اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)ہمیں اس حقیقت کا بار بار ادراک کرنا چاہیے کہ امریکا ایک سپر پاور ہے اور عالمی سامراجی طاقتوں کا سرخیل، اس کی اسٹیبلشمنٹ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی محافظ بھی ہے۔ روزنامہ جنگ میں شائع معروف صحافی عباس مہکری کے بلاگ کے مطابق یہ ٹھیک ہے کہ ری پبلکن پارٹی اور ڈیمو کریٹک پارٹی بالترتیب دائیں اور بائیں بازو کی جماعتیں ہیں،
اول الذکر امریکی اسٹیبلشمنٹ کے زیادہ قریب سمجھی جاتی ہے اور موخر الذکر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کی بعض سخت گیر پالیسیوں کی نقاد ہے لیکن کوئی بھی سیاسی جماعت خصوصاً ڈیموکریٹک پارٹی امریکا کی خارجہ پالیسی پر اس طرح اثر انداز نہیں ہو سکتی جس طرح تیسری دنیا میں بعض ترقی پسند، لبرل اور بائیں بازو کی سیاسی جماعتیں اثر انداز ہونے کی کامیاب یا ناکام کوشش کرتی ہیں۔امریکا کی داخلی پالیسیوں پر البتہ سیاسی جماعتیں زیادہ اثر انداز ہو سکتی ہیں مثلاً امیگریشن پالیسی، ہیلتھ کیئر پالیسی، سبسڈیز وغیرہ پر ڈیمو کریٹک پارٹی کا رویہ ری پبلکن پارٹی سے قدرے مختلف ہے اور امریکا کی اسٹیبلشمنٹ داخلی پالیسیوں کے حوالے سے کافی لچکدار رویے کی حامل ہے۔ جو بائیڈن کے بارے میں یہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہ ٹرمپ کے بعض فیصلوں کو بدل سکتے ہیں، مثلاً وہ پیرس کلائمیٹ ایگریمنٹ کا دوبارہ حصہ بن سکتے ہیں، ایران سے کشیدگی کم کر سکتے ہیں۔سعودی قیادت میں یمن کے خلاف جنگ میں فوجی اتحاد کی حمایت کم کر سکتے ہیں وغیرہ وغیرہ، لیکن امریکی تاریخ پر نظر رکھنے والے یہ سمجھ سکتے ہیں کہ ڈیمو کریٹک پارٹی کے تبدیل شدہ یہ فیصلے حالات کے مطابق خود امریکی اسٹیبلشمنٹ کے حق میں جا سکتے ہیں۔ جو بائیڈن چین کی پیش قدمی کو روکنے کی سابقہ امریکی پالیسی کے حامی ہیں اور وہ اسے تبدیل بھی نہیں کر سکتے۔ چین کو روکنے (Contain ) کی اسی پالیسی کے تحت پاکستان کو ڈیل کیا جائے گا۔البتہ نئی امریکی انتظامیہ کے آنے سے تیسری دنیا کے ملکوں کی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور سول اور ملٹری بیورو کریٹس کو امریکی اسٹیبلشمنٹ میں اپنا اثرو رسوخ برقرار رکھنے، حاصل کرنے یا بڑھانے کے لیے ازسر نو لابنگ کرنا پڑے گی۔ پاکستان جیسے ملکوں کے لیے نئی امریکی انتظامیہ کے آنے سے صرف یہی اثر پڑتا ہے کہ لابنگ کے لیے نئی منصوبہ بندی کرنا پڑتی ہے اور کچھ کے لیے نئے امکانات بھی ہوتے ہیں۔