امبالہ/نئی دہلی (این این آئی)رفال طیاروں کے بعد انڈیا نے فرانس سے ہیمر میزائلوں کا معاہدہ بھی کا فیصلہ کرلیا ۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق 29 جولائی کو انڈین ریاست ہریانہ کے شہر امبالہ میں رفال جنگجو طیاروں کے پہنچنے کا امکان ہے ،انڈین ذرائع کے مطابق اس دوران انڈیا فرانس سے خطرناک ہیمر میزائل کا معاہدہ بھی کر رہا ہے۔
یہ معاہدہ انڈین فوج ایمرجنسی پاورز کے استعمال کے تحت کر رہی ہے۔ماہرین کے مطابق انڈیا 60 سے 70 کلو میٹر کے فاصلے تک مار کرنے والے ہیمر میزائلوں کو چین کے ساتھ جاری کشیدگی کے تناظر میں خرید رہا ہے۔یاد رہے کہ فرانس نے اکتوبر 2018 میں پہلا رفال جنگی طیارہ فرانس میں ہی انڈیا کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کے حوالے کیا تھا۔بھارتی میڈیا نے سرکاری ذرائع کے حوالے سے بتایاکہ کم نوٹس کے باوجود فرانس ہمارے رفال جنگجو طیاروں کے لیے میزائل سپلائی کرنے کو تیار ہو گیا ہے،رفال کے پانچ جنگجو طیاروں کی پہلی کھیپ چار دن بعد 29 جولائی کو ہریانہ میں واقع فضائیہ کے امبالہ ہوائی اڈے پر اترے گی۔ہیمر میزائل تیار کرنے والی کمپنی سافران الیکٹرنک اینڈ ڈیفینس کے مطابق ’ہیمر میزائل دور سے ہی آسانی سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ فضا سے زمین پر مار کرنے والے اس میزائل کا نشانہ بہت درست بتایا گیا ہے۔کمپنی کے مطابق یہ سسٹم آسانی سے فٹ ہو جاتا ہے، گائڈنس کِٹ کے سہارے نشانے لگا سکتا ہے اور کبھی جام نہیں ہوتا۔ میزائل کے آگے لگی گائڈنس کِٹ میں جی پی ایس، انفراریڈ اور لیزر جیسی ٹیکنالوجی فٹ ہوتی ہے۔یاد رہے کہ گذشتہ 50 برسوں میں انڈین فضائیہ کی طاقت میں بہت اضافہ ہوا ہے۔
ڈھائی سو کلو وزن سے شروع ہونے والا ہیمر میزائل رفال کے علاوہ میراج جنگجو طیاروں میں بھی فٹ ہو سکتا ہے۔فرانس کے علاوہ ہیمر میزائل ایشائی ممالک جیسے مصر، قطر وغیرہ کے پاس بھی ہیں۔ماہرین کے مطابق ہیمر میزائل کسی بھی علاقے مثال کے طور پر پہاڑی علاقوں تک میں موجود بنکرز کو تباہ کر سکتے ہیں۔انڈیا نے فرانس سے 36 جنگجو طیاروں کا معاہدہ تقریباً 60 ہزار کروڑ روپے میں کیا تھا حالانکہ ان طیاروں کی صحیح قیمت کے بارے میں متعدد تنازعات کھڑے ہو چکے ہیں۔
یہ جنگجو طیارے فرانس کی کمپنی داسا نے بنائے ہیں اور اس کی خریداری پر کئی طرح کے سوال اٹھائے گئے ہیں۔فرانس کے ساتھ انڈیا کا رفال طیاروں کی خریداری کا معاہدہ متنازع رہا ہے اور انڈیا کی حزب اختلاف مطالبہ کرتی رہی ہے کہ فرانسیسی طیاروں کی خریداری میں مبینہ طور پر اربوں ڈالر کی بدعنوانی پر وزیراعظم نریندر مودی استعفیٰ دیں۔رفال طیارے کا معاملہ انڈین سپریم کورٹ تک جا چکا ہے لیکن وہاں بھی سکیورٹی وجوہات کی وجہ سے معاہدے سے متعلق تمام باتیں سامنے نہیں آسکیں۔
کانگریس کے سینئر رہنما منیش تیواری نے سوال کیا ہے کہ ’ہیمر کا معاہدہ رفال کے سودے کے وقت ہی کیوں نہیں کیا گیا۔ایک ٹویٹ میں کانگریس رہنما نے پوچھا ہے کہ اس معاملے میں سستی قیمت پر ملنے والے ’سپائڈر‘ اور ’پیو وے‘ ہتھیار کے بارے میں کیوں نہیں سوچا گیا۔ یہ انڈین فصائیہ کے پاس پہلے سے موجود ہیں۔منیش تیواری نے سوال کیا ہے کہ کیا ہیمر کی قیمت ان سے زیادہ ہے۔فرانس کی فوج کے پاس 2007 سے موجود ہیمر میزائل کا استعمال افغانستان اور لیبیا میں ہو چکا ہے، اسے بنانے والی کمپنی کا دعویٰ ہے کہ ماضی میں اس میزائل کا استعمال بہت کامیاب رہا ہے تاہم انڈیا فرانس سے کتنے ہیمر میزائل اور کس قیمت پر خرید رہا ہے اس بارے میں ابھی کچھ واضح نہیں ہے۔
متعدد زبانوں میں شائع ہونے والے میگزین دی انڈیا ٹوڈے میں تقریباً 100 میزائلوں کے معاہدے کا ذکر ہے۔بی جے پی کے سیکرٹری جنرل بھوپندر یادو نے کہا ہے کہ جو لوگ انڈیا سے اپنی سرحد کے دفاع کی حکمت عملی سے متعلق سوال کر رہے ہیں، رفال کو ہیمر میزائلوں سے لیس کیا جا رہا ہے۔ دشمن اب بنکروں میں بھی نہیں چھپ پائے گا۔بی جے پی کی حکومت رفال کی قیمت پر سوالات کو قومی سلامتی کا مسئلہ بنانے میں کامیاب رہی ہے۔
حالانکہ جب 1980 کی دہائی میں بوفور توپیں خریدی گئی تھیں تب جن لوگوں نے اس معائدے پر سب سے زیادہ شور مچایا تھا ان میں بی جے پی سب سے آگے تھی۔سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس رسرچ انسٹیٹیوٹ کے مطابق امریکہ اور چین کے بعد انڈیا سکیورٹی پر خرچ کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے۔ گذشتہ برس کے مقابلے انڈیا کے سکیورٹی بجٹ میں چھ عشاریہ آٹھ فیصد اضافہ ہوا ہے جو گذشتہ برس 2019 میں اکہتر عشاریہ ایک ارب ڈالر تھا تاہم انڈیا کا سکیورٹی سے متعلق کوئی بھی معاہدہ شاید ہی تنازعات سے بچ سکا ہو۔ چاہے وہ جواہر لعل نہرو کے دور کا جیپ معاہدہ ہو، بوفور معاملہ یا اب رفال جنگی طیاروں کا معاملہ۔