کچھ اسے ’ددوڑا‘ بھی کہتے ہیں۔ یہ بھی الرجی ہی کی ایک قسم ہے مگر یہ شدید قسم کی ہوتی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ارٹیکیریا میں مبتلا افراد پر نفسیاتی دباو¿ بہت ہوتا ہے اور وہ اکثر تنہائی کاشکار ہو جاتے ہیں، خاص کر وہ مریض جن کا چہرہ بھی اس سےمتاثر ہوتا ہے۔ڈاکٹرافضل لودھی کا شمار کراچی کےمعروف ترین ماہرِامراضِ جلد میں ہوتاہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ بیماری نہیں بلکہ ایک طرح کی خرابی ہے جس میں جلد پر سرخ نشان بنتے ہیں، جلد پھول بھی جاتی ہے اور اس میں شدید خارش ہوتی ہے۔ عام لوگ اسے ’چھپاکی‘ یا ’چھپاکا‘ کہتے ہیں کچھ اسے ’ددوڑا‘ بھی کہتے ہیں۔ یہ بھی الرجی ہی کی ایک قسم ہے مگر یہ شدید قسم کی ہوتی ہے۔ڈاکٹر افضل لودھی کا کہنا ہے کہ صرف ان کے پاس اس بیماری کے پانچ سے چھ مریض روزانہ آتے ہیں۔ان کے مطابق اس کی عام نشانی یہ ہے کہ اگر کسی شخص کوارٹیکیریا ہوتو اس کی جلد کے کسی بھی حصےکو ہلکا سا ک±ھرچا جائے تو وہاں فوراً سرخ نشانات بن جاتے ہیں۔ڈاکٹر لودھی کے مطابق ارٹیکیریا کی وجوہات اب تک نامعلوم ہیں اور اس میں عمر کی بھی کوئی قید نہیں یہ کسی بھی عمر کے شخص کو کسی بھی چیز سے ہو جاتی ہے۔ کچھ افراد کو پانی یا دھوپ سے بھی ہو جاتی ہے تاہم 20 سے 40 سال کی عمر میں اس مرض کاحملہ ہونے کا امکان بڑھ جاتا ۔لودھی نے بتایا کہ یہ چھوت کا مرض نہیں ہے یعنی یہ ایک سے دوسرے کو نہیں لگتا، لہٰذا اس میں مبتلا شخص سےالگ رہنا یا دور بھاگنا نہیں چاہیے۔اس کے علاج کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ارٹیکیریا کا علاج مشکل تھا مگر اب ایسی کئی ادویات موجود ہیں جس سےاس کا علاج کیا جا سکتا ہے یا کم از کم اس پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں