ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

والدین بچوں کو نمونیے سے بچانے کے لیے ویکسین لگوائیں، ماہرین

datetime 7  ‬‮نومبر‬‮  2019
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

کراچی(این این آئی) ماہرین امراض اطفال نے 12 نومبر کو ورلڈ نمونیا ڈے کے حوالے سے بریفنگ میں کہا ہے کہ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو ویکسین لگوائیں۔ پاکستان میں سالانہ 92 ہزار پانچ سال سے چھوٹے بچے نمونیا کے باعث انتقال کر جاتے ہیں ۔ ڈاکٹر جمال رضا ، ڈائریکٹر آف نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ(NICH)، پروفیسر، ڈاکٹر جلال اکبر، پریزیڈنٹ الیکٹ، پاکستان، پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن (پی پی اے)

سندھ، ڈاکٹر غلام رسول، صدر پی پی اے سندھ اور ڈاکٹر محمد خالد شفیع، جنرل سیکریٹری، پاکستان، پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن (پی پی اے)، سندھ اور ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈائو یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز نے میڈیا کو بریف کیا۔انہوں نے کہا کہ پینے کے صاف پانی کے علاوہ صرف ویکسین ہی وبائی بیماریوں سے بچانے میںمعاون ہے لیکن اس کے باوجود والدین اپنے بچوں کو نمونیا سے بچاؤ کی ویکسین نہیں لگواتے۔ اگر بچوں کی ویکسینیشن کرائی جائے تو ان اموات پر قابو پایا جاسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ نمونیا نظام تنفس میں شدید نوعیت کا انفیکشن ہوتا ہے جس سے پھیپھڑے متاثر ہوجاتے ہیں اورسانس لینے میں شدید تکلیف اور دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بالخصوص 5 سال سے کم عمر بچوں پر کپکپی ، بے پوشی ، ہائیپو تھرمیا اور غنودگی طاری ہوجاتی ہے اور دودھ پینے میں بھی دشواری ہوتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں 5 سال سے کم عمر بچوں کی اموات میں سے 16 فیصد کی وجہ صرف نمونیا ہے جو 5 سال کی عمر تک پہنچنے سے قبل انتقال کر جاتے ہیں۔جبکہ دنیا بھر میں سالانہ نو لاکھ بیس ہزار بچے اس مرض کا شکار ہو کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نمونیا سے ہونے والی 99 فیصد اموات کا تعلق ترقی پذیر ممالک سے ہوتا ہے۔ پاکستان کا شمار دنیا کے ان 5 ممالک میں ہوتا ہے جن میں سب سے زیادہ نمونیا سے اموات ہوتی ہیں۔نمونیا سے تحفظ بچوں کی بیماری سے اموات روکنے کے

لیے نہایت ضروری ہے۔ خوش قسمتی سے نیموکوکل کنجوگیٹ ویکسین (نمونیا ویکسین) پاکستان کے EPI پروگرام میں اکتوبر 2012ء سے شامل کردی گئی تھی۔ اور پاکستان جنوبی ایشیا کا پہلا ملک ہے جس نے اپنے قومی حفاظتی ٹیکہ جات پروگرام میں اس پی سی وی کو شامل کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ حفظان صحت کے اصول ہی بیماریوں سے بچنے کا موثر حل ہے حتیٰ کے ہم صرف ہاتھ دھونے سے ہی کئی بیماریوں سے بچ

جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گلوبل ایکشن پلان، نمونیے کی روک تھام اور کنٹرول (GAAP) کا حصول اسی وقت ممکن ہے جب آگہی میں اضافہ کیا جائے۔ ہمیں والدین میں نمونیے کی علامات کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔اس سے پاکستان میں نمونیا کو کم کرنے میں کافی مدد ملے گی۔اس لیے تمام معاشرے کے طبقات بشمول ڈاکٹرز، میڈیا، والدین اور ماہرین اطفال کو اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…