تسکین نہیں ہوتی۔ انگلینڈ کے چلڈرن کمشنر کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سپاوز ویزے کے قواعد میں سختی کی وجہ سے ہزاروں بچے ایک پیرنٹ سے دور ہوگئے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق جو بچے والدین سے بچھڑ جاتے ہیں ان میں بہت زیادہ بے چینی پیدا ہوتی ہے اور وہ پریشان رہتے ہیں۔ چلڈرن کمشنر این لانگ فیلڈ نے کہا کہ ایک پیرنٹ سے بچھڑنے والے بچے دوسرے پیرنٹ کے ساتھ صرف سکائپ پر ہی بات ہوسکتی ہے۔ روزنامہ جنگ کے صحافی آصف ڈارکی رپورٹ کے مطابق انہوں نے کہا کہ وہ یہ نہیں کہتیں کہ ان بچوں کو غیر قانونی طور پر والدین تک رسائی دی جائے۔ تاہم برطانوی بچوں اور خاندانوں کی بھلائی کے لیے ان قواعد پر نظرثانی ضرور کی جانی چاہیے۔ چلڈرن کمشنر کی طرف سے یہ تحقیقی رپورٹ ویلفیئر آف امیگرنٹس اور مڈل سیکس یونیورسٹی نے کی ہے اور اس میں کہا گیا ہے کہ اس قانون سے اب تک15ہزار بچے متاثر ہوئے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک پیرنٹ سے جدائی کی وجہ سے یہ خاندان بہت سے مسائل کا شکار ہیں، خاص طور پر بچوں کی تربیت اور دیکھ بھال میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان قواعد سے وہ برطانوی خاندان متاثر ہورہے ہیں جن کی تنخواہیں کم ہیں۔ تحقیقی رپورٹ کے مطابق بچھڑے ہوئے جن خاندانوں کے ساتھ بات کی گئی ان کا کہنا ہے کہ بچوں کو دوسرے مسائل کے ساتھ جذباتی مسائل کا بھی سامنا ہے اور ان کی آگے بڑھنے کی عمر شدید طور پر متاثر ہورہی ہے۔ جائنٹ کونسل آف ویلفیئر آف امیگرنٹس کی سائرہ گرانٹ نے بتایا کہ بچوں کو ایک پیرنٹ کے بغیر زندگی گزارنے پر صرف اس لیے مجبور کیا جارہا ہے کہ ان کے والدین کی تنخواہ کم ہے۔ دریں اثناء برٹس پاکستانی کمیونٹی نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر سپاوز ویزے کی شرائط میں نرمی کرے تاکہ بچے اپنے دونوں والدین کے ساتھ رہ سکیں اور ان کی تربیت درست طریقے سے ہو۔ معروف سوشل ورکر بشریٰ طاہر نے بتایا کہ ایک پیرنٹ سے الگ رہنے والے بچے نفسیاتی مسائل کا بھی شکار ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر پاکستانی کمیونٹی اس مسئلے پر توجہ دے اور اس بارے میں ثبوت اکٹھے کرکے حکومت کو دے تو یقیناً ان قواعد کو تبدیل کرایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک میں بیروزگاری بہت زیادہ ہے۔ گریجویٹ نوجوانوں کو بھی ملازمتیں نہیں ملتیں، ایسے میں وہ کس طرح18ہزار چھ سو پونڈ کی شرائط پوری کریں گے۔ کنزرویٹو پارٹی کے کونسلر محبوب چوہدری نے بتایا کہ اگر