اسلام آباد(نیوزڈیسک)سعودی عرب کے مشرقی شہر القطیف میں گزشتہ روز ایک مسجد میں مبینہ خودکش حملے کے نتیجے میں کم سے کم 20 افراد جاں بحق اور 100 سے زائد نمازی زخمی ہوئے ہیں۔ دوسری جانب سعودی وزات داخلہ کے ترجمان میجر جنرل منصور الترکی نے مسجد پر حملے کو انتہا پسند گروپوں کی فرقہ واریت پھیلانے کی گھناﺅنی سازش قرار دیا ہے۔ غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق القطیف کی ایک جامع مسجد میں ہونے والے خودکش حملے نے رواں سال کے آغاز میں سعودی سیکیورٹی فورسز کے اس بیان کو ایک بار پھر تازہ کیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ فورسز نے ملک میں فرقہ واریت پھیلانے کی خطرناک سازشوں کو ناکام بناتے ہوئے 65 دہشت گردوں کو حراست میں لیا ہے۔القطیف کی ایک مسجد میں ہونے والے خودکش بم دھماکے کی کڑیاں بھی گرفتار دہشت گردوں کی سازشوں سے ملتی ہیں کیونکہ دولت اسلامی “داعش” نامی گروپ نے نہ صرف دہشت گردی کے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کی ہے بلکہ خودکش حملہ آور کی تصویر بھی جاری کی گئی ہے جس کا نام “ابو البرائ النجدی” بتایا گیا ہے۔ ابو البرائ النجدی نے ہی نے مبینہ طور پر القطیف شہر کے القدیح قصبے میں جامع مسجد میں گھس کر خود کو دھماکے سے اڑا دیا تھا۔سعودی وزارت داخلہ کے ترجمان میجر جنرل منصور الترکی نے القطیف میں دہشت گردی کے واقعے پر بات کرتے ہوئے اسے دہشت گردی کی ایک مجرمانہ کارروائی اور فرقہ واریت پھیلانے کی گھناﺅنی سازش قرار دیا۔ انہوں نے بتایا کہ ایسا ہی ایک واقعہ کچھ عرصہ پہلے الدالو قصبے میں بھی رونما ہو چکا ہے تاہم اس میں ملوث دہشت گردوں کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔جنرل الترکی کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی فورسز نے نہایت ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک میں دہشت گردی کے کئی خطرناک سازشوں کو ناکام بنایا ہے
اور 65 دہشت گردوں کو گرفتار کرکے انہیں قرار واقعی سزائیں دی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ القطیف میں گذشتہ روز دہشت گردی کے واقعے میں ملوث تمام بزدل دہشت گردوں کو حراست میں لے لیا جائے گا.