کوئٹہ (آن لائن) پولیو ٹیکنیکل پرسن ایمر جنسی آپریشن ڈاکٹر آفتاب کاکڑ نے کہا ہے کہ پاک افغان چمن سرحد پر ہر روز 30 سے 35 ہزار افراد آتے جاتے ہیں، افغانستان میں امن وامان کی خراب صورتحال کے باعث پاکستانی سرحد سے ملحقہ ایک بڑے حصے میں پولیو مہم نہیں چلائی جارہی ،پچاس لاکھ بچے پولیو سے محروم ہیں،وہاں سے آنے والا ہر شخص وائرس لیکر آتا ہے، اسی طرح سندھ ،
خیبر پشتونخوا اور پنجاب سے بھی بلوچستان میں آمدروفت زیادہ ہے ، ہم بین الاقوامی اور بین الصوبائی سرحدوں پر آنے جانے والوں کو پولیو سے بچا کے قطرے پلاتے ہیں مگر اس کے باوجود یہاں پر باہر سے پولیو وائرس آجاتا ہے کوئٹہ، پشین اور قلعہ عبداللہ پر مشتمل ہائی رسک قرار دیئے گئے کوئٹہ بلاک کے ماحولیاتی نمونوں کے تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہ یہاں پولیو کا مقامی وائرس موجود نہیں، یہاں ہمیشہ باہر سے وائرس آتا ہے، یہاں افغانستان، سندھ، خیبر پشتونخوا کے پولیو وائرس پائے گئے ہیں ان خیالات کااظہارانہوں نے عرب خبر رساں ادارے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ لوگوں کے ذہنوں میں پولیو سے متعلق غلط تصورات بھی وائرس کے پھیلا کی بڑی وجہ ہے، پشاور واقعہ کے اثرات بلوچستان پر بھی پڑے ،کوئٹہ، قلعہ عبداللہ اور پشین میں انکاری والدین کی تعداد 50 سے60 ہزار تک پہنچ گئی جنہیں قائل کرنے کے لیے ہمیں خصوصی کوششیں کرنا پڑیں،ڈاکٹر آفتاب کاکڑ نے بتایا کہ بلوچستان میں اس سال پولیو سے متاثر ہونیو الے تمام 9 بچوں کو ان کے والدین نے پولیو کے قطرے نہیں پلائے تھے یا ان تک ٹیم نہیں پہنچی ، انہوں نے کہا کہ ان 9 بچوں میں سے بھی 7 لڑکے ہیں، لوگ اپنے کم عمر بیٹوں کو گھر گھر جانے والی پولیو ٹیموں سے چھپاتے ہیں کیونکہ ان کے ذہن میں پولیو سے متعلق یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ یہ مرد کے تولدی نظام پر اثر انداز ہوتا ہے،
ان کا کہنا ہے کہ پولیو وائرس سے متعلق لوگوں کے ذہنوں میں پائے جانے والے شکوک و شبہات اور غلط فہمیوں کا خاتمہ ضروری ہے اس کے لیے ہم ہر سطح پرکوششیں کررہے ہیں، ماحول میں پولیو وائرس کی موجودگی کی وجہ سے ہر بچے کو اس مرض سے خطرہ ہے اوربچا کا واحد راستہ ویکسین ہے جو مکمل طور پر محفوظ ہے،ڈاکٹر آفتاب کے بقول پولیو ویکسین آنتوں میں پندرہ سے بیس دنوں تک رہتا ہے
اس کے بعد یہ ویکسین نکل جاتا ہے اس لئے ہم متاثرہ اضلاع میں ہر چالیس دن میں پولیو مہم چلاتے ہیں، جن اضلاع سے پولیو وائرس رپورٹ نہیں ہوتا مثال کے طور پر تربت اور پنجگور وہاں ہم چار مہینوں میں صرف ایک بار مہم چلاتے ہیں،خیال رہے کہ پاکستان میں 2014 کے بعد ایک سال کے دوران پولیو کیسز کے سب سے زیادہ کیسز 2019 میں رپورٹ ہوئے ہیں، 2014 میں پولیو سے306 بچے
متاثر ہوئے تھے جس کے بعد عالمی ادارہ صحت کی سفارش پر پاکستان سے بیرون ملک سفر کرنے والے تمام افراد کیلئے پولیو سے بچا کے قطرے پینا لازمی قرار دیا گیا،ڈاکٹر آفتاب کاکڑ کا کہنا ہے کہ پاکستان نے جلد پولیو وائرس کا خاتمہ نہ کیا تو عالمی سطح پر مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے، عالمی برادری سفری پابندیوں میں مزید سختی کرسکتی ہے۔