واشنگٹن(نیوزڈیسک)امریکی صدر براک اوباما نے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے منصوبے میں تبدیلی کا اعلان کرتے ہوئے 2016 کے بعد بھی وہاں امریکی فوجی تعینات رکھنے کا اعلان کیا ہے،امریکہ افغانستان سے کیے گئے وعدوں پر قائم ہے اور افغان افواج کو مدد فراہم کرتا رہے گا، آئندہ برس کے دوران افغانستان میں دس ہزار کے قریب امریکی فوجی موجود رہیں گے اور 2017 سے یہ تعداد ساڑھے پانچ ہزار ہو جائے گی،افغانستان سے متعلق فیصلہ مایوس کن نہیں،زمینی حقائق دیکھ کرکیا،امریکاکی قومی سلامتی کے لیے یہ اقدام بےحد ضروری تھا، قندوز شہر کو طالبان سے کامیابی سے خالی کرایا گیاطالبان کو کسی بھی جگہ پر قبضہ نہیں کرنے دیں گے ،میں اپنی ٹیم کیساتھ افغان صورتحال کا باقاعدگی سے جائزہ لیتاہوں،پاکستانی کارروائی کی وجہ سے القاعدہ پردباﺅ بڑھا اوراس کے ارکان افغانستان چلے گئے، کابل میں اب بھی طالبان کی جانب سے حملے جاری ہیں، میں ایک نہ ختم ہونے والی جنگ کے نظریے کی حمایت نہیں کرتامگرافغانستان آج بھی بدستور خطرناک ملک ہے، تمام اتحادیوں پرزوردیتے ہیں طالبان کومذاکرات کی میزپرلانے میں کرداراداکریں ، آیندہ ہفتے وزیراعظم نوازشریف کی میزبانی کروں گا، نوازشریف سے ملاقات میں طالبان،افغان حکومت سے مذاکرات آگے بڑھانے پربات ہوگی،جمعرات کو امریکی صدر براک اوباما نے وائٹ ہاﺅس میں افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے منصوبے میں تبدیلی کا اعلان کرتے ہوئے 2016 کے بعد بھی وہاں امریکی فوجی تعینات رکھنے کا اعلان کیا،اپنے خطاب میں امریکی صدر نے کہا کہ آئندہ برس کے دوران افغانستان میں دس ہزار کے قریب امریکی فوجی موجود رہیں گے اور 2017 سے یہ تعداد ساڑھے پانچ ہزار ہو جائے گی،امریکی صدرباراک اوبامانے کہاکہ افغانستان میں آیندہ سال 9800امریکی فوجی برقرار رہیں گے، 5500امریکی فوجی جلال آباد اور قندھار میں رہیں گے ،ان کا کہناتھا کہ افغانستان میں امریکی فوج42 ملکی اتحاد کاحصہ ہے،اورافغانستان کی بیسز پرفوجیوں کی موجودگی سے ضرورت کی جگہ امریکی فوجی پہنچ سکیں گے،افغانستان سے متعلق فیصلہ مایوس کن نہیں،زمینی حقائق دیکھ کرکیا،امریکاکی قومی سلامتی کے لیے یہ اقدام بےحد ضروری تھا،انہوں نے کہاکہ افغان فوجی اپنے ملک کا بہادری سے تحفظ کر رہے ہیں ہم نے افغان فوجیوں کو افغانستان کی سیکیورٹی کیلیے ٹریننگ دی ،افغان فوجیوں کوالقاعدہ کے خلاف کارروائی کی بھی تربیت دی،اس وقت افغانستان کی حفاظت کی ڈیوٹی افغان فوجی کر رہے ہیں،تاہم افغان فورسز ابھی اتنی مضبوط نہیں جتنا انہیں ہوناچاہیے ،انہوں نے کہاکہ قندوز شہر کو طالبان سے کامیابی سے خالی کرایا گیاطالبان کو کسی بھی جگہ پر قبضہ نہیں کرنے دیں گے ،میں اپنی ٹیم کیساتھ افغان صورتحال کا باقاعدگی سے جائزہ لیتاہوں،انہوں نے کہاکہ پاکستان میں کارروائی کی وجہ سے القاعدہ کا افغانستان پر دباو¿ بڑھا ہے،امریکی صدرباراک اوبامانے کہاکہ کابل میں اب بھی طالبان کی جانب سے حملے جاری ہیں،انہوں نے کہاکہ میں ایک نہ ختم ہونے والی جنگ کے نظریے کی حمایت نہیں کرتاافغانستان بدستور خطرناک ملک ہے،انہوں نے کہاکہ افغان صدراشرف غنی کرپشن کے خلاف اورقانون کی عملداری کیلیے کام کر رہے ہیں،افغان صدرکی خواہش ہے کہ افغان فورسزتربیت یافتہ ہوں،باراک اوبامانے کہاکہ ہم تمام اتحادیوں پرزوردیتے ہیں طالبان کومذاکرات کی میزپرلانے میں کرداراداکریں ،ان کا کہنا تھا کہ امریکہ افغانستان سے کیے گئے وعدوں پر قائم ہے اور افغان افواج کو مدد فراہم کرتا رہے گا،اگرچہ افغانستان میں امریکہ کا عسکری مشن ختم ہو چکا ہے لیکن افغانستان اور وہاں کے عوام سے کیے گئے وعدے برقرار ہیں، میں بطور کمانڈر ان چیف اجازت نہیں دوں گا کہ افغانستان دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ بنے اور اسے ہماری قوم پر حملے کے لیے دوبارہ استعمال کیا جائے،امریکی صدر نے کہا کہ ہماری افواج دو چھوٹے مگر اہم مشنز میں مصروف رہیں گی جو کہ افغان فوج کی تربیت اور القاعدہ کی باقیات کے خلاف انسدادِ دہشتگردی کی کارروائیوں میں مدد دینا ہیں،امریکی صدرباراک اوبامانے کہاکہ آیندہ ہفتے وزیراعظم پاکستان نوازشریف کی میزبانی کروں گا، وزیراعظم نوازشریف سے ملاقات میں طالبان،افغان حکومت سے مذاکرات آگے بڑھانے پربات ہوگی،قبل ازیں امریکہ کی قومی سلامتی کونسل نے جاری ایک بیان میں کہاکہ امریکی حکام نے کہاکہ یہ فوجی افغانستان میں چار مقامات، کابل، بگرام، جلال آباد اور قندھار میں تعینات رہیں گے،بیان کے مطابق پالیسی میں تبدیلی ’کئی ماہ تک جاری رہنے والے تفصیلی جائزے کا نتیجہ ہے،بیان کے مطابق ابتدائی منصوبے کے تحت 2016 کے آخر تک امریکی سفارتخانے کے عملے کے محافظین کے علاوہ تمام امریکی فوجیوں کو افغانستان سے واپس آنا تھا،تاہم امریکی فوج کا کہنا ہے کہ ملک میں طالبان کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کی وجہ سے افغان فوج کو مدد کی ضرورت پڑ سکتی ہے،خیال رہے کہ اس وقت 9800 امریکی فوجی افغان فوجیوں کی تربیت اور معاونت کے لیے دو سال کے عرصے کے لیے افغانستان میں ہیں،حال ہی میں افغانستان میں نیٹو افواج کے کمانڈر اور امریکی فوج کے جنرل جان کیمبل نے بھی کہا تھا کہ امریکہ کو 2016 کے بعد بھی افغانستان میں اپنی عسکری موجودگی میں اضافے پر غور کرنا چاہیے،قندوز میں ایم ایس ایف کے ہسپتال پر امریکی بمباری کے بعد واشنگٹن میں امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے سامنے بیان دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں ’سکیورٹی کی مخدوش صورتحال‘ اس بات کی متقاضی ہے کہ وہاں تعینات فوج میں کمی کی حکمتِ عملی پر نظرِ ثانی کی جائے۔اس سے پہلے افغان صدر اشرف غنی نے بھی رواں برس کے آغاز میں امریکہ سے کہا تھا کہ وہ سنہ 2016 کے اختتام تکفوجوں کے انخلا کے فیصلے پر نظر ثانی کرے،افغان فورسز کی طاقت کے بارے میں خدشات شمالی صوبے قندوز پر طالبان کے حملے اور جزوی قبضے کے بعد ایک بار پھر ابھر کر سامنے آئے ہیں۔