لندن (نیوزڈیسک)برطانیہ میں رہنے والے پاکستانی، بھارتی اور جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے دوسرے ممالک کے خاندانوں نے اپنے آبائی ممالک یا پھر برطانیہ سے بھی محفوظ رشتوں کی تلاش کے لئے ایسے جاسوس اداروں کی خدمات حاصل کرلی ہیں جو لڑکوں یا لڑکیوں کے بارے میں تحقیقات کرکے ان کے کردار سے والدین کو آگاہ کرتے ہیں اور اس کے بدلے میں وہ ان سے معقول معاوضہ لیتے ہیں۔ روزنامہ جنگ کے صحافی آصف ڈارکی رپورٹ کے مطابقان کا کہنا ہے کہ بچوں کی شادیوں کے سلسلے میں سیفٹی کو اولیت دینا ضروری ہے۔ روایتی طور پر پاکستان اور دوسرے ممالک میں یہ کام دائیاں اور مائیاں کیا کرتی تھیں جن کو اپنے قریبی محلوں میں موجود لوگوں کے بارے میں بڑے پیمانے پر معلومات حاصل ہوتی تھیں۔ یہی عورتیں شادیاں کراتی تھیں اور خاندانوں کو ایک دوسرے کے بارے میں آگاہ بھی کرتی تھیں جبکہ اس کے علاوہ رشتے ہونے کی صورت میں شادی سے قبل خاندان والے ایک دوسرے کے بارے میں اپنے رشتہ داروں اور دوستوں و عزیزوں سے تحقیقات کراتے تھے۔ اس کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ ان کو لڑکے یا لڑکی کے بارے میں صحیح معلومات مل سکیں کیونکہ بعض اوقات خاندان والے لڑکوں اور لڑکیوں کی کمزوریوں کو چھپا لیتے ہیں اور شادی کے بعد ان کے منفی نتائج نکلتے ہیں۔ آبادی کے بڑھنے اور لوگوں کی مصروفیات کی وجہ سے اب شادیوں کے بارے میں تحقیقات کا کام دائیوں، مائیوں اور عزیز و اقارب سے آگے نکل گیا ہے اور اب لوگ ایک دوسرے کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔ چنانچہ اب اس سلسلے میں نہ صرف پاکستان، بھارت اور دوسرے ایشیائی ممالک میں بلکہ برطانیہ میں بھی لوگوں نے رشتوں کے بارے میں تحقیقات کے لئے ایجنٹوں کی خدمات حاصل کرنا شروع کردی ہیں جو لڑکی یا لڑکے کے بارے میں ساری معلومات حاصل کرکے اپنے گاہکوں کو دیتے ہیں۔ تحقیقات کرنے والی برطانوی کمپنیوں کا کہنا ہے کہ ان کے کاروبار میں زبردست اضافہ ہورہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ رابطہ کرنے والے گاہک یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ان کے ہونے والے رشتہ داروں نے اپنے بارے میں جو دعوے کئے ہیں آیا وہ درست ہیں۔ ایک پرائیوٹ تحقیقات کار لیون ہارٹ نے کہا ہے کہ چونکہ جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے خاندان زیادہ تر طے شدہ شادیاں کرتے ہیں اس لئے ان کو ایک دوسرے کے خاندان کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہوتیں۔ وہ صرف ان معلومات پر بھروسہ کرتے ہیں جو ان کو ایک دوسرے کے خاندان والے یا قریبی دوست دیتے ہیں۔ چنانچہ اس طرح کے خاندان اپنے بچوں کے محفوظ مستقبل کے لئے ان کے ساتھ رابطہ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم ہر ماہ 10 سے 20خاندانوں کے بارے میں تحقیقات کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کے 70فی صد گاہک لڑکیوں کے خاندان والے ہوتے ہیں۔لائن انویسٹی گیشن کے ڈائریکٹر راج سنگھ نے کہا ہے کہ بعض اوقات لڑکی والے لڑکوں کے بارے میں معمولی معلومات حاصل کرنے کے بھی خواہاں ہوتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ لڑکا کونسی کار چلاتا ہے اور وہ روزانہ کتنی شراب پیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ابتدائی معلومات سے بہت سی تفصیلات حاصل کرنے کی فیس 100پونڈ سے ہزاروں پونڈ تک ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے حال ہی میں ایک کیس کی کئی ہفتے تک تحقیقات کی اور لڑکے کو فالو کیا۔ اس کی انہوں نے ساڑھے چار ہزار پونڈ فیس وصول کی۔ ایک 36سالہ دلہن صاعقہ کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے شوہر کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لئے تحقیقاتی ایجنٹ کو 5سو پونڈ ادا کئے۔ انہوں نے کہا کہ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ ان کی شادی کسی ایسے شخص سے ہوجائے جو انہیں پریشان کرے۔ اس لئے انہوں نے مناسب فیس دے کر اپنے ہونے والے شوہر کے بارے میں تحقیقات کرائی اور پھر شادی کرلی۔ انہوں نے کہا کہ ان کی بعض دوستوں نے بھی تحقیقاتی ایجنٹوں کے ذریعے اپنے ہونے والے شوہروں کے بارے میں معلومات حاصل کی ہیں۔ ایک بھارت نژاد باشندے 54سالہ سکویر ملہوترا کا کہنا ہے کہ انہوں نے بھارت میں اپنی لڑکی کے لئے رشتہ دیکھا اور موجود تحقیقات ایجنٹوں سے اس کی تحقیقات کرائی تو معلوم ہوا کہ لڑکا برٹش شہری بننے کے لئے ان کی بیٹی سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے اس مقصد کے لئے 25سو پونڈ کی فیس دی اور انہیں خوشی ہے کہ ان کی بیٹی بڑے فراڈ سے بچ گئی۔ دریں اثناء مانچسٹر سے تعلق رکھنے والی سالیسٹر بشریٰ انور نے جنگ لندن کو بتایا ہے کہ پرانے زمانے میں دائیاں اور مائیاں خاندانوں کو بچپن سے جانتی تھیں مگر اب یہ کام پیچیدہ ہوگیا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ایسے ادارے ہوں جو اپنی فیس لے کر خاندانوں کو دھوکہ دہی سے بچائیں۔ انہوں نے کہا کہ بعض اوقات خاندان والے خاص طور پر لڑکوں کی عادات کو چھپاتے ہیں اور لڑکی والوں کے ساتھ جھوٹ بولتے ہیں۔ بعد میں پتہ چلتا ہے کہ لڑکے کی گرل فرینڈ بھی ہے اور وہ برے کام بھی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تھوڑی سی فیس دے کر لڑکیوں اور لڑکوں کی زندگیوں کو بچایا جاسکتا ہے۔ ممتاز ماہر تعلیم ڈاکٹر سندس نے کہا ہے کہ فراڈ اور دھوکہ دہی سے بچنے کے لئے تحقیقات اداروں کی خدمات بہت اہم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو لڑکیاں تحقیقات کے بغیر شادی کرلیتی ہیں ان کو بعض اوقات گھریلو تشدد کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بچوں کے رشتوں کو مکمل چھان بین کے بعد ہی کرانا چاہیے تاکہ ان کی زندگی تباہ نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ اسلام میں بھی شادیوں کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ مکمل چھان بین کے بعد ہی شادیاں ہونی چاہئیں۔ ریڈبرج ایجوکیشن اینڈ سوشل ویلفیئر سپورٹ گروپ کی چیئرمین بشریٰ طاہر ایم بی ای نے کہا کہ وہ خود فی سبیل اللہ یہ کام کرتی ہیں اور اپنے جاننے والے خاندانوں کو ایک دوسرے سے متعارف کراتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں کام کرنے والی تحقیقات ایجنسیوں کو باقاعدہ رجسٹرڈ ہونا چاہئے اور یہ ادارے قابل بھروسہ ہونے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ پیسے لے کر غلط انفارمیشن دینے سے بھی خاندانوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔