کراچی (این این آئی)ممتاز اسلامی اسکالرز اور ماہرین طب نے ایک مشترکہ اعلامیے پر دستخط کیے جس میں اس بات کی تصدیق کی گئی کہ اسلام موت کے بعد اعضا عطیہ کرنے کی اجازت دیتا ہے تاکہ دوسرے انسانوں کی جانیں بچائی جا سکیں یا ان کی زندگیوں کو بہتر بنایا جا سکے۔ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کی جانب سے جاری کردہ ایک پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ یہ اعلان کراچی میں یونیورسٹی کے زیر اہتمام ایک سیمینار میں کیا گیا، جہاں اسکالرز اور طبی ماہرین نے اسلام میں دماغی موت اور اعضاء کی پیوند کاری کے اخلاقی اور مذہبی پہلوؤں پر بات چیت کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے تھے۔
اعلامیے میں اس بات پر زور دیا گیا کہ موت کے بعد اعضاء کا عطیہ، مناسب رضامندی اور اخلاقی تعمیل کے ساتھ، نہ صرف جائز ہے بلکہ اسلامی تعلیمات میں اسے صدقہ جاریہ (مسلسل خیرات) کا عمل بھی سمجھا جاتا ہے۔علماء نے مسلمانوں میں اعضاء کے عطیہ کے جائز ہونے اور اس سے منسلک روحانی اجر کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔انہوں نے صحت کی دیکھ بھال کرنے والے اداروں اور پالیسی سازوں پر زور دیا کہ وہ اعضاء کے عطیہ کی حمایت کرنے والے واضح رہنما اصول وضع کریں اور ساتھ ہی مذہبی اور اخلاقی خدشات کو بھی دور کریں۔سیمینار میں خطاب کرنے والوں میں اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین علامہ راغب حسین نعیمی، پروفیسر ڈاکٹر نور احمد شاہتاز، پروفیسر ڈاکٹر عاصم احمد، ڈاؤ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی اور ڈاؤ آرگن ڈونیشن سوسائٹی کے صدر ڈاکٹر توقیر عباس شامل تھے۔
سیمینار میں فیکلٹی ممبران اور طلباء کی ایک بڑی تعداد نے بھی شرکت کی۔اپنے استقبالیہ خطاب میں وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی نے کہا کہ اسلام نے انسانی زندگی کی حرمت پر بہت زور دیا ہے، اور اس طرح، اعضاء کی پیوند کاری محض ایک طبی عمل نہیں بلکہ انسانیت کی ایک اہم خدمت ہے۔چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل علامہ راغب حسین نعیمی نے وضاحت کی کہ لائف سپورٹ ہٹانے کا کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے ڈاکٹروں کو دماغی موت کی تصدیق کرنی چاہیے۔علامہ راغب حسین نعیمی نے کہا کہ ایک بار جب دماغی موت کا اعلان ہو جائے تو وینٹیلیٹر ہٹانا جائز ہو جاتا ہے، اور اعضائ کا عطیہ پہلے سے رضامندی یا خاندان کی منظوری سے کیا جا سکتا ہے۔
‘ انہوں نے مزید کہا کہ ‘ زیادہ بقا کے امکانات والے مریض کے لیے وینٹیلیٹر کا دوبارہ استعمال بھی جان بچانے والے عمل کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔علامہ محمد خان شیرانی نے تسلیم کیا کہ اسلام اعضاء کے عطیے کی اجازت دیتا ہے لیکن زور دیا کہ اخلاقی پیچیدگیوں کے پیش نظر اس عمل کو ‘ انتہائی احتیاط کے ساتھ کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ دیانتداری اور انصاف بہت اہم ہیں، خاص طور پر ایسے حساس معاملات میں۔علامہ شہنشاہ نقوی نے اس بات پر زور دیا کہ چونکہ اسلام زندگی کی حرمت کو بہت اہمیت دیتا ہے،
اس لیے جانیں بچانے کے لیے اعضاء کا عطیہ جائز ہے، بشرطیکہ عطیہ دہندہ کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔پریس ریلیز کے مطابق انہوں نے طبی میدان میں ہونے والی نئی پیش رفتوں، بشمول جانوروں کے اعضاء کی انسانوں میں پیوند کاری کا بھی ذکر کیا، اور کہا کہ ‘ انسانی جان بچانا عطیہ کرنے والے جانور کی حیثیت پر مقدم ہے۔’مفتی رمضان سیالوی نے دو نقصانات میں سے کم نقصان کا اصول بیان کرتے ہوئے کہا کہ اعضاء کا عطیہ جائز ہے ‘ اگر میت کی حرمت کو برقرار رکھا جائے۔’ مفتی مظہر فرید نے بھی اسی خیال کا اظہار کرتے ہوئے عطیہ کرنے والے کی نیت اور ‘ اعضاء کی احترام کے ساتھ دیکھ بھال ‘ کی اہمیت پر زور دیا۔