قطر تنازعہ تو شروعات ہیں،تیسری عالمی جنگ کا آغاز،تیاریاں مکمل،کون کون سے ممالک دنیا کے نقشے سے مٹ جائیںگے؟تہلکہ خیزانکشافات

6  جون‬‮  2017

نیویارک(آن لائن) سعودی عرب اور 6دیگر عرب ممالک کی جانب سے اچانک قطر سے سفارتی تعلقات کے خاتمے پر دنیا میں بے چینی پائی جارہی ہے-امریکا کے دوترین اتحادیوں سعودی عرب اور قطر کے درمیان تنازع کی وجہ وہ نہیں جو بظاہر بیان کی جارہی ہے-عالمی امور کے بعض ماہرین کے مطابق دنیا کی بڑی طاقتوں کے لیے قطرکو جو ”خدمات“دینا تھی وہ دے چکا ہے-امریکا کو ایک دہائی کے دوران کئی مبضوط فوجی اڈے میسرآئے ہیں

جس سے قطرکی حیثیت پہلے سی نہیں رہی-ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ امریکا اور اسلحہ سازمغربی ممالک کی اقتصادی صورتحال انتہائی خراب ہے جوکہ عالمی امن کے لیے خطرہ ہے‘کیونکہ جنگ ”برآمد “کرنے والی عالمی طاقتوں کے پاس جنگ سے زیادہ منافع دینے والی کوئی ”جنس “دستیاب نہیںلہذا بدترین معاشی حالات میں جنگوں کے ذریعے ہی یہ عالمی قوتیں اپنی معشیتوں کو مضبوط کرتی ہیں-دنیا بھر کے ماہرین اور تجزیہ نگاروں کی نظریں اس وقت مڈل ایسٹ میں پیداہونی والی اس نئی صورتحال پر لگی ہیں ‘سعودی عرب سفارتی محاذ پر اپنے تروسائل اور اثرورسوخ استعمال کرکے اسلامی ممالک پر قطر سے تعلقات ختم کرنے کے لیے دباؤ بڑھا ہے اور آنے والے چند دنوں میں صورتحال مزیدبگڑسکتی ہے-مڈل ایسٹ میں نیا تنازعہ مسلمان دنیا کے لیے ناقبل تلافی نقصان ثابت ہوگا جس کے بعد بہت ساری چھوٹی ریاستوں کے لیے اپنا وجود برقراررکھنا ناممکن ہوجائے گا-ادھر امریکا نے قطر کی پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ قطر کے اقدامات سے امریکا اور دوحہ کے پڑوسی ملکوں دونوں کو تشویش ہے۔عرب نشریاتی ادارے نے ایک اعلی امریکی عہدیدار کے حوالے سے بتایا ہے کہ خلیجی ملکوں کے درمیان مستقل کشیدگی امریکا کے مفاد میں نہیں۔ اسلام پسندوں اور ایران کی حمایت کے الزامات کے بعد خلیجی اور عرب ملکوں کا قطر کا بائیکاٹ دوحہ حکومت کے تصرفات کا رد عمل ہے۔

قطر کے اقدامات سے نہ صرف خلیجی ملکوں کو تشویش ہے بلکہ امریکا کو بھی تشویش لاحق ہے۔ہم تمام ممالک پر درست سمت میں اقدامات کی توقع رکھتے ہیں۔وائٹ ہائوس کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ قطر کے سفارتی بائیکاٹ کے بعد خلیجی ممالک کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی کم کرنے کے پابند ہیں۔امریکی وزیرخارجہ ریکس ٹیلرسن نے سڈنی میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ خلیجی ملکوں کی طرف سے قطر کے بائیکاٹ سے دہشت گردی کے خلاف جنگ متاثر نہیں ہوگی۔واشنگٹن تمام خلیجی حلیفوں سے اختلافات کو جلد دور کرنے پر زور دیا ہے۔اسلامی ممالک کے عوام اس صورتحال پریشان ہیں۔ سفارتی تعلقات ختم کیے جانے کے ساتھ قطر کو سعودی سربراہی میں بننے والے اسلامی عسکری اتحاد سے بھی خارج کردیا گیا، جب کہ یمن لڑائی میں شامل قطری فوج کو واپس بھیجا جا رہا ہے۔ اس بحران کے پیچھے موجود اصل حقائق آنے تو ابھی باقی ہیں،

لیکن مشرق وسطیٰ پر نظر رکھنے والے عالمی سیاسی ماہرین کے مطابق ممکنہ طور پر سعودی حکومت نے قطری امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی کے گزشتہ ماہ دیئے گئے بیان کے رد عمل میں یہ فیصلہ کیا۔قطر پر لگائے گئے الزامات کے حوالے سے کسی بھی ادارے یا ملک کے پاس کوئی مستند دستاویزات موجود نہیں۔سعودی عرب سمیت دیگر ممالک نے قطر کی جانب سے شدت پسندوں کی معاونت کرنے کے مستند ثبوت فراہم نہیں کیے، جب کہ قطر نے بھی اپنی صفائی میں بیانات کے علاوہ کوئی ثبوت پیش نہیں کیے۔ بظاہر چھوٹے مگر دنیا کے امیر ممالک میں شمار ہونے والے قطر کی آبادی 27 لاکھ کے قریب ہے اور اس کی زیادہ تر تجارت سعودیہ اور عرب ممالک کے ذریعے ہی ہوتی ہے۔قطر اور عرب ممالک کے درمیان تجارتی تبادلے کی مجموعی مالیت 45 ارب قطری ریال ہے، جس میں سے 37 ارب قطری ریال کی تجارت کا تبادلہ تو صرف خلیجی ممالک کے ساتھ ہوتا ہے۔قطر کا سب سے زیادہ تجارتی تبادلہ سعودی عرب کے ساتھ ہی ہوتا ہے،

جو مجموعی تجارت کا 82 فیصد ہے، جب کہ کویت کے ساتھ 7 فیصد اور بحرین کے ساتھ 5 فیصد ہے۔قطر کی دنیا بھر سے تجارتی تبادلے کی مالیت 324 ارب قطری ریال ہے۔تعلقات ختم ہونے، ایئرلائنز سروس منقطع ہونے اور سرحدیں بند کرنے سے قطر کو جہاں سخت تجارتی نقصان پہنچے گا، وہیں دوحہ کو اپنی روز مرہ کی ضروریات پوری کرنے میں بھی مشکلات کا سامنا ہوگا۔صحرائی ریاست ہونے کی وجہ سے قطر کا اشیاءخوردونوش کا انحصار بیرونی ریاستوں پر ہوتا ہے، جب کہ ترقیاتی کاموں کے لیے بھی قطر کو دوسرے ممالک سے خام مال کی ضرورت پڑتی ہے۔قطر اپنی زیادہ تر ضروریات سعودی عرب کے زمینی راستے سے پوری کرتا ہے، جو بند ہونے سے اس کے پاس فضائی اور سمندری راستے بچ جائیں گے۔فضائی راستے کے لیے بھی قطر کو اب طویل روٹ اختیار کرنا پڑیں گے، کیوں کہ تعلقات ختم کرنے والے ممالک نے ہوائی راستے بھی بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔اس پورے مسئلے کا سب سے زیادہ نقصان قطر کو ہی ہوگا،

جو اس وقت 2022 میں فٹ بال کے عالمی ورلڈ کپ کی تیاریوں اور دیگر بڑے تعمیراتی منصوبوں سمیت کئی اہم تجارتی و اقتصادی منصوبوں پر کام جاری رکھے ہوئے ہے۔اگر قطر اور خلیجی ممالک کے درمیان مسئلہ حل ہونے کے بجائے پیچیدہ ہوتا چلا گیا تو ممکنہ طور پر قطر کے عوام اپنے حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔عوامی احتجاج، تباہ ہوتی معیشت، سفارتی تنہائی اور دیگر مسائل کی وجہ سے قطر کے حکمرانوں کے پاس اقتدار چھوڑنے یا پھر سعودی اور دیگر ممالک سے معافی مانگنے اور تعلقات بحال کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہوگا۔بظاہر قطر بھی ایران یا پھر اخوان المسلمون کی وجہ سے اتنا بڑا خطرہ مول نہیں لے گا، تاہم حالات کچھ بھی ہوسکتے ہیں۔قطر اور دیگر ممالک میں پیدا ہونے والے نئے بحران پر امریکا، ترکی اور پاکستان جیسے ممالک نے غیر جانبدار رہتے ہوئے معاملے کو افہام و تفہیم سے حل کرنے پر زور دیا ہے۔قطر کے وزیر خارجہ محمد بن عبدالرحمان الثانی نے اپنے ایک انٹرویومیں کہا ہے کہ تمام ممالک کو بیٹھ کر مذاکرات کے ذریعے اپنے اختلافات کو دور کرنے چاہئیں۔

قطری وزیرِ خارجہ نے اچانک فیصلے پر کہا کہ ہم قطر کے خلاف پیدا ہونے والے حیران کن تنازعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ ہم اس بحران کے پیچھے حقیقی وجوہات کے بارے میں نہیں جانتے۔محمد بن عبدالرحمان الثانی کے مطابق اگر اس بحران کے پیچھے اصل وجوہات تھیں تو ان پر جی سی سی کے ہونے والے اجلاس میں بات چیت یا بحث کی جا سکتی تھی تاہم اس اجلاس میں اس بارے میں کوئی بات چیت یا بحث نہیں کی گئی۔انہوں نے کہا کہ ہمیں افسوس ہے کہ جی سی سی میں شامل کچھ افراد قطر پر اپنی خواہش نافذ کرنا چاہتے یا اس کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنا چاہتے ہیں جسے ہم مسترد کرتے ہیں۔ تاہم ہمارا خیال ہے کہ اس نے جی سی کے کردار پر ایک بڑا سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

اس سوال پر کہ اس بحران سے قطر میں عام زندگی کتنی متاثر ہو گی، شیخ محمد کا کہنا تھا کہ قطر میں اس سے پہلے بھی متعدد بحران آ چکے ہیں جیسا کہ 1996 میں حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش اور 2014 میں جی سی سی ممالک اور قطر کے درمیان پیدا ہونے والا بحران۔تاہم ہم نے ان بحرانوں پر قابو پا لیا گیا۔ قطر اپنے شہریوں کو معمول کی زندگی فراہم کرنے کے لیے خود پر انحصار کرے گا۔ ہمارے پاس ایسے پروگرامز ہیں جس کے ذریعے ہم زندگی کے تسلسل اور عام طور پر اہم عمارت کے منصوبوں کو یقینی بنائیں گے۔

موضوعات:



کالم



شاہ ایران کے محلات


ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…

مشہد میں دو دن (آخری حصہ)

ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت…

مشہد میں دو دن (دوم)

فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…