انقرہ(سی پی پی )ترک صدر رجب طیب اردگان نے کہا ہے کہ امریکی سفارتخانے کی منتقلی جیسے اقدام سے کوئی فرق نہیں پڑتا،القدس فلسطینیوں کا ہے اور رہے گا،ہم وہ نہیں جو مال و زر کی لالچ میں بنی نوع انسان کے درمیان نفاق ڈالنے میں مصروف رہیں۔ ترک صدر رجب طیب اردگان نے امریکی سفارت خانہ القدس منتقل کرنے پر ردعمل دیتے ہوئے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ مسلم امہ جانتی ہے کہ القدس شہر
فلسطین کا صدر مقام ہے۔ہم اسی اجداد عثمانیہ کی اولاد ہیں جن کا جھنڈا 6 صدیوں تک 3 براعظموں پر لہراتا رہا اور جس نے ہمیشہ مظلوم کا ساتھ دیا۔صدر اردگان نے کہا کہ امریکہ بہادر القدس میں اپنا سفارت خانہ منتقل کرتیہوئے اسے اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینا چاہتاہے “ہماری بلا سے کرتا رہے ” اقوام متحدہ کے 128 ارکان نے اس امریکی اقدام کی مخالفت کی اور جو باقی بچے ان کو امریکی امداد کی لالچ دیتے ہوئے اپنے حق میں استعمال کرلیا۔میں ان سے کہتاہوں کہ آپ جو چاہے کر لیں مسلم امہ جانتی ہے کہ مشرقی القدس فلسطین کا صدر مقام تھا اور ہے۔ہم وہ نہیں جو مال و زر کی لالچ میں بنی نوع انسان کے درمیان نفاق ڈالنے میں مصروف رہے “۔علاوہ ازیں ترک صدر رجب طیب اردگان نے کہا ہے کہ میں آج بھی بشار الاسد کیخلاف ہوں، روس اور ایران کے ساتھ تعاون شامی عوام کی خاطر ہے، اسلحے کی دوڑ میں امریکہ نے متعدد حساس پہلووں کو نظر انداز کر دیا ہے،،امریکہ نے 5 ہزار ٹرالر اور 2 ہزار کارگو طیاروں کے ذریعے اسلحہ شام میں بھیجا،یہ اسلحہ یہاں کیوں بھیجا گیا ہے،شامی علاقے پر اسرائیلی بمباری جنگ کو دعوت دے رہی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اس وقت علاقے میں امریکہ کی جانب سے اسلحے کی دوڑ جاری ہے اور یہ چیز اس بات کی عکاس ہے کہ اسلحے کی
دوڑ میں امریکہ نے متعدد حساس پہلووں کو نظر انداز کر دیا ہے۔امریکہ کی، ایران کے ساتھ طے شدہ، جوہری سمجھوتے سے دستبرداری علاقے میں پر مسائل دور پیدا کرے گی۔پیر کو ترک صدر اردگان نے ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ایران اور امریکہ، چین، روس، فرانس، برطانیہ اور جرمنی کے درمیان سال 2015 میں سمجھوتے کا طے پانا عالمی تسلسل کی ضمانت ہے۔ امریکہ نے 5 ہزار ٹرالر اور 2 ہزار کارگو طیاروں کے
ذریعے اسلحہ شام میں بھیجا ہے۔یہ اسلحہ یہاں کیوں آیا ہی حقیقت یہ ہے کہ اس وقت علاقے میں امریکہ کی طرف سے اسلحے کی دوڑ جاری ہے اور یہ چیز اس بات کی عکاس ہے کہ اسلحے کی دوڑ میں امریکہ نے متعدد حساس پہلووں کو نظر انداز کر دیا ہے۔ایردوان نے کہا کہ اگر اسرائیل ، شام کی زمیں پر 50 کے لگ بھگ میزائل پھینک چکا ہے تو اسے کیا کہا جا سکتا ہے۔اسے کھلے بندوں علاقے میں جنگ پر اکسانے کی کاروائی کہا جا سکتا ہے۔
میں آج بھی بشار الاسد کے خلاف ہوں اور اس کے ساتھ نہیں ہوں۔لیکن جہاں تک ترکی کے روس اور ایران کے ساتھ مل کر اٹھائے گئے اقدامات کا تعلق ہے تو وہ شامی عوام کے امن کی طرف اٹھائے گئے اقدامات کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہم جو بھی قدم اٹھا رہے ہیں اسی چیز کو پیش نظر رکھتے ہوئے اٹھا رہے ہیں۔۔ترکی اور برطانیہ کے درمیان تعلقات پر بات کرتے ہوئے صدر ایردوان نے کہا کہ اس وقت ترکی اور برطانیہ کے درمیان تجارتی حجم 17 بلین ڈالر کے قریب ہے اور ہم اس میں مزید اضافہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ اس وقت دفاعی صنعت میں برطانیہ اور ترکی کے درمیان تعلقات موجود ہیں اور ہم انہیں بھی فروغ دینے کے لئے کوششیں کریں گے۔