اسلام آباد(این این آئی)نئی دلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں سفارت کاری اور تخفیف اسلحہ سازی کے ایسوسی ایٹ پروفسیرHappymon Jacobنے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ بھارتی حکومت کی طرف اگست2019میں جموںوکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد کشمیر ایک مرتبہ پھر جنوبی ایشیا کے دو ایٹمی ملکوں بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک بڑے فلیش پوائنٹ کی شکل اختیار کر گیا ہے ۔
کشمیر میڈیاسروس کے مطابق ’’کشمیر پر بات چیت کا آخری دور، بھارت اور پاکستان کیسے ایک پائیدار حل کی بات چیت کرسکتے ہیں‘‘ کے عنوان سے رپورٹ یو ایس انسٹی ٹیوٹ آ ف پیش نے اپنی ویب سائٹ پر جاری کی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگست 2019کے بعد کشمیر عدم اطمینان کا گڑھ بن گیا ہے جب بھارتی حکومت نے علاقے کی خصوصی آئینی حیثیت میں رد وبدل کیا اورنئی دلی کے براہ راست انتظام کے تحت اسے دو مرکزی علاقوں میں تقسیم کر دیا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ ابھی تک یہ لگ رہا ہے کہ بھارتی حکومت نے پاکستان اور اپنے زیر قبضہ جموں وکشمیر میں آزادی کی حامی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کے دروازے بند کر دیے ہیں۔ رپورٹ میں کہا کہ نئی دلی کی حکمت عملی کشمیر پر اپنا کنٹرول سخت کرنا ہے اور وہاں بھارتی سیاست کیلئے زیادہ جگہ پیدا کرنا ہے لیکن اس نقطہ نظر نے کشمیر میں عدم استحکام تیز کردیا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارت نے گزشتہ برس اگست میں کشمیر کے بارے میں جو فیصلہ کیا اسے کشمیریوں نے قبول نہیں کیا لیکن بھارت میں اسکا جوش و خروش سے خیر مقدم کیا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ مودی حکومت کیلئے پانچ اگست کا فیصلہ کرنا آسان تھا لیکن اب اس پر عمل درآمد مشکل بن چکا ہے اور یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا نئی دلی کے پاس کشمیر کواستحکام بخشنے اور اسے بھارتی دھارے میں لانے کیلئے کوئی طویل مدتی پالیسی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ
نئی دلی کی حکمت عملی وادی میں زیادہ سے زیادہ بھارت نواز سیاست کیلئے جگہ پیدا کرنا ہے یعنی ایسی سیاسی سرگرمی جو کشمیر کو بھارت کا لازمی جز سمجھتی ہو ۔ رپورٹ میں کہا کہ پی ڈی پی کے سابق رکن الطاف بخاری کی سربراہی میں وادی میں ’’اپنی پارٹی ‘‘ کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت سامنے لائی گئی ہے۔رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموںوکشمیر پر نئی دلی کے سخت کنٹرول میں جلد کوئی نرمی
کا امکان نہیں ہے کیونکہ انٹر نیٹ پر پابندی ختم کرنے کا عمل بھی سست روی کا شکار ہے ۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ اگر چہ امریکی محکمہ خارجہ اور یورپی یونین نے انٹرنیٹ کو مسلسل بند رکھنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے لیکن رواں برس گیارہ مئی کو بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ علاقے میں فور جی انٹرنٹ سرس کی بحالی کے مطالبے کو مسترد کر دیا۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ کشمیریوں کے لیے اپنے علاقے میں آبادیاتی تبدیلیوں کے اقدمات بھی پرشان کن ہیں جبکہ کشمیر میں غیر مسلموں کے سیلاب کے خدشات بھی یقینی طور پر موجود ہیں۔