کھٹمنڈو(نیوزڈیسک)کالی گنڈکی دریا کا راستہ مٹی کے تودے گرنے سے مسدود ہو گیا تھا جس کے سبب نیپال میں سیلاب آنے کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔حال ہی میں آنے والے تباہ کن زلزلے سے متاثرہ ملک نیپال میں سیاحت کے کاروبار سے منسلک آپریٹروں نے بین الاقوامی ماہرین ارضیات کی مدد حاصل کی ہے۔یہ مدد وہ اس بات کی یقین دہانی کے لیے حاصل کر رہے ہیں کہ کون سے علاقوں کو ٹریکنگ اور کوہ پیمائی کے لیے محفوظ قرار دیا جائے۔زلزلے سے متاثرہ پہاڑوں میں خطرات میں اضافے کے پیش نظر انھوں نے بڑے ماہرینِ ارضیات سے رجوع کیا ہے کیونکہ نیپال میں سیاحت آمدنی کا اہم ذریعہ ہے۔سیاحوں کی اہم منازل میں ابھی بھی مٹی کے تودے گرنے کا عمل جاری ہے کیونکہ زلزلے اور آفٹر شاکس کے بعد پہاڑ غیر مستحکم اور متزلزل ہو کر رہ گئے ہیں۔مرکزی نیپال کے علاقے منسالو، لان ٹینگ، رول والنگ اور ہیلامبو کے ٹریکنگ علاقے سب سے زیادہ خطرناک تصور کیے جا رہے ہیں لیکن اناپورنا اور ایورسٹ کے علاقوں کے بارے میں بھی خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں جہاں سب سے زیادہ ٹریکر اور کوہ پیما آتے ہیں۔نیپال کی ٹریکنگ ایجنٹس ایسوسی ایشن کے صدر رمیش دھمالا نے بتایا کہ ’زلزلے سے متاثرہ سیاحتی مقامات کو محفوظ قرار دینے سے قبل ہمیں بین الاقوامی ماہرین ارضیات کی تجزیاتی رپورٹ درکار ہوں گی جو اس علاقے کا دورہ کرنے والے ہیں۔‘انھوں نے کہا کہ ’جب تک وہ کسی علاقے کومحفوظ قرار نہیں دیتے ہم لوگ صرف فوری منافعے کے لیے یہ خطرناک تجارت نہیں کریں گے۔‘’ہم حکومت سے تحریری طور پر یہ درخواست کریں گے کہ حب تک کہ ماہرین کی تجزیاتی رپورٹ عالمی طور پر سامنے نہیں آتی ان علاقوں کو (ٹریکنگ یا کوہ پیمائی کے لیے) نہ کھولا جائے۔‘ٹریکنگ کرانے والے ایجنٹوں کو خدشہ ہے کہ اگر زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں موجودہ حالات میں سیاحوں کو اجازت دے دی گئی اور اگر اس قسم کا کوئی دوسری آفت آئی تو اس ملک کی سیاحت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔نیپال میں ہر سال جتنے سیاح آتے ہیں ان میں تقریبا 13 فی صد ٹریکنک اور کوہ پیمائی کے لیے آتے ہیں۔اسی طرح کوہ پیمائی کے کاروبار سے منسلک افراد بھی پریشان ہیں۔نیپال میں کوہ پیما ایسوسی ایشن کے صدر آنگ تشیرنگ شرپا نے کہا: ’ہمارا بھی ایسا ہی خیال ہے اور ہم اس معاملے میں ٹریکنگ والوں اور حکومت کے ساتھ ہیں کہ سائنسی تجزیہ کرایا جائے کیونکہ ان علاقوں میں کوہ پیماوں کا جانا بھی اتنا ہی خطرناک ہے۔‘تاہم بعض آپریٹروں کا خیال ہے کہ جس قدر جلد ممکن ہو اسے دوبارہ شروع کردینا چاہیے کیونکہ زلزلے سے تمام جگہیں متاثر نہیں ہوئی ہیں اور بعض جگہ خطرات کم ہیں۔خیال رہے کہ ہرسال نیپال میں لاکھوں سیاح پہنچتے ہیں۔ سنہ 2013 اور اس سے پہلے سنہ 2012 میں آٹھ لاکھ سیاح وہاں پہنچے تھے جن میں سے تقریبا 13 فی صد سیاح ٹریکنگ اور کوہ پیمائی کے لیے آتے ہیں۔زلزلے سے پہاڑ غیر مستحکم ہو جاتے ہیں اور ان کا پورا جغرافیہ بدل جاتا ہے ۔ماہر ارضیات کا کہنا ہے کہ زلزلے کی وجہ سے تودے گرنے کے تین ہزار سے زیادہ واقعات رونما ہوئے ہیں اور آنے والے مون سون میں حالات مزید خراب ہوں گے۔برطانیہ کی ڈرہم یونیورسٹی کے پروفیسر ایلکس ڈینسمور کا کہنا ہے کہ ’یہی وجہ ہے کہ پہاڑ غیر مستحکم ہوتے ہیں کیونکہ زلزلے سے پوری لینڈ سکیپ ہل کر رہ جاتی ہے اور پہاڑوں پر موجو مٹی اور چٹانیں متاثر ہوتی ہیں۔’اس کا مطلب یہ ہے کہ جو پہاڑیاں زلزلے میں نہیں گریں انھیں بھی نقصان پنہچا ہے اور وہ 25 اپریل سے پہلے کے مقابلے میں اب زیادہ خطرناک ہیں۔‘ایریزونا یونیورسٹی کے پرفیسر جیفری کارگیل نے نیپال کی سرزمین کا مطالعہ کر رکھا ہے۔ ان کہنا ہے کہ نیپال کی پہاڑوں کی موجودہ صورت حال پر ایک تجزیہ انتہائی ضروری ہے۔