نیو یارک (نیوز ڈیسک) رات کی نیند کسے پیاری نہیں ہوتی ہے اور اس میں تعجب کی بات نہیں ہے کہ انسانوں کی طرح جانوروں کو بھی نیند عزیز ہوتی ہے لیکن آپ کو یہ جان کر شاید حیرانی ہو کہ آپ کی پالتو بلی جو رات دن سوتی ہے اور اس کے باوجود سست اور کاہل ہے اس کے مقابلے میں آپ کی رات کی نیند زیادہ فائدہ مند ہے اور یہ امریکی سائنس دانوں کی نئی تحقیق کا نتیجہ کہتا ہے۔سائنسی جریدے ایوولوشنری اینتھروپولوجی کی دسمبر کی اشاعت میں شائع ہونے والی تحقیق کے لیے ڈیوک یونیورسٹی کے محققین نے بندروں کی بیس نسلوں اور سینکڑوں ممالیہ جانوروں اور انسانوں میں نیند کے نمونوں کا جائزہ لیا ہے۔تحقیق کے سربراہ محقق ڈیوڈ سیمسن کے مطابق انسان ہر رات تقریباً سات گھنٹوں کی نیند لیتا ہے جو دوسرے جانوروں مثلاً چوہے کی نیند کے مقابلے میں آدھی سے کم ہے جبکہ بندروں کی مختلف قسموں میں نیند کا دورانیہ زیادہ سے زیادہ 17 گھنٹوں کا ہوتا ہے۔تحقیق کے مصنفین کو پتا چلا کہ انسان اپنے قریبی رشتے دار سمجھے جانے والے بن مانس، چیمپینزی اور بندروں کی دیگر نسلوں کے مقابلے میں کم سوتا ہے۔ اس کی نیند مختصر ہے لیکن وہ دوسرے جانوروں کے مقابلے میں زیادہ گہری نیند لیتا ہے اور ’ریم سلیپ‘ میں زیادہ دیر تک سوتا ہے۔نتائج سے ظاہر ہوا کہ جب انسان مکمل طور پر سو جاتا ہے تو ریم سلیپ کا مرحلہ شروع ہوتا ہے اور انسان 25 فیصد نیند اسی مرحلے میں پوری کرتا ہے۔محققین کے مطابق اگرچہ دوسرے جانوروں کو بھی نیند آتی ہے لیکن جانوروں کی نیند میں ریم سلیپ کا دورانیہ اندازاً 5 فیصد ہے۔محققین نے کہا کہ یہاں ہم نے نیند کی شدت اور انسان کی علمی قابلیت کے ارتقاءکا مفروضہ پیش کیا ہے جس کے مطابق ابتدائی انسانوں کو کم وقت میں نیند کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے دباوکا سامنا کرنا پڑا ہو گا اور جب وہ درختوں پر سے زمین میں رہنے لگے تو نیند کی تبدیلی ان کے لیے فائدہ مند ثابت ہوئی جس کا مطلب یہ تھا کہ زیادہ گھنٹے جاگنے کی وجہ سے ان کے لیے خونخوار جانوروں یا حریف قبائل کے حملوں کا خطرہ کم تھا اسی طرح ان کے پاس سماجی رابطوں سے پیدا ہونے والے فوائد حاصل کرنے کے لیے زیادہ وقت تھا۔محققین کے مفروضہ کے مطابق کم نیند نے انھیں زیادہ طویل وقت کے لیے کارآمد بنا دیا تھا جس میں وہ نئی مہارتیں اور معلومات سیکھتے اور رات کی گہری نیند ان یاداشتوں کو مضبوط بنانے کے لیے ضروری تھی جس کے نتیجے میں انسان کی علمی صلاحیتوں میں اضافہ ہوا۔اس دلیل کے ساتھ یہ کہا جا سکتا ہے کہ کم سونے والے ابتدائی انسانوں کی نسلیں اپنی بقا کی جنگ لڑنے میں کامیاب رہیں جنہوں نے ماحول سے حیاتیاتی ارتقاءکا عمل قبول کیا اور انہی میں آج کے انسان کے اجداد بھی ہیں جنہوں نے انتہائی تیز رفتاری سے اپنے آپ کو ترقی دی اور نیند کا یہ پیٹرن ان میں نسل در نسل منتقل ہوا۔