مقبوضہ بیت المقدس (این این آئی )گذشتہ کچھ عرصے کے دوران عرب ممالک کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے اعلانات کے باوجود صہیونی ریاست اور خلیجی ممالک میں دو طرفہ تعلقات مستحکم نہیں ہوسکے ہیں۔میڈیارپورٹس کے مطابق اسرائیلی محکمہ دفاع کے ایک افسر نے انکشاف کیا کہ متحدہ عرب امارات اور بحرین سمیت مختلف خلیجی ممالک کے ساتھ
تل ابیب کے تعلقات غیر مستحکم ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ عدم استحکام مشرق وسطی کے خطے میں چلنے والی ہواں کی سمت بدل سکتے ہیں۔اسٹرٹیجک ریسرچ برائے بیگن-سادات انسٹی ٹیوٹ ماہر موردچائی کیدار نے کہا کہ سال 2021 کا آغاز اسرائیل کے لیے اچھا ثابت نہیںہوا۔ نئے سال کے آغاز پر ہی سعودی عرب اور قطر نے اپنے تین سالہ اختلافات ختم کرنے کا اعلان کیا ۔ سعودی عرب اور دوسرے عرب ممالک کی طرف سے قطر کا بائیکاٹ ختم کرنا اسرائیل کے لیے پریشانی میں اضافہ کر سکتا ہے۔اسرائیلی دانشور نے اپنے مضمون میں لکھا کہ سعودی عرب اور قطر کے درمیان معاہدے کو اسرائیل کے لیے دوسرے بحرانوں کا تسلسل سمجھا جانا چاہیے۔ اسرائیل پہلے ہی ایران کے ایک بھاری بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ امریکا میں جوبائیڈن کا صدر بننا، نئی امریکی انتظامیہ کی ایران کے حوالے سے نرم اور لچک دار پالیسی اور ایران کا یورینیم افزودگی کو 20 فی صد تک لے جانا ہمارے لیے بری خبریں ہیں کیونکہ یورینیم کا یہ وہ تناسب ہے جس سے ایران جوہری بم بنا سکتا ہے۔کیدار نے کہا کہ یمن اور عراق میں ایران نواز گروپوں سے نمٹنے میں سعودی عرب بری طرح ناکام رہا۔ سعودی عرب کو درپیش معاشی بحران بھی خطرناک ہے۔ گذشتہ تین سال کے دوران ایران نے قطر کی بھرپور حمایت جاری رکھی اور سعودی عرب تمام تر کوششوں کے باوجود قطر اور ایران کو ایک دوسرے سے دور نہیں کر سکا ہے۔انہوں نے کہا کہ ایران کی طرف سے خلیجی ممالک میں مفاہمت کے بارے میںکوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ ایران پہلے سے سعودی عرب اور قطر کے درمیان رابطوں سے بہ خوبی آگاہ تھا۔ اس کی وجہ ایرانی انٹیلی اداروں کی خلیجی ممالک میںگہری رسائی اور قطری قیادت کے ساتھ ایران کے قریبی تعلقات ہیں۔ اس سے ظاہرہوتا ہے کہ ایران نے قطر کو سعودی عرب کے ساتھ مصالحت کی اجازت دی ہے