نیویارک (این این آئی )اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ برائے چلڈرن ایمرجنسی فنڈ (یونیسیف) نے انکشاف کیا ہے کہ رواں سال افغانستان میں یومیہ اوسطاً 9 بچے ہلاک یا معذور ہوئے۔یونیسیف نے افغانستان کو دنیا کا سب سے زیادہ جان لیوا جنگی حصہ قرار دیا گیا۔میڈیارپورٹس کے مطابق اس حوالے سے یونیسیف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہینریٹا فور نے بتایا کہ یہاں تک کہ افغانستان کے سنگین معیار کے مطابق
2019 خاص طور پر بچوں کے لیے مہلک رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ بچے، ان کے کنبے اور برادری روزانہ تنازعات کے بھیانک نتائج سے دوچار ہوتے ہیں۔رپورٹ میں جاری کردہ ایک بیان میں ہینریٹا فور نے کہا کہ مشکل حالات کے باوجود افغان بچے بڑے ہونے، اسکول جانے، مہارت سیکھنے اور اپنا مستقبل بنانے کے لیے بیقرار ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں ان کی غیر معمولی ہمت کو تقویت دینے کے لیے اور بہت کچھ کرنا چاہیے جبکہ یہ ضروری بھی ہے۔دنیا کے سب سے جان لیوا تنازع میں بچوں کی حفاظت کے عنوان سے جاری رپورٹ میں افغانستان میں تمام فریقین پر اس جنگ کو تقریباً 40 برس سے گھسیٹنے اور اس کے نتیجے میں بچوں کو بچانے کے اپنے فرض میں ناکامی کا الزام عائد کیا گیا۔اس رپورٹ میں کہا گیا کہ اس وقت افغانستان دنیا کے بدترین ہلاکت خیز ملک کے طور پر سامنے آیا ہے اور 2009 اور 2018 کے درمیان لگ بھگ 6 ہزار 500 بچے جاں بحق اور کم و بیش 15 ہزار زخمی (معذور) ہوچکے ہیں۔مذکورہ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ سال 2018 کے بعد سے افغانستان میں بچوں کی اموات کی شرح میں 11 فیصد اضافہ ہوا۔رپورٹ میں بچوں کی اموات کے اسباب میں خودکش بم حملوں میں اضافہ اور حکومت اور اس کے مخالف عسکریت پسندوں کے مابین زمینی جھڑپوں کا ذکر کیا گیا۔علاوہ ازیں یونیسیف نے افغان جنگ کے تمام فریقین پر زور دیا گیا کہ
وہ بین الاقوامی اور انسانی حقوق کے قانون کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو نبھائیں جس میں بچوں کی حفاظت، اسکولوں اور صحت کے مراکز کو نشانہ نہ بنانے اور انسانی امداد تک رسائی کی اجازت ہو۔اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ تنازعات سے وابستہ تشدد ہی صرف افغانستان میں بچوں کے لیے خطرہ نہیں ہے بلکہ افغانستان میں پروان چڑھنے والے
بچوں کو دیگر چیلنجز کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے جس میں شدید غذائی قلت بھی شامل ہے اور اس کی وجہ سے 6 لاکھ نوجوان متاثر ہیں۔اس کے علاوہ رپورٹ میں بچوں کی شادی کو بھی ایک بڑا مسئلہ قرار دیا گیا۔مذکورہ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ 3 میں سے ایک لڑکی کی شادی 18 سال کی عمر سے پہلے ہی کر دی جاتی ہے اور وہ منصوبہ بندی کے بغیر ہی زچگی کی طرف جاتی ہیں جبکہ باضابطہ تعلیم تک رسائی نہ ہونے سے تقریباً 37 لاکھ اسکول کی عمر والے بچے متاثر ہور ہے ہیں۔رپورٹ کے مطابق
یونیسیف لڑکیوں کو غیرت کے نام پر قتل، گھریلو زیادتی اور جنسی تشدد کے خطرے سے بچانے کے لیے افغان حکام اور مقامی برادری کے ساتھ بھی کام کر رہی ہے۔علاوہ ازیں یہ بھی بتایا گیا کہ شدید غذائی قلت کے خاتمے کے لیے یونیسیف 2 لاکھ 77 ہزار متاثرہ بچوں کو علاج فراہم کرتی ہے۔یہ ایجنسی مقامی حکام کے ساتھ مل کر سال 2018 میں شدید خشک سالی سے متاثرہ 28 لاکھ افراد کے لیے
پانی کی فراہمی کا بھی کام کر رہی۔اس کے علاوہ قحط زدہ علاقوں میں پانی کی فراہمی کے لیے یونیسیف شمسی توانائی سے چلنے والے واٹر سسٹم کا استعمال کررہی ہے۔تاہم رپورٹ میں اس امر پر بھی بحث کی گئی کہ اگر زیادہ سے زیادہ بچوں تک پہنچنا ہے تو مذکورہ پروگراموں کو تیزی سے بڑھایا جانا چاہیے۔اسی طرح یہ بھی کہا گیا کہ یونیسف مزید 3 لاکھ شدید غذائیت کا شکار بچوں کو سہولت فراہم کرنے کی خواہش مند ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ 36 فیصد ایسی افغان آبادی بھی ہے جسے ایسے پینے کے صاف پانی تک رسائی حاصل نہیں ہے جو بیرونی آلودگی سے محفوظ ہو۔