واشنگٹن( آن لائن )امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ سعودی عرب کے دوران 110 بلین ڈالر مالیت کے اسلحے کے سمجھوتے سے متعلق خبر کے جھوٹ ہونے کا دعوی کیا گیا ہے۔امریکہ کے سرفہرست تھنک ٹینک اداروں میں سے بروکنگ انسٹیٹیوٹ کے ماہرین میں سے بروس ریڈل نے کہا ہے کہ 110 بلین ڈالر مالیت کا اسلحے کا سمجھوتہ مختلف حساب کتاب سے طے شدہ اور زیادہ تر ٹرمپ سے پہلے کے ادوار میں کئے گئے سمجھوتوں پر مشتمل ہے۔
ریڈل نے کہا ہے کہ دفاعی صنعت کے نمائندوں اور اسمبلی اراکین کے ساتھ ملاقاتوں کے نتیجے میں مجھے معلوم ہوا ہے کہ ایسا کوئی سمجھوتہ نہیں کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ متعلقہ حکام سے ملاقاتوں میں جو کہا گیا وہ یہ ہے کہ “110 بلین ڈالر مالیت کا کوئی سمجھوتہ موجود نہیں ہے۔ اس کی جگہ ارادے اور خواہشات کے حامل بیانات پر مبنی چند مراسلے موجود ہیں۔علاوہ ازیں آج تک سینٹ کی متعلقہ کمیٹی کی منظوری کے لئے بھی کوئی سمجھوتہ پیش نہیں کیا گیا۔ریڈل نے کہا ہے کہ جس 110 بلین مالیت کے سمجھوتے کا دعوی کیا جا رہا ہے اسے امریکی وزارت دفاع “شیڈولڈ سیل” قرار دے رہی ہے۔انہوں نے دعوی کیا ہے کہ اس نام نہاد سمجھوتے کے مندرجات میں شامل بعض فروختیں بھی سابق صدر اوباما کے دور میں طے پانے والے سمجھوتے ہیں۔ریڈل نے کہا کہ خبر میں جگہ پانی والی ہیلی کاپٹروں اور اس سے مشابہہ اسلحے کی فروخت کو بھی اصل میں پرانے پیکیج کو نئے سمجھوتے کی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ سعودیوں اور ٹرمپ انتظامیہ نے شاہی خاندان کی خواہشوں کی فہرست کو اور احتمالی فروخت کے سمجھوتوں کو ایک جگہ جمع کر کے ایسے پیش کیا ہے کہ جیسے سمجھوتہ طے پا گیا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ خبر میں دئیے گئے اعداد و شمار تک ایک دوسرے سے ہم آہنگ نہیں ہیں یعنی یہ خبر جھوٹی ہے۔بروس ریڈل نے کہا ہیکہ سعودی عرب کے پیٹرول کی گرتی ہوئی قیمتوں اور یمن کی جنگ کی وجہ
سے سعودی عرب کا یہ قیمت ادا کر سکنا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ یہی نہیں بلکہ اس سے قبل کی فروختوں کی ادائیگیوں کی وصولی میں بھی مسائل کا سامنا ہو رہا ہے۔واضح رہے کہ گذشتہ ماہ ٹرمپ کے دورہ سعودی عرب کے دوران 110 بلین ڈالر مالیت کے جزوی اسلحے ، انرجی اور ٹیکنالوجی جیسے شعبوں سمیت کل 380 بلین ڈالر مالیت کے سمجھوتوں کے طے پانے کا اعلان کیا گیا تھا۔