اکارا (آئی این پی ) گھانا میں گاندھی کے مجسمے کو ہٹانے کیلئے مہم عرج پر آ گئی۔ افریقی رہنما نیلسن منڈیلا کا کہنا تھا کہ مہاتما گاندھی کی تعلیمات جنوبی افریقہ سے نسل پرستانہ نظام کے خاتمے میں مددگار رہیں تھیں لیکن اس کے باوجود سبھی افریقی رہنما گاندھی شخصیت سے جو انڈیا کے بابائے قوم کے نام سے معروف ہیں متاثر نہیں ہیں۔ گھانا میں یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے موہن داس کرمچندگاندھی کے خلاف ایک آن لائن مہم شروع کی جس کی ایک ہزار سے زیادہ افراد نے حمایت کی۔ اس میں اکارا میں یونیورسٹی کیمپس میں نصب گاندھی کے ایک مجسمے کو ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا، مطالبے میں کہا گیا ہے کہ گاندھی مجسمے کو فوری طور پر گرایا جائے۔ ان ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ گاندھی نے گرچہ عدم تشدد کے فلسفے پر عمل پیرا ہوکر ہندوستان میں آزادی کی مہم چلائی تھی اور کامیابی حاصل کی لیکن ’نسل پرستی بھی ان کی شناخت‘ تھی۔ اس آن لائن عرضی میں گاندھی جی کی بعض تحریروں سے ایسے اقتباسات کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں انھوں نے افریقی نسل کے لوگوں کو بیان کرنے کے لیے ’وحشی یا پھر مقامی افریقی اور کافر‘ جیسے الفاظ سے کا استعمال کیا ہے۔ اس میں گاندھی کے اس خط کی بھی مثال دی گئی ہے جو انھوں نے 1893 میں اس وقت کی جنوبی افریقہ کی پارلیمان کو لکھا تھا۔ اس میں گاندھی نے لکھا تھا کہ ’ کالونی میں اب یہ عام خیال غالب ہوتا نظر آتا ہے کہ وحشیوں یا پھر مقامی افریقی لوگوں کے مقابلے میں انڈین تھوڑا بہتر ہوتے ہیں۔گاندھی کے مجسمے کو انڈیا نے گھانا کو بطور تحفہ پیش کیا تھا اور گذشتہ جون میں جب بھارتی صدر پرنب مکھرجی نے اکارا کا دورہ کیا تو اس کی نقاب کشائی کی گئی تھی۔ اس کی مخالفت تو فورا ہی شروع ہوگئی تھی۔ پروفیسر نے جن جذبات کا اظہار کیا تھا اس کی حمایت کرتے ہوئے گھانا کے بعض لوگوں نے’گاندھی مسٹ کم ڈاؤن‘ کا ہیش ٹیگ استعمال کیا۔مطالبے کے بعد انتظامیہ نے فیصلہ کیا ہے کہ گاندھی کے مجسمے کو گرادیا جائے۔