اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)فرانس ، قبرض اور یونان نے قبرص کے مغربی حصے میں جنگی مشقیں شروع کر دیں ہیں ۔ مشقوں میں یونان کے بمبار طیاروں کے ساتھ ساتھ فرانسیسی جنگی طیارے بھی حصہ لینے کیلئے تیار ہیں ۔ یونانی سرکاری ریڈیو کی رپورٹ کے مطابق آئندہ چند روز میں اٹلی اور فرانس کے بحری بیڑے بھی جاری مشقوں میں شمولیت اختیار کر لیں گے۔ ان جنگی مشقوں کا آغاز ترکی کی
طرف سے بحیرہ روم میں گیس کی تلاش شروع کرنے کی وجہ سے شروع کی گئی ہیں۔ دوسری جانب ترکی کی تمام تر سرحدوں کو جرمنی، اسپین، فرانس، آسڑیا، ناروے، ڈنمارک، سویڈن، بیلجیم اور ہالینڈ سے آنے والے مسافرو ں کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔وزیر ِ داخلہ سلیمان سوئلو کے دستخط کے ساتھ کووڈ۔19 وبا کے خلاف جدوجہد کے حوالے سے جاری کردہ سرکلر کے مطابق ترکی سےمذکورہ ممالک کو سیر وسیاحت کو عارضی طور پر بند کر دیا گیا ہے۔ان ممالک کے شہریوں اور گزشتہ 14 دنوں میں ان ممالک کی سیر کرنے والے تیسرے ممالک کے شہریوں کو آج صبح ترکی کے مقامی وقت کے مطابق ترکی آنے کی اجازت نہیں ہو گی ، تا ہم مذکورہ ممالک کے شہریوں کی ترکی سے واپسی کے حوالے سے کسی قسم کی پابندی عائد نہیں ہو گی۔یاد رہے اس سے قبل ترکی نے چین، ایران، عراق، جنوبی کوریا اور اٹلی کے ساتھ مسافروں کی نقل و حمل کو بند کر رکھا تھا ۔ اب کے بعد دیگر یورپی ممالک بھی اس فہرست میں شامل ہو گئے ہیں۔ قبل ازیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ اگر شام کے شمالی علاقے سے امریکی افواج کے انخلا کے دوران ترکی نے ’حد سے بڑھ‘ کر کوئی کارروائی کی تو اس کی معیشت کو ’تباہ و برباد‘ کردیں گے۔ وائٹ ہاؤس کی جانب سے فوجوں کے انخلا کے
اعلان کی امریکا میں دونوں سیاسی جماعتوں کے قانون سازوں نے اس خدشے کے پیشِ نظر مذمت کی تھی کہاس سے ترک افواج کو کرد سربراہی میں قائم فوجی اتحاد پر حملہ کرنے کا راستہ مل جائے گا جو طویل عرصے تک امریکا کے اتحادی رہے ہیں۔سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹوئٹ کرتے ہوئے امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ’جیسا کہ میں پہلے بھی صاف صاف کہہ چکا ہوں اسے دوبارہ دہراتا ہوں کہ
اگر ترکی نے کچھ بھی ایسا کیا جو میری بہترین عقل کے مطابق حد سے ماورا ہوا تو میں ترکی کی معیشت کو تباہ و برباد کردوں گا (جیسے مبینہ طور پر پہلے کیا تھا)۔امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ایک سینئر عہدیدار نے اس حوالے سے کہا کہ اگر ترکی شمال مشرقی شام کے ان علاقوں میں حملہ کرنا چاہتا ہے جہاں داعش کے عسکریت پسندوں کو زیرِ حراست رکھا گیا ہے تو امریکا ترکی سے ان قید جنگجوؤں کی
بھی ذمہ داری اٹھانے کی توقع کرتا ہے۔عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ ابھی تک امریکا کی اتحادی کرد ملیشیا ان حراستی مراکز کا انتظام سنبھال رہی تھی۔اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں دی گئی بریفنگ میں ان کا کہنا تھا کہ ’اگر ترکی ان علاقوں میں ا?تا ہے جہاں جیلیں موجود ہیں اور سیریئن ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کو ان جیلوں کے اطراف میں سیکیورٹی پوزیشنز چھوڑیں تو ہم امید کرتے ہیں کہ ترک افواج انہیں سنبھال لیں گی۔