واشنگٹن (اے پی پی)سات مسلم اکثریتی ملکوں پر عارضی سفری پابندیوں سے متعلق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے انتظامی حکم نے یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ امیگریشن کے امریکی قوانین پر سختی سے عمل درآمد کا ارادہ رکھتے ہیں۔ صدر اوباما کے دور میں 2009 اور 2015 کے درمیان 25 لاکھ افراد کی ریکارڈ تعداد کو واپس کیا گیا۔
صدر ٹرمپ مزید 10 ہزار امیگریشن آفیسر اور 5 ہزار سرحدی نگرانی کے اہل کار بھرتی کرنا چاہتے ہیں۔ جس سے امیگریشن عہدے داروں کی تعداد بڑھ کر 20 ہزار اور سرحدی نگرانی کی فورس 21 ہزار ہوجائے گی۔ اس اضافی تعداد سے غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف اقدامات میں تیزی آئے گی۔ امیگریشن افسر شہروں اور قصبوں میں چھپے ہوئے غیر قانونی تارکین وطن کو تلاش کریں گے، وہ ان جگہوں پر چھاپے ماریں گے جو انہیں روزگار فراہم کرتے ہیں۔ امیگریشن محکمے کی پریس سیکرٹری جینی فر ایلزا کا کہنا ہے کہ غیر قانونی تارکین وطن کے لیے امریکہ بھر میں 203 حراستی مراکز موجود ہیں جن میں 34 ہزار کے لگ بھگ افراد کے رکھنے کی گنجائش موجود ہے۔ ہرسال تقریباً چار لاکھ غیر قانونی تارکین وطن کو حراست میں لیا جاتا ہے جو اوسطاً 30 دنوں تک حراستی مراکز میں قیام کرتے ہیں۔امریکہ میں امیگریشن کی عدالتوں پر مقدمات کا بھاری بوجھ ہے ایک اندازے کے مطابق اس وقت پانچ لاکھ مقدمے زیر التوا ہیں۔ کسی شخص کے خلاف مقدمے کی سماعت کی باری آنے میں اوسطاً 678 دن لگ جاتے ہیں۔ امیگریشن حکام کے مطابق 2016 میں دو لاکھ 40 ہزار سے زیادہ افراد کو واپس بھیجا گیا جن میں 65 ہزار کے لگ بھگ افراد کو ملک کے اندر سے پکڑا گیا تھا باقی افراد کو سرحد عبور کرتے وقت حراست میں لیا گیا تھا۔ واپس بھیجے جانے والے زیادہ تر افراد کا تعلق میکسیکو، گوئٹے مالا، ہینڈورس اور ایل سلواڈور سے تھا۔
ایلزا کے مطابق ایک فرد کی واپسی پر 12 ہزار ڈالر سے زیادہ خرچ آتا ہے۔ اوباما کے دور میں واپس بھیجے جانے والوں پر امریکہ کے خزانے کو 30 ارب ڈالر سے زیادہ کا بوجھ برداشت کرنا پڑا تھا۔اگر ججوں کی تعداد ، مقدمے کے فیصلے کی مدت اور اخراجات سے متعلق اعداد و شمار کو سامنے رکھا جائے تو امریکہ سے تمام غیر قانونی تارکین وطن کو ، جن کی تعداد کا تخمینہ ایک کروڑ 10 لاکھ سے زیادہ لگایا جاتا ہے، 20 سال کا عرصہ اور 400 سے 600 ارب ڈالر تک کے اخراجات اٹھیں گے۔