ماسکو(آن لائن )روسی صدر ولاد ی میر پیوٹن نے دنیا کے با اثر ترین افراد کوانتظا ر کی سولی پر لٹکا دیا جن میں امریکی صدر بارک اوبامہ ،پاپ فرانسس اور ملکہ برطانیہ بھی شامل ہیں۔البتہ ترک صدر رجب طیب اردوان ان لیڈروں میں شامل ہیں جنہوں نے ملاقات کے لیے ایک سے زائد مرتبہ صدر پیوٹن کو انتظار کروایا۔
جوڈو کراٹے کے بہترین کھلاڑی ، شکار کے شوقین اور جنگجو مزاج ولادی میر پیوٹن کو جدید دور کے زار کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔افغانستان سے پسپائی کے بعد روسی فیڈریشن ٹوٹنے اور وسط ایشیائی ریاستوں کے آزاد ہونے اورمشرقی یورپ کے ہاتھ سے نکل جانے کے بعد روس طویل عرصہ اقتصادی بد حالی سے دو چار رہا اور داخلی طور پر بھی شدید ابتری کی صورتحال تھی لیکن پیوٹن کے دور حکومت میں روس پھر طاقت ور ملک کے طور پر ابھر رہا ہے۔پیوٹن کی اس غیر معمولی کارکردگی کے باوجود وہ بین الاقوامی سیاسی حلقوں میں لیٹ لطیف حکمران کے طور پر دیکھے جاتے ہیں۔نجی نیوز چینل جیو نیوز کے مطابق 2014میں جرمن چانسلر انجیلا مرکل کو پیوٹن سے ملاقات کے لیے چار گھنٹے اور پندرہ منٹ کا درد ناک انتظار کرنا پڑا۔اسی سال یوکرین کے صدر وکٹر یونکاوچ چار گھنٹے تک پیوٹن کی راہ تکتے رہے ،یوکرین ہی کر وزیر اعظم یوریاٹیموشن کو تین گھنٹے ،بیلا روس کے صدر الیگزنڈر روکاشن کو تین گھنٹے ،جاپان کے وزیراعظم شین ڑوئے کو تین گھنٹے ،منگلولیا کے صدر تشکیا جین کو دو گھنٹے ،اسرائیلی صدر شمعون پرے ڈیڑھ گھنٹے ،بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو ایک گھنٹے ،پاپ فرانسس کو پچاس منٹ ،سوئیڈ ن کے حکمران کو چالیس منٹ ،امریکی صدر باراک اوبامہ کو چالیس منٹ ،جنوبی کوریا کی صدر کو آدھے گھنٹے ،سپین کے حکمران کو بیس منٹ اور برطانیہ کی ملکہ کوئین الزبتھ کو چالیس منٹ تک پیوٹن کا انتظار کرنا پڑا۔ماسکو میں پیوٹن کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ اہم ملاقاتوں سے پہلے ہر چیز کو ڈبل چیک کرنا پیوٹن کی عادت ہے جو ان کے شیڈول متاثر کرتی ہے۔البتہ ترک صدر رجب طیب اردوان ان لیڈروں میں شامل ہیں جنہوں نے ملاقات کے لیے ایک سے زائد مرتبہ صدر پیوٹن کو انتظار کروایا۔
برطانوی اخبار’ ایکسپریس‘کے مطابق ترک صدر نے روسی ہم منصب کو اس وقت انتظار کروایا تھا جب دونوں ممالک کے درمیان تعلقات انتہائی کشیدہ ہو گئے تھے اور اس سلسلے میں دونوں حکمرانوں کی ملاقات ہوئی تھی ،ترک صدر کی جانب سے انتظار کرائے جانے پر ولادی میر پیوٹن نے ناراضگی کا اظہار بھی کیا تھا۔مذکورہ ملاقات ترکی کی جانب سے روس کا جنگی جہاز مار گرائے جانے کے بعد ہوئی تھی۔