تہران(این این آئی)تاجک حکام کے فیصلے کی روشنی میں تاجکستان میں ایرانی سفارت خانے نے ملک کے شمال میں اپنے تمام تجارتی اور ثقافتی نمائندہ دفاتر کو بند کر دیا۔امریکی ٹی وی کے مطابق اس بات کا انکشاف ایران اور تاجکستان کی کئی ویب سائٹوں کی جانب سے کیا گیا ۔تاجک حکام نے ملک میں ایرانی انقلاب کے سرخیل اور ایرانی نظام کے بانی خمینی اور دیگر نمایاں ایرانی مذہبی شخصیات کی تالیفات کی فروخت پر بھی پابندی عائد کر دی ۔
ویب سائٹ رپورٹوں کے مطابق شمالی شہر خْجَند میں ایرانی تجارتی اور ثقافتی دفاتر کی بندش عمل میں آئی ہے کیوں کہ اب وہاں ان دفاتر کی سرگرمیوں کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ معلوم رہے کہ ایرانی سفارت خانے کے ذمے داران نے اس معاملے کے حوالے سے ذرائع ابلاغ کے استفسارات کا کوئی جواب نہیں دیا۔گزشتہ دو برسوں میں تاجک حکام دو شنبہ شہر میں امام خمینی امدادی سوسائٹی اور ایرانی ثقافتی دیوانِ وزارت کے دفاتر کے علاوہ تاجک اور ایرانی ہلالِ احمر تنظیموں کے مشترکہ ہسپتال کو بھی بند کر چکے ہیں۔دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات اْس وقت کشیدہ ہوئے جب ایران نے کالعدم تاجک جماعت کے قائد محی الدین کبیری کو دسمبر 2015 میں تہران میں ہونے والی اسلامی وحدت کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی۔ کبیری مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے کانفرنس میں شریک ہوئے اور انہوں نے تہران میں مرشد اعلی علی خامنہ ای سے ملاقات بھی کی۔اْس وقت سے اب تک دونوں ملکوں کے ذمے داران کے درمیان اختلافات پر بات چیت کے لیے کئی ملاقاتیں ہو چکی ہیں تاہم ان کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں روسی اخبارات نے بھی اہم کردار ادا کیا جن کا کہنا تھا کہ شنگھائی تعاون تنظیم میں ایران کی رکنیت مسترد کیے جانے کی ایک وجہ تاجکستان تھا۔ واضح رہے کہ ایران مذکورہ تنظیم میں مبصر رکن ہے جب کہ تاجکستان تنظیم کے بانی ارکان میں شامل ہے۔
ایک روسی اخبار کے مطابق تاجکستان کی جانب سے ایران کی رکنیت کی مخالفت کا سبب.. ایرانی حکومت کے سینئر ذمے داران اور تاجک اپوزیشن رہ نما کے درمیان ہونے والی ملاقاتیں تھیں۔ محی الدین کبیری مئی 2015 میں تاجکستان سے کوچ کر گئے تھے۔ذرائع کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات کے دوسرے پہلو ہیں۔ ان میں تاجکستان میں مالی رقوم اور جائیداد کا مالک ایرانی تاجر بابک زنجانی نمایاں ترین پہلو ہے ،
زنجانی سزائے موت کا فیصلہ سْننے کے بعد اس وقت تہران کی جیل میں ہے۔ ایرانی وزارت تیل کا کہناتھا کہ ایران پر پابندیوں کے وقت زنجانی نے ایک ارب ڈالر کا تیل فروخت کر کے اْس کی رقم ملکی خزانے میں جمع نہیں کرائی بلکہ اس کا زیادہ تر حصہ تاجکستان کے بینکوں میں رکھا گیا۔ واضح رہے کہ تاجک حکومت اس الزام کو قبول کرنے سے انکار کرتی ہے۔