جم نے انکار میں سر ہلایا اور پریقین لہجے میں بولا ’’ڈاکٹر صاحب قید ہی میں انتقال کر جائیں گے‘ تم لوگ انہیں کبھی سڑک پر چلتے پھرتے‘ لوگوں سے ملتے‘ ہاتھ ملاتے‘ قہقہہ لگاتے اور لوگوں کو آٹو گراف دیتے نہیں دیکھو گے‘‘ وہ خاموش ہوا‘ اس نے جیب میں ہاتھ ڈالا‘ ٹیڑھا میڑھا سا سگریٹ نکالا‘ سگریٹ ہونٹوں کے ساتھ چپکایا‘ لائٹر جلایا‘ آگ کا شعلہ سگریٹ کے سرے کے ساتھ جوڑا‘ ایک لمبا کش لیا اور مسکرا کر میری طرف دیکھنے لگا‘
میں حیرت اور شرمندگی سے اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا‘ وہ آہستہ سے بولا ’’میں معافی چاہتا ہوں‘ میں نے تمہارے جذبات کی توہین کی لیکن مجھے ڈاکٹر عبدالقدیر کا انجام اچھا دکھائی نہیں دے رہا‘‘ وہ دوبارہ خاموش ہو گیا‘ میں بات کو آگے بڑھانے سے قبل جم سے آپ کا تعارف کراتا چلوں‘ جم لوون امریکی مورخ ہے‘ اس نے اسلامی تاریخ میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے اور آج کل وہ برصغیر پاک وہند کی تاریخ پر تحقیق کر رہا ہے‘ وہ سال کے تین‘ تین ماہ بھارت اور پاکستان میں گزارتا ہے اور چھ ماہ نیویارک میں‘ وہ پچھلے چھ برس سے پاکستان آ رہا ہے۔وہ اس دوران نہ صرف پاکستان کی تاریخ‘ جغرافیے‘ رسوم و رواج اور پاکستانیوں کی نفسیات کا حافظ ہو چکا ہے بلکہ وہ اس خطے کے لوگوں کو ہم سے زیادہ جانتا ہے‘ وہ گزشتہ روز میرے پاس آیا اور اس نے مجھے سے پوچھا ’’ڈاکٹر عبدالقدیر کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے‘‘ میں نے فوراً جواب دیا ’’ڈاکٹر صاحب تمام پاکستانیوں کے ہیرو ہیں‘ اس ملک کا بچہ بچہ ان سے محبت کرتا ہے‘‘ جم نے ذرا دیر سوچا اور اسکے بعد پوچھا ’’ڈاکٹر کا مستقبل کیاہے‘‘ میں نے بغیر سوچے‘ بغیر رکے جواب دیا ’’ڈاکٹر صاحب انشاء اللہ رہا ہوں گے‘ عوام میں پہنچیں گے اور لوگ انہیں عزت کی اس کرسی پر بٹھائیں گے جس کے وہ اہل اور حقدار ہیں‘‘ جم نے میری بات غور سے سنی‘
ذرا دیر سوچا اور اس کے بعد نرم آواز میں بولا ’’میں تم سے اتفاق نہیں کرتا‘ میرا خیال ہے ڈاکٹر عبدالقدیر کبھی رہا نہیں ہوں گے‘‘ میں نے اس سے اس آبزرویشن کی وضاحت چاہی تووہ بولا ’’میں سمجھتا ہوں ڈاکٹر صاحب قید ہی میں انتقال کر جائیں گے‘ تم لوگ انہیں کبھی سڑک پر چلتے پھرتے‘ لوگوں سے ملتے‘ ہاتھ ملاتے‘ قہقہہ لگاتے اور لوگوں کو آٹو گراف دیتے نہیں دیکھو گے‘‘۔ میں نے بے چینی اور اضطراب میں پہلو بدلا‘ وہ دوبارہ گویا ہوا ’’تم مجھے ایک سوال کا جواب دو‘‘ میں خاموشی سے اس کی طرف دیکھتا رہا‘
وہ بولا ’’کیا ڈاکٹر عبدالقدیر اس ملک کے ہیروہیں‘‘ میں نے اثبات میں سر ہلادیا‘ وہ فوراً بولا ’’تمہاری ہاں میرے تھیسس کی بنیاد ہے‘ مسلمان ایک ایسی بدقسمت قوم ہے جس کے ہیروز کا انجام ہمیشہ برا ہوتا ہے‘ تم حضرت امام حسینؓ سے ٹیپو سلطان تک اپنے تمام ہیروز کی تاریخ نکال کر دیکھ لو اوربتاؤ ان کا انجام کیا ہوا تھا؟ حضرت امام حسینؓ کیسے شہید ہوئے تھے‘ حضرت خالدؓ بن ولید کی زندگی کا آخری حصہ کیسے گزرا‘ موسیٰ بن نصیر کا کیا بنا‘ طارق بن زیاد کا انجام کیا ہوا‘
محمد بن قاسم بے بسی کے کس عالم میں دنیا سے رخصت ہوا اور سراج الدولہ اور ٹیپو سلطان کو کس نے کفن دیا تھا؟ یہ صرف چند مثالیں ہیں تم مسلمانوں کی تاریخ غور سے پڑھو‘ میرا دعویٰ ہے تمہیں اپنے تمام ہیروز اسی انجام کا شکار ملیں گے جبکہ ان کے مقابلے میں تم بدبخت‘ بے ایمان‘ ظالم اور سفاک بادشاہوں کو دیکھو‘ تمہیں حجاج بن یوسف سے امیر تیمورتک اور محمود غزنوی سے اکبر اعظم تک اسلامی تاریخ کے تمام آمر آخری سانس تک تخت پر بیٹھے اور بڑے بڑے عظیم الشان مقبروں میں دفن ہوتے ملیں گے
چنانچہ میری تحقیق ہے مسلمان اپنے ہر ولن کو آخری سانس تک عزت دیتے ہیں جبکہ اپنے ہیروز کو قید خانوں‘ جنگوں اور بیماریوں کے حوالے کر دیتے ہیں‘ مسلمان اپنے ہر ولن کے ساتھ وفاداری نبھاتے ہیں جبکہ ہیروز کے ساتھ دغا کرتے ہیں‘ انہیں فریب دیتے ہیں اور ان کے ساتھ دھوکہ کرتے ہیں‘‘ میں خاموشی سے سنتا رہا‘ وہ بولا ’’یہ ایک پہلو تھا‘ تم اب دوسرا پہلو بھی دیکھو‘ پاکستانی قوم نے پچھلے ساٹھ برسوں میں اپنے ہیروز کے ساتھ کیا سلوک کیا‘ قائداعظم اس ملک کے بانی تھے‘ تم بانی پاکستان کے آخری لمحات دیکھو‘
قائداعظم کو زیارت سے کراچی لایا گیا‘کراچی ائر پورٹ پر صرف ایک ایمبولینس کھڑی تھی‘ یہ گاڑی راستے میں خراب ہوگئی‘ قائداعظم کا سانس اکھڑ گیا‘ محترمہ فاطمہ جناح نے قائداعظم کا سٹریچر فٹ پاتھ پررکھوا دیا‘ مکھیاں بار بار ان کی ناک اور منہ پر بیٹھتی تھیں‘ قائداعظم بے چینی سے آنکھیں کھولتے تھے اور فاطمہ جناح بے بسی کے عالم میں انہیں دیکھ کر رہ جاتی تھیں‘ قائداعظم اس عالم میں فٹ پاتھ پرانتقال فرما گئے‘ آپ لوگوں نے فاطمہ جناح کو مادر ملت کا خطاب دیا‘ آپ نے پھر اس مادر ملت کا کیا انجام کیا‘
ایوب خان نے کھلے جلسوں میں مادر ملت کے کردار پر کیچڑ اچھالاتھا‘ ذوالفقار علی بھٹو نے پریس کانفرنس میں انکشاف کیا مادر ملت نے شادی کیوں نہیں کی تھی‘ یہ الزام اخلاق سے اس قدرگرا ہوا تھا کہ غیر ملکی صحافیوں تک کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے‘ خان لیاقت علی خان بھی تم لوگوں کے ہیرو تھے‘ تم نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا‘ تم آج تک ان کے قتل کی وجہ تک معلوم نہیں کرسکے ۔حسین شہید سہروردی بھی ایک ایماندار سیاستدان تھے‘ وہ لبنان میں انتقال کر گئے‘
ان کی بیٹی کے پاس نعش لانے کیلئے رقم نہیں تھی اور حکومت اس کی بے بسی پر قہقہے لگاتی رہی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو بھی اس ملک کے ہیرو تھے‘ اس بھٹو کا کیا انجام ہوا‘ انہیں پھانسی پر لٹکا دیا گیا اور قوم خاموش رہی اور جنرل ضیاء الحق کو تم لوگ فاتح روس کہتے تھے‘ اس فاتح روس کا کیا انجام ہوا؟۔تم اپنی تاریخ نکال کر دیکھ لو‘ اس ملک میں ہر ایماندار‘ بااصول اور جرات مند شخص خوفناک انجام سے دوچار ہوا جبکہ ہر بے ایمان‘ بے اصول اور بزدل شخص اس ملک میں آخری وقت تک اقتدار‘ عزت اور پروٹوکول سے لطف لیتا رہا‘
تم ملک غلام محمد سے صدر پرویز مشرف تک اپنی ساری تاریخ کھنگال کر دیکھ لو‘ تمہیں ہر مجرم جیل سے باہر اور ہر بے گناہ اور معصوم شخص قید میں نظر آئے گا‘‘ وہ سانس لینے کیلئے رکا۔ میں نے بے چینی سے ایک اور کروٹ بدلی‘ اس نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے روکا اور ایک لمبا سانس بھر کر بولا ’’تم تازہ ترین صورتحال بھی دیکھ لو‘ تم لوگ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو اپنا ہیرو سمجھتے ہو‘ تمہارا وہ ہیرو اس وقت کہاں ہے؟
تمہارا ہیرو سڑکوں پر دھکے کھا رہا ہے جبکہ وہ لوگ جنہوں نے ملک‘ آئین‘ قانون اورعدلیہ کے ساتھ غداری کی وہ اقتدار‘ کرسی اور عہدے کے مزے لوٹ رہے ہیں‘ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نظر بند ہیں لیکن جن لوگوں نے اس ملک کو غیر ملکی لشکروں کی چراہ گاہ بنا دیا‘ جن کی مہربانیوں سے یہ ملک خود کش حملوں سے لرز رہا ہے اور جنہوں نے تمہاری مسجدوں اور مدرسوں کو توپوں سے اڑا دیا ‘
تمہارے نمازی ایجنسیوں اور سی آئی اے کی حراست میں ہیں جبکہ تاریخ کے کرپٹ ترین لوگ ’’این آر او‘‘ کی مشین سے ڈرائی کلین ہو چکے ہیں‘ تم ڈاکٹر قدیر کو دیکھو اور پھر اپنے کرپٹ جرنیلوں‘ بے ایمان افسروں اور منافق سیاستدانوں کو دیکھو اور یہ فیصلہ کرو تمہارے ملک کے اصول‘ تمہارے ملک کے ضابطے اور تمہارے ملک کی روایات کیا ہیں اور اسکے بعد دل پر ہاتھ رکھو اور مجھے بتاؤ تمہارے ڈاکٹر عبدالقدیر کا کیا انجام ہو گا؟ کیا وہ نظر بندی کے عالم میں دنیا سے رخصت نہیں ہوں گے؟‘‘
وہ خاموش ہو گیا‘ میری زبان بے بسی کے عالم میں میرے جبڑوں میں تڑپتی رہی لیکن یہ تڑپ کوئی لفظ‘ کوئی فقرہ پیدا نہ کر سکی‘ میں بے بسی سے اس کی طرف دیکھتا رہا‘ وہ مسکرایا اور اسی نرم آواز میں بولا ’’آج ڈاکٹر عبدالقدیر کی نظربندی کو ایک ہزار 5سو 57 دن ہو چکے ہیں‘ تم مجھے اتنا بتاؤ کیا ایڈمرل منصورالحق اربوں روپے کی کرپشن کے بعداتنے دن نظر بند رہا تھا؟ کیا جنرل یحییٰ خان ملک توڑنے کے بعداتنے دن نظر بند رہا تھا اور اگر کبھی جنرل پرویز مشرف ملزم یا مجرم ثابت ہوئے تو کیا وہ بھی اتنے دن نظر بند رہیں گے‘‘
میں خاموش رہا‘ اس نے قہقہہ لگایا اور میرا گھٹنا دبا کر بولا ’’تمہاری یہ خاموشی میرے ہرسوال کا جواب ہے لہٰذا میرے عزیز اگر تم اور تمہاری قوم ڈاکٹر عبدالقدیر کو آزاد دیکھنا چاہتی ہے تو تمہیں چاہئے تم ڈاکٹر کو ہیرو کی بجائے ولن ثابت کر دو‘ تم ان پر کرپشن اور بے ایمانی کے الزامات لگا دو‘ یقین کروتمہارا نظام نہ صرف انہیں باعزت بری کر دے گا بلکہ انہیں اقتدار کی کرسی پر بھی بٹھا دے گا اور یاد رکھو اگر ڈاکٹر عبدالقدیر کرپٹ شخص ہوتے تو وہ کبھی 1557دن نظر بند نہ رہتے‘ وہ آج اس ملک کے حکمران ہوتے‘‘۔