالرز اور آئل ٹینکرز کیلئے خصوصی حفاظتی انتظامات کئے جاتے ہیں‘ پولیس جب تک ان انتظامات سے مطمئن نہ ہو جائے یہ گاڑیاں سڑک پر نہیں آ تیں لیکن آپ پاکستان میں خواہ کھلے ٹینکر میں پٹرول بھر کر سڑک پر آ جائیں آپ کو کوئی نہیں روکے گا‘ آپ چالیس سال پرانی گاڑی لے کر بھی موٹروے پر آ سکتے ہیں‘ آپ کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا‘ میں حکومت کو چیلنج کرتا ہوں یہ ملک کی کسی سڑک پر کوئی مسافر بس یا وین روک کر چیک کر لے حکومت کو اس میں آگ بجھانے والے آلات سے لے کر فرسٹ ایڈ تک کوئی حفاظتی بندوبست نہیں ملے گا‘ آپ کسی ٹینکر کو چیک کر لیں آپ اسے القاعدہ سے زیادہ خطرناک پائیں گے‘ آپ کو ہائی ویز پر ہسپتال‘ ایمبولینس اور فائر بریگیڈ بھی نہیں ملتا‘ انگریز کے دور میں فائربریگیڈ‘ ایمبولینس اور ہسپتال ہمیشہ مین روڈ پر بنائے جاتے تھے ‘ یہ 24 گھنٹے آپریشنل بھی ہوتے تھے لیکن آج آپ کو یہ آپریشنل ملتے ہیں اور نہ ہی ’’مین روڈ‘‘ پر۔ ہمارے ملک میں کتنی گاڑیاں ہیں؟ ریاست کو معلوم نہیں‘ گاڑیوں کی مینٹیننس کیسی ہے؟ ریاست کو یہ بھی معلوم نہیں اور کیا گاڑیاں چلانے والوں کے پاس لائسنس بھی ہیں ہمیں یہ بھی معلوم نہیں چنانچہ ہم میں کون‘ کب اور کہاں اور کس گاڑی کی زد میں آ جائے ہم نہیں جانتے۔
آپ المیہ دیکھئے 10 جنوری کو کراچی میں نیشنل ہائی وے لنک روڈ پر مسافر کوچ اور آئل ٹینکر میں تصادم ہوا ‘ 70 لوگ زندہ جل کر مر گئے‘ مرنے والوں میں 8 افراد کا تعلق ایک ہی خاندان سے تھا‘ آج اس واقعے کو صرف پانچ دن گزرے ہیں لیکن ریاست اور قوم حادثے کو مکمل طور پر بھول چکی‘ ملک میں کسی ادارے‘ کسی شخصیت نے سنجیدگی سے اس کا نوٹس نہیں لیا‘ یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں تھا‘ آپ لاہور انارکلی میں 29 دسمبر کی آتشزدگی کو دیکھ لیجئے اس واقعے میں 13افرادزندہ جل گئے ‘ گیارہ نومبر 2014ء کو خیر پور میں بس اور کوئلے سے بھرے ٹرک میں تصادم ہوا62لوگ جاں بحق ہو گئے‘ 20اپریل کو سکھر کے قریب مسافر بس اور ٹرالر تصادم میں 45لوگ مارے گئے‘22مارچ کو حب میں مسافر بس اور آئل ٹینکر میں تصادم ہوا 40لوگ مر گئے ۔ 15جنوری کو نوابشاہ میں ڈمپر اور سکول وین میں تصادم ہوا22بچے جاں بحق ہوگئے۔ 16مارچ 2013ء کوہستان میں کوسٹر کھائی میں گر گئی‘ کرنل سمیت23جوان مارے گئے‘ 11ستمبر 2012ء کو کراچی کی فیکٹری میں258لوگ جل کر مر گئے اور26 ستمبر 2011ء کو موٹر وے سالٹ رینج پر بس کھائی میں جاگری‘ سکول کے 36 معصوم بچے جاں بحق ہو گئے‘ ہم اگر ریلوے کراسنگ کو بھی ان حادثوں میں شامل کر لیں تو آپ کو ملک کا ہر شہر خون سے رنگین ملے گا۔ آپ یقین کیجئے ہماری گاڑیاں ‘ہماری سٹرکیں اور ہمارے ڈرائیور دنیا کے سب سے بڑے خود کش حملہ آور ہیں ‘ ہم طالبان سے بچنے کے لیے آئین میں ترمیم کر لیتے ہیں لیکن ہمیں وہ خود کش حملہ آور نظر نہیںآتے جو روزسڑکوں پر نکلتے ہیں اور بریک فیل ہونے کا بہانہ بنا کر پچاس پچاس لوگوں کو زندگی کی سرحد پار کرا دیتے ہیں‘ ہم ان کی طرف آنکھ اٹھا کر کیوں نہیں دیکھتے؟ ریاست ان خودکش حملہ آوروں کے لیے کوئی پالیسی کیوں نہیں بناتی؟ ہمیں اس کے لیے تو کسی اے پی سی ‘کسی قومی اتفاق رائے اور کسی آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں‘ وزیر اعظم صاحب ایک میٹنگ کریں اور اعلان کر دیں ملک میں آج کے بعد ٹریفک اور روڈ سیفٹی کے تمام قوانین پر عمل ہو گا اور ہم اور ہمارے بچوں کی جانیں بچ جائیں گے لیکن آپ شاید اس کام کے لیے بھی آرمی چیف کے احکامات کا انتظار کر رہے ہیں‘ آپ اس کے لیے بھی کسی ضرب عضب کے منتظر ہیں۔



کالم



شاہ ایران کے محلات


ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…

مشہد میں دو دن (آخری حصہ)

ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت…

مشہد میں دو دن (دوم)

فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…