اتوار‬‮ ، 03 اگست‬‮ 2025 

حضور اکرم ﷺ کے دور میں ہی کس جنگ میں مسلمانوں کے دو گروہ ہو گئے تھے؟

datetime 16  اکتوبر‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

غزوۂ تبوک کے زمانے میں مسلمانوں کے دو گروہ تھے:
الف: کامل الایمان، قلوب نور ہدایت سے منور رواں رواں ایمان کی روشنی سے پر ضیا۔
ب: طمع اور خوف کی وجہ سے اسلام کا اقرار کرنے والے! لالچ تھا اس مال سے حصہ لینے کا جو ان قبائل سے حاصل ہوتا جنہوں نے نہ تو اسلام قبول کیا تھا نہ انہیں مسلمانوں کے سامنے دم مارنے کی ہمت تھی، اور آخر ناچار انہیں جزیہ دینا پڑتا۔ اور خوف تھا اس قسم کے (نام نہاد) کلمہ گویوں کو خالص مسلمانوں کی اس

سطوت کا۔ جس کی وجہ سے عرب کا کوئی قبیلہ ان کے مقابلہ پر صف آرا نہ ہونا چاہتا۔ (یعنی مدینہ کے یہ منافق اب تک اس لئے ظاہری اسلام اور باطنی کفر پر جمے ہوئے تھے کہ اگر اسلام سے انکار کرتے ہیں تو مسلمانوں کی آمدنی میں سے حصہ ایک طرف، الٹا جزیہ دینا پڑتا ہے۔ اور مقابلہ کرتے ہیں تو مدینہ کے یہودیوں کی طرح استیصال ہوتا ہے۔ مسلمانوں کے پہلے گروہ (الف) نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی غزوۂ تبوک کی دعوت پر بلا تامل لبیک کہا۔ یہ دوسری بات ہے کہ ان میں سے بعض حضرات ناداری کے ہاتھوں اتنے طویل سفر کے لئے اپنے لئے سواری کے انتظام سے قاصر تھے۔ اگرچہ ان میں سے کچھ ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے رضا و رغبت کے ساتھ اپنے اموال میں سے کثیر حصہ پیش کر دیا۔ ان لوگوں کے مد نظر راہ خدا میں فائز بہ شہادت ہو کر اللہ تعالیٰ کا قرب اور حضوری تھا۔مگر دوسرا حریص و طامع گروہ جہاد کے نام سے جن کے بدن پر رعشہ طاری ہو جاتا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعوت پر حیلہ سازی پر اتر آیا۔ باہم سرگوشیاں کرنے لگے۔ موسم گرما اور بعد مسافت کی وجہ سے جہاد پر تمسخر اڑانا شروع کر دیا۔ یہ منافقوں کا طائفہ تھا۔ ان کے اسی معاملہ میں سورۂ توبہ نازل ہوئی جس میں ایک طرف جہاد فی سبیل اللہ کی عظمت و اصابت اور اس کا دوسرا پہلو مسلمان کہلا کر رسول کی اس دعوت سے انکار پر تعذیب کا خوف دلانا مقصود تھا۔
اس دعوت کے موقع پر منافقین نے ایک دوسرے سے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ایسی گرمی میں گھر سے نہ نکلنا یعنی
لا تنفروا فی الحر (81:9)
جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
وقالوا لا تنفروا فی الحرقل نار جھنم اشد حرالو کانو یفقھون فلیضحکوا قلیلاً ولیبکوا کثیراً جزاء بما کانو یکسبون(82-81:9)
اور لوگوں کو بھی سمجھانے لگے کہ ایسی گرمی میں (گھر سے) نہ نکلنا! اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ! (ان لوگوں سے) کہو کہ گرمی تو آتش دوزخی کی بہت زیادہ ہے۔ اے کاش! ان کو اتنی سمجھ ہوتی تو (ایک دن ہو گا کہ) یہ لوگ ہنسیں گے کم اور روئیں گے بہت (اور یہ) بدلہ(ہو گا) ان اعمال کا جو (دنیا میں ) کیا کرتے تھے۔
حوالہ :حیات محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم:
صلحِ حدیبیہ سے وفات ابراہیمؓ تک
مصنف: محمد حسین ہیکل

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



سات سچائیاں


وہ سرخ آنکھوں سے ہمیں گھور رہا تھا‘ اس کی نوکیلی…

ماں کی محبت کے 4800 سال

آج سے پانچ ہزار سال قبل تائی چنگ کی جگہ کوئی نامعلوم…

سچا اور کھرا انقلابی لیڈر

باپ کی تنخواہ صرف سولہ سو روپے تھے‘ اتنی قلیل…

کرایہ

میں نے پانی دیا اور انہوں نے پیار سے پودے پر ہاتھ…

وہ دن دور نہیں

پہلا پیشہ گھڑیاں تھا‘ وہ ہول سیلر سے سستی گھڑیاں…

نیند کا ثواب

’’میرا خیال ہے آپ زیادہ بھوکے ہیں‘‘ اس نے مسکراتے…

حقیقتیں(دوسرا حصہ)

کامیابی آپ کو نہ ماننے والے لوگ آپ کی کامیابی…

کاش کوئی بتا دے

مارس چاکلیٹ بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی…

کان پکڑ لیں

ڈاکٹر عبدالقدیر سے میری آخری ملاقات فلائیٹ میں…

ساڑھے چار سیکنڈ

نیاز احمد کی عمر صرف 36 برس تھی‘ اردو کے استاد…

وائے می ناٹ(پارٹ ٹو)

دنیا میں اوسط عمر میں اضافہ ہو چکا ہے‘ ہمیں اب…