واشنگٹن (نیوزڈیسک)شام میں صدر بشار الاسد کی حمایت اور مخالفت میں امریکہ اور روس کھل کر آمنے سامنے آگئے ہیں اوران کے درمیان براہ راست جنگ کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے جبکہ امریکہ نے واضح طورپر روس کو دھمکی دی ہے کہ وہ فوجی سطح پر تعاون کرے بصورت دیگر خطرناک انجام کےلئے تیار رہے ۔یہ دھمکی ایسے وقت میں دی گئی ہے جبکہ روس شام کے ساحل پر بحری مشقوں میں مصروف ہے اور امریکی حکام کاخیال ہے کہ وہ صدر بشارالاسد کو تحفظ فراہم کررہا ہے امریکہ داعش کے خلاف فضائی حملوں کےلئے شام کی فضائی حدود استعمال کررہا ہے اور وہاں بڑی تعداد میں روسی فوجیوں کی موجودگی سے خدشہ ہے کہ سرد جنگ کے حریفوں کے درمیان براہ راست معرکہ ہوسکتا ہے امریکہ اور روس دونوں داعش کو اپنا دشمن قرار دیتے ہیں جس نے شام اور عراق کے بڑے حصے پر قبضہ کر رکھا ہے مگر شام میں روس اسد حکومت کا حامی اور امریکہ اس کا مخالف ہے ۔صدر براک اوباما نے کہاکہ داعش کے خلاف کارروائی کے بارے میں امریکی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی میری لینڈ میں فوجی ارکان سے خطاب کرتے ہوئے انہوںنے کہاکہ امریکہ داعش کے خلاف ہر ممکن قدم اٹھا رہے گا اور اس مقصد کےلئے ہم چاہتے ہیں کہ روس سمیت تمام ممالک ملکر
کام کریں ۔انہوں نے کہاکہ روس اس معاملے میں ڈبل گیم نہیں کھیل سکتا ۔میڈیا اطلاعات کے مطابق روس ایس اے 22طیارہ شکن میزائل شام بھیج رہا ہے جوامریکی طیاروں کےلئے خطرہ بن سکتے ہیں واشنگٹن میں امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف میں دو سو روسی فوجی شام میں موجود ہیں اور حالیہ دنوں میں ان کی تعداد میں مزید اضافہ ہوا ہے دوسری جانب ماسکو میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ سر گئی لاروف نے کہاکہ روس اسد حکومت کو اس لئے مدد فراہم کررہا ہے تاکہ وہ داعش کے خلاف لڑ سکے ہمارے فوجیوں کی وہاں موجودگی اسی سلسلے کی کڑی ہے اور ہم شامی فوجیوں کو تربیت دے رہے ہیں اطلاعات کے مطابق روسی بحریہ کا پانچ بحری جہازوں پر مشتمل سکواڈرن جو گائیڈ ڈ میزائلوںسے لیس ہے شامی پانیوں میں مشقوں کےلئے روانہ ہو چکا ہے روسی وزیر خارجہ نے کہاکہ یو کرین میں بحران کے بعد امریکہ نے خود فوجی سطح پر روس کے ساتھ رابطے ختم کر دیئے تھے حالانکہ اس قسم کے رابطے اچانک حادثات سے بچنے کےلئے ضروری ہوتے ہیں ۔انہوںنے کہاکہ انہوںنے امریکی وزیر خارجہ جان کیری سے بار بار کہا ہے کہ امریکہ رابطے ختم کررہا ہے ۔